Site icon

رمضان مبارک اور عید مبارک

✍️ جاوید اختر بھارتی

_________________

یقیناً عید الفطر خوشی کا دن ہے یوم الجزا بھی ہے اور یوم تشکر بھی ہے خوشی منانے کا بھی دن ہے اور خوشیاں بانٹنے کا بھی دن ہے لیکن حقیقی خوشی تو اسی کو حاصل ہوگی اور محسوس ہوگی جس نے رمضان مبارک کا روزہ رکھا ہوگا جس نے سحری و افطار کیا ہوگا جس نے تراویح کا اہتمام کیا ہوگا جس نے غرباء ومساکین کا خیال کیا ہوگا جس نے ایک ماہ میں تین تین فرائض پر عمل کیا ہوگا اسی کے لئے عیدالفطر اللہ کی طرف سے اجرت ملنے کا دن ہے اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور جس نے مذکورہ تمام امور سے منہ موڑے رہا اور رمضان مبارک کے مہینے میں بھی پورے دن کھاتا پیتا رہا اس کی کوئی عید نہیں بلکہ اس کی تو زبردستی کی عید ہے حقیقت یہی ہے کہ اس کے لئے عام دن کی طرح ہی عیدالفطر کا بھی دن ہے اللہ کرے کہ ہمیں بار بار رمضان مبارک کا مہینہ نصیب ہو ذکر و اذکار کی سعادت حاصل ہو اور اس کے نتیجے میں عید الفطر کا دن نصیب ہو ،، عیدیں ہم بھی مناتے ہیں مگر آئیے کچھ بزرگان دین کے حالات پر نظر ڈالیں کہ انہوں نے کیسے عید منائی –
سَیِّدُنا عبدُ الرَّحمٰن بِن عَمْرْو اَوْزاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بَیان کرتے ہیں کہ عِیْدُ الفِطْر کی شب دروازے پر دَستک ہوئی ، دیکھا تومیرا ہمسایہ کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا:کہو بھائی !کیسے آنا ہوا؟اُس نے کہا: ’’کل عید ہے لیکن خرچ کیلئے کچھ نہیں ،اگر آپ کچھ عنایت فرمادیں تو عزت کے ساتھ ہم عید کا دِن گزارلیں گے۔‘‘میں نے اپنی بیوی سے کہا: ہمارا فلاں پڑوسی آیا ہے اُس کے پاس عید کیلئے ایک پیسہ بھی نہیں ، اگر تمہاری رائے ہو تو جو پچیس دِرہم ہم نے عید کیلئے رکھ چھوڑے ہیں اس کو پیش کر دیں ہمیں اللہ تَعَالٰی اور دیدے گا۔ نیک بیوی نے کہا: بہت اچھا۔ چنانچہ میں نے وہ سب دِرہم اپنے ہمسائے کے حوالے کردئیے، وہ دُعائیں دیتا ہوا چلاگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر کسی نے دروازہ کَھٹکَھٹایا۔ میں نے جونہی دروازہ کھولا، ایک آدمی آگے بڑھ کر میرے قدموں پر گر پڑا اور رو روکر کہنے لگا: میں آپ کے والد کابھاگا ہوا غلام ہوں ، مجھے اپنی حرکت پر بہت ندامت لاحق ہوئی توحاضر ہو گیا ہوں ، یہ پچیس دینار میری کمائی کے ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں قبول فرمالیجئے، آپ میرے آقا ہیں اور میں آپ کا غلام ۔میں نے وہ دِینار لے لئے اور غلام کو آزاد کردیا۔ پھر میں نے اپنی بیوی سے کہا: خدا رب ذوالجلال کی شان دیکھو!اُس نے ہمیں دِرہم کے بدلے دِینار عطا فرمائے،،(پہلے درہم چاندی کے اور دینار سونے کے ہوتے تھے-
عید کے دِن چند حضرات مکانِ عالی شان پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ در وا زہ بند کرکے زَارو قطار رو رہے ہیں ۔ لوگوں نے حیران ہوکر عرض کیا: یاامیرَالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ !آج تو عید ہے جو کہ خوشی منانے کا دِن ہے ، خوشی کی جگہ یہ رونا کیسا؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا: ’’ھٰذا یَوْمُ الْعِیْدِ وَھٰذا یَوْمُ الْوَعِیْد‘‘یعنی یہ عید کا دِن بھی ہے اور وَعید کا دِن بھی ۔ جس کے نَمازو روزے مقبول ہوگئے بلا شبہ اُس کے لئے آج عید کا دِن ہے،لیکن جس کے نَمازو روزے رَد کر کے اُس کے منہ پر ماردیئے گئے اُس کیلئے تو آج وَعید کا دِن ہے (مزید انکساراً فرمایا:) اور میں تواِس خوف سے رو رہا ہوں کہ آہ!’’اَنَا لَا اَدْرِیْ اَ مِنَ الْمَقْبُوْلِیْنَ اَمْ مِنَ الْمَطْرُوْدِیْنَ ‘‘ یعنی مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہُوں یا رَد کردیا گیا ہوں
  خوب غور فرمائیے! وہ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جن کو مالک جنت، تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے اپنی حیاتِ ظاہری ہی میں جنت کی بشارت عنایت فرمادی تھی۔ اُن کے خوف وخشیت کا تو یہ عالم ہو اور ہم جیسے نکمے اور باتونی لوگوں کی یہ حالت ہے کہ نیکی کے’’ن‘‘کے نقطے تک تو پہنچ نہیں پاتے مگر خوش فہمی کا حال یہ ہے کہ ہم جیسا نیک اور پارسا تو شاید اب کوئی رہا ہی نہیں !اِس رِقت انگیز حکایت سے اُن لوگوں کو خصوصاًدرسِ عبرت حاصِل کرنا چائیے جو اپنی عبادات پر ناز کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے اور بلا مصلحت شرعی اپنے نیک اعمال مَثَلاً نَماز، روزہ ، حج ، مساجد کی خدمت، خلقِ خدا کی مدد اور سماجی فلاح وبہبود وغیرہ وغیرہ کاموں کا ہرجگہ اِعلان کرتے پھرتے ، ڈَھنڈوراپیٹتے نہیں تھکتے ، بلکہ اپنے نیک کاموں کی مَعَاذَ اللہ اخبارات ورَسائل میں تصاویر تک چھپوانے سے گریز نہیں کرتے۔
« شہزادے کی عید»
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ عید کے دِن اپنے شہزادے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رَو پڑے، بیٹے نے عر ض کی:پیارے اباجان! کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا:میرے لال ! مجھے اَندیشہ ہے کہ آج عید کے دِن جب لڑکے تمہیں اِس پرانی قمیص میں دیکھیں تو کہیں تمہارا دِل نہ ٹوٹ جائے! بیٹے نے جواباً عرض کیا: دِل تو اُس کا ٹوٹے جو رِضائے اِلٰہی کے کام میں ناکام رہا ہویا جس نے ماں یا باپ کی نافرمانی کی ہو، مجھے اُمید ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رِضا مندی کے طفیل اللہ تعالٰی مجھ سے راضی ہو جائے گا۔یہ سن کر حضرتِ عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے شہزادے کو گلے لگایا اور اُس کیلئے دُعا فرمائی
شہزادیوں کی عید:
امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبدُ الْعَزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں عید سے ایک دِ ن قبل آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہزادیاں حاضر ہوئیں اور بولیں :’’ ابو جان! عید کے دِن ہم کون سے کپڑے پہنیں گی؟ ‘‘فرمایا: ’’یہی کپڑے جو تم نے پہن رکھے ہیں ، اِنہیں دھل لو، کَل پہن لینا! ‘‘نہیں ! ابو جان! ہمیں نئے کپڑے بنوادیجئے،‘‘ بچیوں نے ضد کرتے ہوئے کہا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’میری بچیو!عید کا دِناللہ ربُّ العزّت کی عبادت کرنے ،اُ س کا شکر بجالانے کا دِن ہے، نئے کپڑے پہننا ضروری تو نہیں ! ‘‘ ’’ ابو جان! ! آپ کا فرمانا بیشک دُرُست ہے لیکن ہماری سہیلیاں ہمیں طعنے دیں گی کہ تم امیرُ المؤمنین کی لڑکیاں ہو اور عید کے روز بھی وُہی پرانے کپڑے پہن رکھے ہیں ! ‘‘ یہ کہتے ہوئے بچیوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ بچیوں کی باتیں سن کر امیرُالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا دِل بھی پسیج گیا۔ خازِن (وزیر مالیات) کو بلا کر فرمایا:’’مجھے میری ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لادو۔ ‘‘ خازِن نے عرض کی: ’’حضور! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہیں گے؟‘‘ فرمایا: ’’جَزَاکَ اللّٰہ!بے شک! تم نے صحیح اور عمدہ بات کہی ۔ ‘‘ خازِن چلا گیا۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بچیوں سے فرمایا: ’’پیاری بیٹیو! اللہ و رَسُولَ کی رِضا پر اپنی خواہشات قربان کردو-
یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور بزرگان دین کا طریقہ جو عالم اسلام و عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے اور راہ نجات ہے ،، ان سارے واقعات کی روشنی میں دیکھا جائے تو رمضان مبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لئے امتحان تھا اب اس کے نتائج برآمد ہونے کا وقت ہے چار دن سگریٹ نوشی کرنے والا کہتا ہے کہ سگریٹ پینے کی عادت پڑ گئی باتوں باتوں میں ہنسنے والا کہتا ہے کہ مجھے عادت پڑ گئی چار دن دنیا کے لوازمات حاصل کرنے والا اور کھانے والا کہتا ہے کہ مجھے اچھے سے اچھا کھانے پینے کی عادت پڑ گئی اب تیرا نتیجہ بتائے گا کہ ایک مہینہ روزہ رکھ کر تجھے غرباء ومساکین کے حالات کا احساس ہونے کی عادت پڑی کہ نہیں ، ایک مہینہ نماز پڑھ کر تجھے نماز کی عادت پڑی کہ نہیں ، ایک مہینہ قرآن سننے اور تلاوت کرنے کے بعد تجھے تلاوتِ قرآنِ حکیم کی عادت پڑی کہ نہیں اگر یہ ساری خصوصیات جس کے اندر نظر آئیں تو سمجھو کہ اس کی زندگی میں انقلاب آگیا اور معاملہ اس کے برعکس ہے تو سمجھ لینا چاہیئے کہ ایک مہینہ رمضان مبارک کے اثرات بھی زندگی پر مرتب نہیں ہوئے –

Exit mobile version