سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
(اے آئی ایم آئی ایم کے تناظر میں)
✍️ انوارالحسن وسطوی
_____________________
ملک کی تمام نام نہاد سیکولر پارٹیاں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ”مجلس اتحاد المسلمین“ (اے آئی ایم آئی ایم)پر یہ الزام لگاتی ہیں کہ مجلس اتحاد المسلمین بی جے پی کی ایجنٹ ہے اور اس کی”بی ٹیم“ ہے۔ الزام لگانے والوں کی یہ دلیل ہے کہ انتخابات میں سیکولر پارٹیاں جس سیٹ سے اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہیں وہاں مجلس اتحاد المسلمین بھی اپنے امیدوار اتار دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلم ووٹ میں بکھراؤ ہو جاتا ہے اور سیکولر پارٹیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح اے آئی ایم آئی ایم، بی۔جے۔پی اور اس کی ہمنوا پارٹیوں کو فتح دلانے میں مدد کرتی ہے۔ غیروں کے منہ سے نکلے اس الزام پر اتنی حیرت نہیں ہوتی ہے جتنی حیرت خود مسلمانوں حتیٰ کہ مسلم دانشوروں کی زبان سے سننے پر ہوتی ہے۔ کم از کم مسلمانوں کو اپنے دماغ سے یہ بات بالکل نکال دینی چاہیے کہ ایم آئی ایم، بھاجپا کی ایجنٹ یا”بی ٹیم“ ہے۔یہ الزام بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔بھاجپا کے خلاف”سڑک سے ایوان تک“ فی وقت اگر کوئی پارٹی بلا خوف و خطرآواز بلند کرتی ہے اور مسلم کاذ کی وکالت کرتی ہے تو وہ پارٹی ہے ایم آئی ایم۔ جس کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی ہیں۔ اویسی صاحب جس ہمت اور بے باکی سے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر باتیں کرتے ہیں اس سے کون واقف نہیں۔ اس حقیقت کو پوری دنیا جانتی ہے کہ بھاجپا کو”دندان شکن“جواب دینے کی ایسی جرأت شاید کسی بھی پارٹی کے اندر نہیں ہے۔ لہذا ان کی اس انفرادیت اور شناخت کو ختم کرنے کے مقصد سے نام نہاد سیکولر پارٹیاں انہیں بی جے پی کی ”بی ٹیم“ کہتی ہیں۔ اسدالدین اویسی کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں صرف اپنی ریاست تلنگانہ(حیدرآباد) تک محدود رکھیں۔ ایسا مشورہ آخر کیوں؟ اسد الدین اویسی کی پارٹی(ایم آئی ایم)کی طرح ملک میں بے شمار علاقائی پارٹیاں ہیں، لیکن نام نہاد سیکولر لیڈران کسی بھی علاقائی پارٹی کو اپنی سرگرمیاں محدود دائرے میں رکھنے کی صلاح نہیں دیتے۔یہ نصیحت صرف اور صرف ایم آئی ایم کے لیے کیوں؟ممتا بنرجی،ترنمول کانگریس کی لیڈر ہیں۔اس پارٹی کا حلقہ اثر صرف”مغربی بنگال“ تک ہے۔لیکن ممتا بنرجی اپنی پارٹی کو ”قومی پارٹی“کا درجہ دلانے کے لیے مغربی بنگال سے باہرآسام، منی پور، میگھالیہ اور تریپورہ وغیرہ ریاستوں میں اپنے امیدوار کھڑا کرتی ہیں۔ کیا ان کے اس قدم سے کانگریس کو نقصان اور بھاجپا کو فائدہ نہیں پہنچتا ہے؟ ان ریاستوں میں بھاجپا اگر کامیاب ہوتی ہے تو کیا اس کے ذمہ دار بھی اویسی ہی ہیں؟ ”عآپ پارٹی“بھی ایک علاقائی پارٹی ہے، جس کے سربراہ اروند کیجریوال صاحب ہیں۔کیجریوال صاحب اپنی پارٹی کا دائرہ بڑھانے کے لیے اور”قومی پارٹی“کا درجہ حاصل کرنے کے لیے دہلی کے علاوہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، پنجاب، ہماچل پردیش، حتیٰ کہ گجرات جیسی ریاست سے بھی اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرتے؟ کیجریوال صاحب کے اس قدم سے ان مقامات پر سیکولر ووٹروں کی جو تقسیم ہوتی ہے اور جس کے نتیجے میں بھاجپا کو فائدہ پہنچتا ہے، کیا اس کے ذمہ دار بھی اسدالدین اویسی ہی ہیں؟ بہار میں جنتا دل(یونائیٹڈ) اور راشٹریہ جنتا دل جیسی پارٹیاں ہیں جن کی حیثیت علاقائی ہے۔ پھر بھی وہ اپنا دائرہ بڑھانے کے لیے اتر پردیش،اتراکھنڈ اور جھارکھنڈ وغیرہ مقامات سے ہر انتخاب میں اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہیں اور قومی پارٹی بننے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ ایسی کئی اور مثالیں ہیں جہاں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ علاقائی پارٹیاں اپنا دائرہ بڑھانے اور اپنی پارٹی کو قومی پارٹی کا درجہ دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ جب ملک کی ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا حلقہ بڑھائے، اپنی پارٹی کو قومی پارٹی کا درجہ دلائے تو پھر ایم آئی ایم کو کس گناہ کی پاداش میں اس حق سے محروم رہنے کا مشورہ دیا جائے کہ وہ اپنی پارٹی کو قومی پارٹی نہ بنائے اور خود کو صرف تلنگانہ(حیدرآباد) تک ہی محدود رکھے؟ شاید صرف اس لیے کہ یہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹی ہے جو مسلمانوں کو ان کے حق حقوق کی باتیں کرتی ہے، ان کا دفاع کرتی ہے اور ان کی محافظت کی باتیں کرتی ہے اور مزید یہ کہ اس پارٹی کا سربراہ ایک مسلمان ہے۔
راقم السطور کا ماننا ہے کہ فی الوقت اب یہ ملک نہ ”سیکولر“ہے اور نہ یہاں کی کوئی پارٹی ہی صحیح معنوں میں ”سیکولر“ہے۔ اپنے کو سیکولر کہنے والی تمام پارٹیاں ملک کی 18 فیصد”مسلم ووٹ“ کو ہتھیانے کے لیے خود کو سیکولر کہتی ہیں۔ یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ورنہ میں یہ بتاتا کہ”بابری مسجد“ کے انہدام اور”رام مندر“ کی تعمیر کے علاوہ بے شمار ایسے مواقع آئے ہیں جب ان تمام سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے اور درپردہ بھاجپا کی حمایت کی ہے۔بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ بھاجپا کی مسلم دشمنی میں اس کا ساتھ دیا ہے۔ خواہ وہ ”مسلم پرسنل لاء“ کو ختم کرنے کا معاملہ ہو یا ”دفعہ 370“کو ہٹانے کا۔”تین طلاق“ کا معاملہ ہو یا”مسلم پناہ گزینوں“ کو شہریت نہ دینے کا معاملہ ہو۔ اکثر یہ پارٹیاں کبھی خاموش رہ کر اور کبھی ایوان میں ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر بھاجپا کو مدد پہنچاتی ہیں۔
ان مثالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ایم آئی ایم قطعی بھاجپا کی ایجنٹ یا اس کی ”بی ٹیم“ نہیں ہے۔ ایم آئی ایم ملک میں مسلمانوں کی مضبوط قیادت تیار کرنے کے لیے اور قومی پارٹی کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ساری تگ و دو کر رہی ہے اور تلنگانہ(حیدرآباد) کے علاوہ دوسری ریاستوں میں بھی الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ یہ اس کا بنیادی حق ہے اور اسے کسی بھی حالت میں غلط نہیں کہا جا سکتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ چند مقامات پر ایم آئی ایم کے امیدوار کھڑے ہوجانے کے سبب بی جے پی کو فائدہ پہنچ جاتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی اور کانگرس کے مقابلے کے درمیان میں اگر کسی دوسری علاقائی پارٹی کا امیدوار یا آزاد امیدوار بھی کھڑا ہو جاتا ہے تو اس سے بھی بھاجپا کو ہی فائدہ اور کانگریس کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے معاملے میں صرف ایم آئی ایم کو ذمہ دار ٹھہرانا بالکل مناسب نہیں ہے۔ بہار کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایم آئی ایم کے اس قدم کے لیے اس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ”سیمانچل“ کے تمام حلقے میں اپنی امیدوار کا اعلان کرنے کے باوجود”کشن گنج“ چھوڑ کر پورے سیمانچل میں ”انڈیا اتحاد“ کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے امیدوار نہیں کھڑے کیے۔اس سے بڑھ کر فیاضی اور دریا دلی کیا ہو سکتی ہے؟ ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم کی اتنی ہی فکرہے تو اس کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے سیکولر پارٹیاں انہیں بھی ان کی آبادی کے حساب سے امیدوار کیوں نہیں بناتی ہیں؟ اور ایم آئی ایم کو اگر وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے تو انہیں اپنے خیمہ میں لانے کی کوشش کیوں نہیں کرتی ہیں؟ کوشش کرنا تو دور کی بات ہے پہل کرنے پر بھی یہ پارٹیاں ایم آئی ایم کو خاطر میں نہیں لا رہی ہیں۔ 28 مارچ 2024 کی بات ہے کہ بہار ریاستی اے۔ آئی۔ ایم۔ آئی۔ ایم کے صدر جناب اختر الایمان نے پٹنہ کے ”بیلی روڈ“ میں واقع اپنی سرکاری رہائش گاہ پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کھلم کھلا یہ دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ بہار میں ”لوک سبھا“اور”ودھان سبھا“کے انتخابات کے موقع سے سیکولر پارٹیاں ایم آئی ایم کے ساتھ اتحاد قائم کریں اور مل جل کر انتخاب لڑیں تاکہ بی جے پی کو شکست دی جا سکے۔ لیکن ان کی اس پہل پرکانگرس یا اس کی کسی ہمنوا پارٹی نے اس پر نہ تو توجہ دی بلکہ ان کی اس تجویز کو مسترد بھی کر دیا۔جب”مجلس اتحاد المسلمین“ کا مقصد بھی بی جے پی کو شکست دینا ہے اور اسے مرکز اور ریاستوں کے اقتدار سے ہٹانا ہے تو پھر کن اسباب کی بنا پر یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں ایم آئی ایم کو”انڈیا اتحاد“میں حصہ دینا نہیں چاہتی ہیں۔ اس معمہ کی واحد وجہ یہ ہے کہ تمام پارٹیاں خواہ وہ بھاجپا ہو یا اس کے نظریات کی حامی دیگر پارٹیاں ہوں یا نام نہاد سیکولر پارٹیاں ہوں سبھی مسلمانوں کو قیادت سے محروم رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کو صرف”ووٹ بینک“ اور”بندھوا مزدور“ بنائے رکھنا چاہتی ہیں۔وہ بیرسٹر اسد الدین اویسی اور جناب اختر الایمان جیسے تیز طرّار اور قدآور لیڈر کو اپنی صف میں اس لیے شامل کرنا نہیں چاہتی ہیں کہ اس سے خود ان کا قد بونا ہو جائے گا اور پھر یہ کہ مسلمانوں کے معاملے میں وہ من مانی بھی نہیں کر سکیں گی۔
ملک کی تمام پارٹیاں کسی بھی قدآور مسلم لیڈر کو اپنی صف میں لا کر اپنا قد بونا کرنا نہیں چاہتی ہیں۔ انہیں قطعی گوارا نہیں ہے کہ مسلمانوں کا کوئی قدآور لیڈر اوپرآئے جو مسلمانوں کو متحد کرے، انہیں ان کی ووٹ کی طاقت اور اہمیت کا احساس دلائے اور مسلمان کسی کو اپنا قائد بنائیں۔ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے صرف”دری بچھوانے“،”جھنڈا ڈھلوانے“،”نعرہ لگوانے“ اور سیاسی لیڈروں کا”قصیدہ پڑھنے“ کا کام لینا چاہتی ہیں۔آبادی کے حساب سے حصہ داری دینے سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے۔ بڑے طمطراق سے ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرائی گئی۔کس ذات کی کتنی تعداد ہے اس کا اعلان کیا گیا۔ بعض ذاتوں کو ان کی حصہ داری سے کہیں زیادہ حصہ دے کر اپنا امیدوار بنایا گیا۔ لیکن مسلمانوں کی 18 فیصد آبادی ہونے کے باوجود انہیں وہ حصہ داری نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ مثال کے طور پر ریاست بہار کو ہی لے لیں۔”انڈیا اتحاد“نے صرف چار سیٹیں مسلمانوں کو دی ہیں۔ یہ سیٹیں ہیں ”کشن گنج“(ڈاکٹر جاویدآزاد)،”کٹیہار“(طارق انور)، ”مدھوبنی“(علی اشرف فاطمی) اور ”ارریہ“(شاہنواز عالم)۔ اگر ان مسلم لیڈروں کا کوئی بدل ان پارٹیوں کے پاس ہوتا تو یہ چار سیٹیں بھی نہیں ملتیں اور سیدھے انگوٹھا دکھا دیا جاتا، جیسا کہ بی جے پی نے کیا ہے۔”انڈیا اتحاد“ کو کم از کم سات مسلمانوں کو ٹکٹ دینا چاہیے۔ اسی طرح جنتادل(یو) کو کم از کم دو سیٹوں پر مسلمان امیدوار کھڑا کرنا چاہیے۔بلیکن اس نے صرف ایک مسلمان”مجاہد عالم“(کشن گنج) کو ٹکٹ دینے پر اکتفا کر لیا۔ یعنی کسی پارٹی نے بھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اس کے باوجود وہ ہم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم جھولی بھر کر اپنا ووٹ انہیں دیں۔ یہ پیمانہ انصاف کے سراسر خلاف ہے۔
بہار میں ذات پر مبنی”مردم شماری 2023“کے مطابق ”ملاّح“ ذات کی آبادی مشکل سے ڈھائی فیصد ہے۔ اس ڈھائی فیصدآبادی کے ووٹ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے”راشٹریہ جنتادل“ نے اپنی حصے کی تین سیٹیں ”وکاس شیل انسان پارٹی“(وی۔آئی۔ پی)کو دے کر اس کے لیڈر مکیش سہنی کو گلے لگایا اور ان کی آؤ بھگت کی۔ بھاجپا نے پانچ فیصد”پاسوان“ذات کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے چراغ پاسوان کی بھرپور نازبرداری کی۔ ایک بے چارہ مسلمان ہے جس کی آبادی 18 فیصد ہے، لیکن اسے اپنانے یا اسے حصہ داری دینے کے لیے کوئی پارٹی بھی تیار نہیں ہے۔ یہ کتنی بڑی بدقسمتی اور شامت اعمالی کی بات ہے۔سیاسی پارٹیوں کے اس رویے پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ اپنے ساتھ ہو رہے سلوک کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ملکی سیاست میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم مسلمان اپنی قیادت تیار کرنے کو”گناہ کبیرہ“سمجھتے ہیں اور دوسروں کی ”نازبرداری“ اور ”درباری“ کرنے پر ہمیں شرم نہیں آتی۔ملک ”سیکولر اسٹیٹ“ رہے اس کا ٹھیکہ صرف مسلمانوں کے ذمہ نہیں ہے۔ اگر تمام برادران وطن ا سے”سیکولر اسٹیٹ“ کی شکل میں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو مسلمان قیامت کی صبح تک اسے ”سیکولر اسٹیٹ“ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حالات کے مطابق ہمیں اپنے آپ کو ڈھالنا ہوگا۔حکیم الامّت شاعر مشرق علّامہ اقبالؔ نے صحیح کہا ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا