✍️ ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
________________
مسلمان كا مقام كيا ہے؟ اس سوال كا جواب يه جاننے پر منحصر ہے كه خود مسلمان كيا ہے؟ شايد يه سوال عجيب لگے، كيونكه "مسلمان” ايكـ كثير الاستعمال لفظ ہے، دنيا ميں ہر جگه يه لفظ مختلف شكلوں ميں بولا جاتا ہے، يه تعجب كسى حد تكـ بر محل ہے، پهر بهى يه واقعه ہے كه بالعموم لوگ اس كے مفہوم سے نا واقف ہيں، اس ناواقفيت ميں مسلم اور غير مسلم دونوں برابر ہيں۔
اس دشوارى كى وجه يه ہے كه "مسلمان” انسانوں كى ايكـ قسم ہے، اور خود مسلمانوں كى بہت قسميں ہيں، كبهى كبهى لوگ مسلمان كى تعريف ميں وه اوصاف بيان كرتے ہيں جو دوسرے انسانوں ميں بهى پائے جاتے ہيں، مسلمان كى تعريف يه نہيں ہو سكتى كه وه عقل وفكر كا استعمال كرتا ہے، وه گويائى كى طاقت ركهتا ہے، وه كهاتا اور پيتا ہے، وه لباس پہنتا ہے، اور بستر پر سوتا ہے، وه بہادر اور جرى ہے، وه سخى وفياض ہے، وه مال ومتاع كا مالكـ ہے، يا وه صاحب ملكـ وفرمانروائى ہے، حسين وجميل ہے، اور حامل قرطاس وقلم ہے۔
انواع واقسام كے انسانوں كى منفرد خصوصيات ہيں، وه خصوصيات مسلمان كا امتياز نہيں ہو سكتيں، مسلمانوں كى تعريف يه نہيں ہو سكتى كه وه عربى يا عجمى ہے، وه كالا ہے يا گورا ہے، وه اردو بولتا ہے يا انگريزى ميں بات كرتا ہے۔
كچهـ معانى وه ہيں جن ميں مسلمانوں كے درميان اختلاف وفرق ہے، وه معانى بهى مسلمان كى تعريف نہيں ہوسكتے، ورنه مسلمانوں كى بہت بڑى جماعت غير مسلم قرار پائے گى، مسلمان كى تعريف يه نہيں ہوگى كه وه حنفى يا مالكى ہے، وه اشعرى يا ماتريدى ہے، وه صوفى يا سلفى ہے، اگر ان ميں سے كسى ايكـ كو مسلمانوں كا امتياز بنايا گيا تو مسلمانوں كى اكثريت اسلام سے خارج ہو جائے گى۔
مسلمانوں كا امتياز وه معنى ہوگا جسے خدا نے اپنى كتاب ميں بيان كيا ہے، اور جس كى تعليم پيغمبر نے دى ہے، اس معنى كے دو جزء ہيں: 1- الله تعالى كو معبود ماننا اور كسى اور كو اس كا شريكـ نه ماننا، اسے شهادت "لا إله إلا الله” كہتے ہيں، 2- محمد صلى الله عليه وسلم كو الله كا پيغمبر ماننا، آپ كے طريقه پر الله كى عبادت كرنا، اور آپ كے بعد كسى اور كو پيغمبر نه ماننا، اسے شہادت "محمد رسول الله” كہتے ہيں۔
يه دو معانى وه ہيں جو ان كو مانے وه مسلمان ہے، اس كے بعد بہت سے اعمال ہيں جن سے ايمان واسلام ميں ترقى ہوتى ہے۔
جو بهى شہادتين كا حامل ہے وه مسلمان ہے، اس كا مقام سارے انسانوں سے جدا ہے، كوئى انسان كتنا ہى خوبصورت، طاقتور، مالدار كيوں نه ہو وه ادنى سے ادنى مسلمان كے برابر نہيں ہو سكتا، مسلمان عرب ہو يا عجم، سفيد فام ہو يا سياه فام، مالدار ہو يا فقير، اس مسلكـ كا ہو يا اس مسلكـ كا، سب برابر ہيں، مسلمانوں كے درميان تفاضل صرف تقوى كى بنياد پر ہوگا، اور تقوى كى حقيقت صرف خدا كو معلوم ہے، اس لئے ہر مسلمان پر فرض ہے كه ہر مسلمان كا بحيثيت مسلمان احترام كرے۔
وطنى، قومى، لسانى، مسلكى نسبتيں انسانوں كى بنائى ہوئى ہيں، يه فطرت كا حصه نہيں، ہر انسان تين خصوصيتوں كے ساتهـ پيدا ہوتا ہے، ايكـ يه كه وه خدا كا تخليق كرده ہے، دوسرے يه كه وه آدم اور حواء كى اولاد ہے، تيسرے يه كه خدا كى معرفت اس كى فطرت ميں وديعت ہے، وطن، قوم ولسان كے امتيازات فطرت كا حصه نہيں، مسلكـ ومشرب انسانوں كے بنائے ہوئے ہيں، مثلاً كسى كا ندوى يا ازہرى ہونا مصنوعى نسبتيں ہيں، جن كى حيثيت محض شناخت كى ہے، كوئى ندوى يا ازہرى كسى غير ندوى وازہرى سے اس مصنوعى نسبت كى بنا پر افضل نہيں ہو سكتا، يه ممكن ہے كه ايكـ شخص جو نه ندوه اور نه ازہر كا فارغ ہو وه خدا كا اس سے زياده مقرب ہو جسے دونوں نسبتيں حاصل ہوں، سچى بات يه ہے كه ان نسبتوں كى بنا پر مسلمانوں كو ايكـ دوسرے پر ترجيح دينا مقام اسلام كى توہين ہے، بلكه يكـ گونه خدا ورسول سے بغاوت ہے، نبى كريم صلى الله عليه وسلم نے اس پر سخت نكير كى ہے۔
خود كو كسى مسلمان سے بہتر سمجهنا تكبر ہے، اور يه عمل دليل ہے كه ايسا كرنے والا اس دين كى حقيقت سے نا واقف ہے، بہت سے لوگ براه راست يه دعوى تو نہيں كرتے كه وه دوسروں سے بہتر ہيں، البته وه اس تكبر كو مسلكـ ومشرب كے لباده ميں چهپاتے ہيں، مثلا متاخر چشتيوں اور نقشبنديوں ميں يه نا مباركـ مقابله شدت اختيار كر گيا كه كون سا سلسله انفع واصلح ہے، كچهـ چشتيوں نے ببانگ دہل يه بهى اعلان كرديا:
اگر گيتى سراسر باد گيرد
چراغ چشتياں ہرگز نميرد
يعنى اگر پورى دنيا ميں آندهى اور طوفان آجائے تب بهى چشتيوں كا چراغ نہيں بجهے گا، اسى طرح بعض حنفيوں نے دعوى كيا ہے كه حنفى مسلكـ تنہا وه مسلكـ ہے جو قيامت تكـ رہے گا، امام مہدى حنفى ہوں گے، اور حضرت عيسى عليه السلام جيسا اولو العزم پيغمبر فقه حنفى كى پيروى كرے گا، مسلكـ ومشرب كے متعلق اس طرح كے دعوے مسلمانوں كو تقسيم كرتے ہيں، ان ميں تقابل كا ناپاك جذبه پيدا كرتے ہيں، اور اس ناپاكـ بيج سے نفرت ودشمنى جنم ليتى ہے۔
سچى بات يه ہے كه جب بهى مسلكـ ومشرب مضبوط ہوں گے، دين كمزور ہوگا، اس لئے ضرورى ہے كه مسلكـ ومشرب كو ہميشه پيچهے ركها جائے، اور دين كو مقدم كيا جائے، اور خدا ورسول كى اطاعت كو اپنى زندگى كا مقصود بنايا جائے، اگر دين ميں ضعف آيا تو مسلكـ ومشرب كس كام كے؟
دامن ديں ہاتهـ سے چهوٹا تو جمعيت كہاں
اور جمعيت ہوئى رخصت تو ملت بهى گئى
مسلمان ہونا وه بلند ومقدس حقيقت ہے جس ميں تمام مسلمان برابر ہيں، مسلمان كى حرمت كعبه سے زياده ہے، آسمان جهكـ كر مسلمان كى پيشانى چومتا ہے، چاند، سورج اور ستاروں سے آگے ہے مقام مسلمان كا:
پرے ہے چرخ نيلى فام سے منزل مسلماں كى
ستارے جس كى گرد راه ہوں وه كارواں تو ہے
مسلمان جس كلمہ كا حامل ہے اس كى شيرينى سے كوثر وتسنيم شرماتے ہيں، اس پر فدا ہيں حجاز ونجد، اس پر قربان ہيں عراق وشام، طور سينا ہے اس كے تقدس كا نغمه خواں، قرطبه وغرناطه كے منبر ومحراب اس كے منقبت خواں، بخارا وسمرقند كے كتبخانے اس كى عظمت كے ترجمان، سخنوران پارس وہند اس كے بحر معانى ميں غوطه زناں، اس كے كمالات كے سامنے زمين وآسمان كى وسعتيں تنگ ہيں، رب كائنات نے اس كے لئے ايكـ الگ جہاں تعمير كيا ہے:
ہماں بہتر كه ليلى در بياباں جلوه گر باشد
ندارد تنگنائے شہر تاب حسن صحرائى
ہر وه شخص جو خود كو مسلمان كہے اس كا احترام ہم پر واجب ہے، اس كى غيبت، اس كى توہيں، اور ايذا رسانى گناه كبيره كے كام ہيں، اس سے بڑا مجرم كون ہوگا جو صبح كو "سبحان الله” كا نعره لگانے والے اور شام كو "الحمد لله” كى تسبيح پڑهنے والے كى طرف نگاه اٹهائے، كون نا مراد ہے جو اس كى بلندى ميں شكـ كرے جس كے حوصلوں كى جست عرش بريں كے قريب ہو:
ره يكـ گام ہے ہمت كے لئے عرش بريں
كہ رہى ہے يه مسلماں سے معراج كى رات
كسى انسان كى تشريح كو بنياد بناكر مسلمانوں كو كمتر مسلمان قرار دينا خدا ورسول كى مرجعيت كو چيلنج كرنا ہے، كتنے كوتاه نظر ہيں وه مسند نشينان مدرسه وخانقاه جو ان خصلتوں كو معيار ترجيح بنانے پر لگے ہوئے ہيں جن كا اثبات محال ہے، اے كوتاه بينىو! كوتاه بينى سے باز آؤ، اے محال كے خو گرو! اپنى حدوں ميں رہنا سيكهو، اے لاف زنان طاعت وزہد! كيا تمہيں نہيں معلوم كه لاف زنى معصيت ہے؟ نبى كريم صلى الله عليه وسلم كا ارشاد ہے: "المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده”، ترجمه: مسلمان وه ہے جس كى زبان اور جس كے ہاتهـ سے مسلمان محفوظ ہوں”، ايكـ دوسرى حديث ميں آپ نے فرمايا: مسلمانوں كى جان، مال اور عزت وآبرو ايكـ دوسرے پر حرام ہيں، اس مفہوم كى حديثيں متعدد ہيں، اور يه سب صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں مروى ہيں۔
الله تعالى ہميں نيكـ بننے كى توفيق دے، سارے مسلمانوں كا احترام كرنے والا بنائے، اور مسلمانوں كى تنقيص اور ايذا رسانى سے محفوظ ركهے، آمين۔