Slide
Slide
Slide

کیا مسلمان ملک کے ساجھے دار نہیں۔ چیف منسٹر تلنگانہ کا سوال؟

✍️ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

________________

تلنگانہ کے چیف منسٹر ریونت ریڈی اپنی دھن کے پکے ہیں‘ جو ارادہ کرتے ہیں پورا کرتے ہیں‘ یہ تو مشہور ہے۔ اور انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کے دوران اسے ثابت بھی کیا ہے۔ وہ ایک اچھے انسان ہیں‘ اور سیاستدان ہونے کے باوجود انسانی اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کا بھی انہوں نے مظاہرہ کیا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ریونت ریڈی کے دو انٹرویوز بے حد مشہور ہوئے۔ ایک تو ’وائر‘ کیلئے عارفہ خانم کا بے لاگ انٹرویو اور دوسرا ”آپ کی عدالت“ میں رجت شرما کے تیکھے سوالات جس کا ریونت ریڈی نے مدلل اور سلجھے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
دونوں ہی انٹرویوز کے دوران ریونت ریڈی ایک قدرآور، مدبر سیاستدان ہی نہیں‘ ایک عظیم انسان بھی نظر آئے۔ آپ کی عدالت میں پینال کوڈ اور سیول کوڈ کے فرق کو سمجھانے کی کوشش کی‘ وہیں اس فرق کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے ملک میں یکساں سیول کوڈ کی مخالفت بھی کردی۔ جس طرح ایک ٹیچر کلاس روم میں سمجھاتا ہے کہ پیانل کوڈ سب کے لئے مساوی ہے اور سیول کوڈ ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ہے۔ اس طرح ریونت ریڈی نے رجت شرما کے توسط سے وزیر اعظم کو سمجھایا ہے کہ کس طرح خود او بی سی ہندوؤں میں سینکڑوں رسومات ہیں‘ آدی واسیوں کے طریقے علیحدہ ہیں‘ کرسچن اور مسلمانوں کے رسوم و رواج علیحدہ ہیں۔ ان سب کو ایک لاٹھی سے کیسے ہانکا جاسکتا ہے۔ ریونت ریڈی نے تو اچھے انداز میں سمجھایا۔ کاش جسے سمجھانے کی کوشش کی گئی ان کی سمجھ میں یہ بات آجائے۔ جو بھی ہو انہوں نے حکومت تلنگانہ کا موقف رکھا ہے۔ جو تلنگانہ کے مسلمانوں، عیسائیوں کیلئے طمانیت کا باعث ہے۔ وہیں دوسری ریاستوں سے تعلق رکھنے والی اقلیتوں کیلئے بھی رہنمایانہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے خود رجت شرما سے یہ سوال کیا کہ کیا مسلمان اس ملک کے ساجھے دار نہیں ہیں؟ یہ بڑا اہم سوال ہے جس کا جواب مودی اور ان کے ہم خیال دیں‘
رجت شرما‘ بی جے پی کے منظور  نظر ہیں۔ اعلیٰ قیادت سے قریب ہیں۔ ارون جیٹلی کے ساتھی رہے ہیں۔ سوالات کرنے کا ان کا انداز، معنی خیز مسکراہٹ، نرم دھیما لہجہ، آپ کی عدالت کی کامیابی کا راز ہے۔ وہ غیر محسوس طریقہ سے بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے حیدرآباد پارلیمانی حلقہ سے بی جے پی کی امیدوار مادھوی لتا کو اسی  انداز سے پیش کیا گویا وہ اس کی مہم میں شریک ہیں۔ انہوں نے اسد اویسی کے خلاف سوالات کے طور پر لقمے بھی دیئے‘ بلکہ مادھوی لتا کے لئے انتخابی نعرہ ”جب سے آئی مادھوی لتا…. اویسی ہوگئے لاپتہ“ بھی دیا۔
انہوں نے اسد اویسی کو بھی آپ کی عدالت میں پیش کیا تھا مگر ان کا ہر سوال جارحانہ تھا۔ ریونت ریڈی کو عدالت میں پیش کرکے انہیں شاید افسوس ہوا ہوگا کیوں کہ تلنگانہ کے چیف منسٹر کو اپنے من کی بات ریڈیو کے بجائے ٹی وی کے ذریعہ نہ صرف تلنگانہ بلکہ ہندوستان کی عوام تک پہنچانے کا سب سے بہترین پلیٹ فارم مل گیا۔ ریونت ریڈی نے ایک طرف اپنے موقف کی وضاحت کی تو دوسری طرف مودی اور بی جے پی پر کڑی تنقید کی۔ جنوبی ہند کے ساتھ ان کی ناانصافیوں کا پردہ فاش کیا۔ اور بہ بانگ دہل کہا کہ بی جے پی قیادت نے گجرات اور یوپی کو نوازا ہے۔ تمام اعلیٰ عہدوں پر یوپی، گجرات کے قائدین فائز ہیں اور تلنگانہ سے صرف کشن ریڈی کو نمائندگی دی گئی۔ ایک تقریب کے دوران مودی کو بڑا بھائی کہنے سے متعلق بھی انہوں نے اچھے انداز سے وضاحت کی۔ اڈانی سے خوشگوار تعلقات سے متعلق بتایا کہ انہوں نے مودی کی طرح اڈانی کو مختلف ادارے حوالے نہیں کئے بلکہ انہیں تلنگانہ میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی۔ جو بھی تلنگانہ میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اس کے لئے دروازے کھلے ہیں۔ ریونت ریڈی کی تلگو آمیز ہندی اور ان کی روانی‘ ہر شعبہ سے متعلق ڈیٹا کا ازبر یاد رہنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ہوم ورک پر بڑی محنت کی ہے۔ صرف تلنگانہ نہیں بلکہ ہندوستان کی ہر ریاست سے متعلق ان کی معلومات غیر معمولی اور قابل ستائش ہیں۔ کے سی آر سے سیاسی دشمنی کا اعتراف کرتے ہیں۔ انہیں یاد ہے کہ بیٹی کی منگنی کے وقت کے سی آر نے انہیں ضمانت نہیں دی تھی۔ اس کے باوجود جب رجت شرما ان سے سوال کرتے ہیں کہ اگر  انہیں موقع ملے تو کیا وہ کویتا سے انتقام لیتے؟ ریونت ریڈی اعلیٰ ظرفی کے ساتھ کہتے ہیں کہ لڑائی کے سی آر سے ہے‘ ان کی بیٹی سے نہیں۔ وہ باپ کا انتقام بیٹی سے نہیں لیتے۔
اروند کجریوال کی گرفتاری پر ان کی تنقید کو یقینی طور پر ساری دنیا اور انصاف پسند سیاست دانوں نے سراہا ہوگا۔ ریونت ریڈی نے مودی سے سوال کیا کہ جس شراب کے ٹھیکیدار کی رقم کے الیکشن میں استعمال پر کجریوال کو جیل بھیجا گیا اسی ٹھیکیدار نے بی جے پی کو الکٹورل بانڈ کے ذریعہ کروڑوں روپئے کا ڈونیشن دیا۔ اور جب مقدمات دائر کئے گئے ثبوت بھی ہیں تو دو سال سے کیوں خاموشی اختیار کی گئی۔ اور عین الیکشن سے پہلے کجریوال اور سورین کو گرفتار کیا گیا تاکہ وہ انتخابی مہم میں حصہ نہ لے سکیں۔ اس اقدام کے خلاف منفی اثر انتخابی نتائج پر ہوگا۔
ریونت ریڈی نے نریندر مودی سے متعلق بتایا کہ 2014ء سے 2024 کے درمیان انہوں نے 130لاکھ کروڑ روپئے کا قرض لیا  جبکہ ان کے پیشرو 14 وزرائے اعظم نے 67برس میں مجموعی طور پر 55لاکھ کا قرض لیا تھا۔ آخر مودی جی نے جو قرض لیا اس کی رقم  کس کے جیب میں گئی۔
ریونت ریڈی کے جوابات، ان کے طنزیہ اور ریمارکس پر آپ کی عدالت میں شامل سامعین جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی‘ جو مسلسل تالیاں بجاتے رہے۔ رجت شرما نے مودی کا نعرہ ”اس بار 400 کے پار“ سے متعلق سوال کیا تو ریونت ریڈی نے کہا کہ اب جتنی تعداد میں بی جے پی ارکان ہیں وہ انتہا ہے‘ اس سے زیادہ کے لئے مودی جی کو پاکستان میں الیکشن لڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اب رام مندر کا نعرہ اثر نہیں دکھا رہا ہے۔ ویسے رام مندر کا کریڈٹ مودی جی نے لے لیا‘ ورنہ شیلا نیاس تو راجیو گاندھی کے دور میں ہوا تھا۔ بی جے پی الیکشن 2024 میں زیادہ سے زیادہ 240 نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔ وہ مختلف ریاستوں میں مختلف علاقائی جماعتوں سے اتحاد اس لئے کررہی ہے کہ اسے اپنی کمزوری کا احساس ہے۔ الیکشن 2024ء میں انہیں نوجوان سبق سکھائیں گے۔ اس وقت 62% نوجوان بے روزگار ہیں۔
ریونت ریڈی نے یہ بھی بتایا کہ اگر وہ چاہتے تو بہت پہلے برسر اقتدار جماعتوں میں شامل ہوجاتے‘ منسٹر بن جاتے مگر اپوزیشن کو ترجیح دیتے ہوئے انہوں نے عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔
رجت شرما نے راہول گاندھی کے رویہ اور اکثر پارٹی ورکرس کو وقت نہ دینے کی شکایت کا ذکر کیا تو ریونت ریڈی نے اس کی وجہ بھی بتادی کہ اگر کوئی راہول گاندھی سے اپنے ذاتی مفاد‘ عہدہ وغیرہ کے لئے ملتا ہے تو اسے بہت کم وقت دیتے ہیں۔ اگر اس کے برخلاف پارٹی مفاد کی بات ہوتی ہے تو ان کے پاس وقت کی کمی نہیں۔ خود ریونت ریڈی نے راہول گاندھی سے پہلے ملاقات کی تو پارٹی کی ترقی سے متعلق اپنے منصوبے پیش کئے چنانچہ دس منٹ کی ملاقات ڈیڑھ گھنٹہ تک چلتی رہی۔
کے سی آر کی تلنگانہ میں اقتدار پر واپسی کے خارج از امکان قرار دیتے ہوئے ریوت رنڈی نے کہا کہ مسز سونیا گاندھی نے تلنگانہ دیا‘ اگر وہ منظوری نہ دیتیں تو سوسال تک بھی تلنگانہ کا خواب پورا نہ ہوتا۔ کانگریس نے تلنگانہ دیا اور اب تلنگانہ کانگریس کے ہاتھ میں ہے۔
ریونت ریڈی نے مجلس اور اس کے قائد بیرسٹر اسدالدین اویسی متعلق بھی بہت ساری باتیں کہیں۔ ان کی خود اعتمادی، مستقبل کے عزائم قابل ستاتش ہیں۔ اب پارلیمانی انتخابات سر پر ہیں۔ سروے رپورٹس چونکا دینے والی ہیں۔ اس سروے کے مطابق کانگریس کو سخت آزمائشی حالات سے گزرنا ہے۔ کیا ریونت ریڈی ان حالات پر قابو پاسکیں گے۔ کیا انہیں آزادی سے کام کرنے دیا جائے گا کیا وہ اپنی معیاد مکمل کرپائیں گے‘ بہت سارے سوالات ذہن میں ہیں جس کا جواب ریونت ریڈی کے پاس ہوگا۔ ویسے بھی پا رلیمانی انتخابات میں اس کا جواب مل جائے گا۔ ریونت ریڈی کے دونوں انٹرویوز وائرل ہوئے۔ ہر طبقے میں بالخصوص مسلمانوں نے اسے پسند کیا۔ کانگریس کو دس برس بعد تلنگانہ میں اقتدار ملا ہے اور یقینی طور پر مسلمانوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ کانگریس نے جو وعدے مسلمانوں سے کئے انہیں پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ چوں کہ گزشتہ الیکشن میں کے سی آر یا بی آر ا یس کے وعدوں اور دعوؤں کے جال میں مسلمان پھانس لئے گئے تھے۔ جب انہیں احساس ہوا کہ وہ دو مرتبہ بھی وعدوں سے بہلائے گئے تو انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا کانگریس کو دور تک جانا ہے ا ور دیر تک اقتدار پر رہنا ہے تو اپنے وعدوں کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ ریونت ریڈی سے امید ہے کہ وہ جو کرتے ہیں وہ کردکھاتے ہیں!

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: