Site icon

فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں

جائز راستوں میں ضرورت سے زائد خرچ کرنا فضول خرچی ہے، راہ معصیت میں ایک کوڑی خرچ کرنا بھی گناہ ہے.

✍️ عبد الغفار صدیقی

________________

رمضان کا مہینہ یوں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نہایت برکتوں اور سعادتوں والا ہے اور کچھ ہم مسلمان اپنی فضول خرچیوں کو ”برکت“ کے خوبصورت نام سے موسوم کرکے دل کو مطمئن کرلیتے ہیں۔میں ان تمام احادیث کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جن میں ماہ مبارک میں اہل ایمان کے رزق میں اضافہ کی خوش خبری دی گئی ہے۔البتہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا مفہوم وہ نہیں ہے جو ہم نے سمجھ لیا ہے۔ہمارے نزدیک ان کامطلب ہے کہ رمضان کے دسترخوان پر انواع و اقسام کی ڈشیز موجود ہوں،جن پھلوں کی باقی ایام میں زیارت بھی نصیب نہ ہوتی ہو ان پھلوں کے ذائقوں سے زبان لطف اندوز ہو۔جب کہ ان کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تھوڑے کھانے کو بھی کافی کردیتا ہے۔عام دنوں میں ہم چار وقت کھاتے ہیں۔صبح کا ناشتہ،دوپہر کا کھانا،شام کی چائے وائے جسے عصرانہ کے مہذب نام سے پکاراجاتا ہے اور رات کوپر تکلف عشائیہ۔رمضان میں صرف دوقت کھانے کے لیے مقرر ہیں ایک افطار اور دوسرے سحری۔میرا اپنا تجربہ ہے کہ عام دنوں میں جو کھانا ایک آدمی کے لیے کفایت کرتا ہے،ماہ مبارک میں وہی کھانا تین آدمیوں کے لیے پورا ہوجاتا ہے،حدیث میں اسی کو برکت اور رزق میں اضافہ کہا گیا ہے۔ہم مسلمانوں نے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آیات قرآن اور احادیث رسول کے معانی و مطالب بھی بدل ڈالے ہیں۔قرآن مجید میں ہم لفظی تحریف کے تو مرتکب نہیں ہوسکے البتہ معنوی تحریفات ہم نے خوب کی ہیں۔
ماہ مبارک کی عبادات کو رائگاں کرنے والے اعمال میں سے ایک عمل ”اسراف“ یعنی فضول خرچی ہے۔بیشتر مسلمان اس پورے مہینے اس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔بھوک پیاس کی شدت سے مجبور ہوکرخواہشات نفس کی اطاعت سب سے زیادہ اسی ماہ میں کی جاتی ہے۔نوے فیصد گھروں میں دیگر مہینوں کے مقابلہ اس مہینہ میں دوگنا،تین گنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔پیسہ خرچ کرنا بری بات نہیں ہے البتہ وہ کس راستے میں خرچ کیا جارہا ہے یہ دیکھنا ضروری ہے۔حشر کے دن جو سوالات انسان سے کیے جائیں گے ان میں یہ سوال بھی ہوگا ”مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟“حدیث میں آتا ہے کہ ابن آدم ان سوالوں کے جواب دیے بغیر اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کرسکے گا۔ایک مومن کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں اٹھنا چاہئے۔ہمیں جو دین دیا گیا ہے وہ مکمل و اکمل ہے۔اس دین میں ہر لمحہ حیات کے لیے ہماری رہنمائی کی گئی ہے۔فضول خرچی کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:”رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو،فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے“(الاسراء 26،27)یہاں حقوق کی ادائیگی میں فضول خرچی سے باز رہنے کا ذکر کیا گیا ہے،یعنی حقوق کی ادائیگی میں بھی اسراف نہ کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے، دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جائز اور حلال کاموں اور نیک راستوں میں بھی شریعت کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔
لفظ اسراف کا اطلاق جائز اور حلال کاموں میں حد سے زیادہ خرچ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔رہے وہ تمام کام جو اللہ و رسول کی نظر میں گناہ و معصیت کے کام ہیں،ان میں تو ایک پیسہ خرچ کرنا بھی حرام ہے۔ایک مسلمان اس بات کا پابند ہے کہ کسی بھی حال میں اسراف نہ کرے،روز مرہ کے مصارف میں بھی فضول خرچی سے بچے اور خصوصی حالات میں بھی اس حکم کی پابندی کرے۔موقع خوشی کا یا ہو غم کا اسے اسراف سے بچنا چاہئے۔
اس ضمن میں مسلم معاشرہ کی موجودہ صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔جائز رسوم کے علاوہ درجنوں ناجائز رسوم اختیار کرلی گئی ہیں اور پھر ان رسوم کی ادائیگی میں فضول خرچیاں کی جارہی ہیں۔بچہ کی پیدائش پر،اس کی شادی پر،یہاں تک کہ موت کے بعد بھی کچھ غیر اسلامی رسوم کو اسلام کا حصہ بنالیا گیاہے۔اسی طرح دین کے نام پر کیے جانے بہت سے کام ایسے ہیں جن میں اسراف سر چڑھ کر بول رہا ہے۔اصلاح معاشرہ اور دستار بندی کے نام پر ہونے والے جلسوں میں لاکھوں روپے اڑادیے جاتے ہیں،ملی تنظیمیں سمیناروں اور کانفرنسوں کے موقع پر لاکھوں روپے مصارف سفر اور ہوٹلوں میں مہمانوں کے قیام و طعام کے نام پر خرچ کردیتی ہیں،دینی جماعتوں کے دفاتر کی تعمیر و تزئین اورحصول سہولیات کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں،مساجد کی تعمیر میں فخرو مباہات کے طور پرایک خطیر رقم صرف کی جارہی ہے،لوگ اپنے مکانوں کے انٹریئر اور پتھر و ٹائل پر بے دریغ خرچ کررہے ہیں،مالدارمسلمانوں میں شاہجہانی مزاج آج بھی موجود ہے۔شادیوں میں درجنوں قسم کے پکوان بنائے جارہے ہیں،یہاں تک کے موت کے بعدلذیذ بریانی سے شکم سیری کا سامان کیا جارہا ہے۔علماء کی خدمت میں سینکڑوں قسم کے کھانے پیش کیے جارہے ہیں،ہمارے ایک بزرگ نے بتایا کہ:”ایک بڑے دینی ادارے کے ناظم اور اپنے وقت کے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر جب بھٹکل گئے تو ان کے ناشتے میں بلا مبالغہ سو طرح کی ڈشیز تھیں۔“میں نے معلوم کیا کہ ”کیا آں محترم نے اس پر ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔“ جواب نفی میں ملا۔تعجب اس بات پر ہے کہ جن بزرگوں کے تعلیمی اداروں میں بچوں کو صبح کا ناشتہ نہیں ملتا ان کے ناشتہ میں سو قسم کے کھانے پیش کیے جارہے ہیں،اور وہ اس پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار تک نہیں کررہے ہیں۔ہمارے علماء کی اسی خاموشی نے دین کے نام پر کی جانے والی دعوتوں میں اسراف کو بڑھاوا دیا ہے۔ان سے بہتر کردار تو سرسید کامعلوم ہوتا ہے۔ وہ جہاں کہیں جاتے اور کوئی دعوت کی پیشکش کرتا، تو اس سے فرما دیتے کہ’’جو کچھ میرے کھانے پر خرچ کروگے، وہ نقد دے دو تاکہ کا لج کے چندے میں جمع کر دیا جائے۔“(حیات جاوید از حالی)
ہمارے یہاں کس قدر کھانا ضائع ہوتا ہے اس کا اندازہ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ سے ہوتا ہے جس کے مطابق پاکستان میں ضائع شدہ کھانے کا تناسب سالانہ فی کس 74 کلوگرام، چین میں 64 کلو گرام اور بھارت میں فی کس 50 کلوگرام ہے۔ ان ممالک کے تقریبا 61 فیصد گھروں میں خوراک ضائع کی جاتی ہے۔ سروس سیکٹر یعنی ریستوران، ہوٹلزپر 26 فیصد جبکہ ریٹیل دکانوں یعنی، ڈھابوں اور اسٹالز میں 13فیصد خوراک ضائع کی جاتی ہے۔دوسری طرف اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں روزانہ 25 ہزار افراد بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔
بچے کی پیدائش پر عقیقہ کرنا اور اس کی شادی میں ولیمہ کرنا مسنون ہے،عیدین پر خوشی منانا اور اس موقع پر زیب و زینت اختیار کرنا مطلوب ہے،مہمان کی ضیافت پر خرچ کرنا باعث اجر ہے،لیکن ان جائز امور میں بھی بے دریغ خرچ کرنا فضول خرچی ہے۔ایک مومن اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا اظہار اس لیے کرتا ہے کہ اپنے رب کا شکر ادا کرے۔اس پر اگر اللہ نے فضل کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس فضل کو خواہ مخواہ اپنے عیش و آرام پر لٹائے،اپنے نام کا جھنڈاا ونچا کرنے اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے خرچ کرے۔قرآن کے مطابق اللہ نے انسانوں کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کے بارے میں ضرورسوال کیا جائے گا۔(یسئلونک یومئذ عن النعیم۔التکاثر)
مراسم عبودیت کی ادائیگی میں بھی ہم فضول خرچ واقع ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض لوگ ہرسال عمرہ کرتے ہیں۔بعض لوگ زندگی میں کئی کئی بار حج پر جاتے ہیں جب کہ حج و عمرہ صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک بارفرض ہے۔یہ فضول خرچی نہیں تو اور کیاہے؟دوسری طرف حج و عمرے کے مواقع پر دعوتوں کا اہتمام کرنا،ائیر پورٹ تک گاڑیوں کے قافلہ لے جانا،ملاقات کرنے والوں کا مصافحہ میں لفافے دینا اور واپسی پر ان لوگوں کو تحائف دیناوغیرہ میں بھی اسراف سے کام لیاجاتا ہے جس سے بروز حشر ان عبادتوں کے وبال جان بننے کا اندیشہ ہے۔
فضول خرچی کا تعلق صرف مال سے ہی نہیں ہے بلکہ اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتوں سے ہے،ان نعمتوں میں ایک بڑی نعمت ”وقت“ ہے۔ ایک کامیاب انسان اپنے وقت کا درست استعمال کرتا ہے یا یوں کہئے کہ کامیابی کے لیے وقت کا درست استعمال ضروری ہے۔وقت کو فضول کاموں میں لگانا تو گناہ ہے ہی،جائز کاموں میں زیادہ وقت لگانا بھی اسراف ہے۔احباب و متعلقین اور رشتے داروں کی مزاج پرسی کرنا ایک نیک عمل ہے،لیکن خواہ مخواہ گھنٹوں خوش گپیوں میں برباد کرنا گناہ ہے۔اسی طرح اللہ نے انسانوں کو بے شمار تعمیری صلاحیتیں دے کر بھیجا ہے ان صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنا اگر بخالت ہے توان کا غیر نتیجہ خیز کاموں میں لگانایا غلط استعمال کرنا اسراف و تبذیر کی ذیل میں شمار کیاجاناچاہئے۔
اسلام دین فطرت ہے وہ انسان کو اچھا کھانے، اچھا پہننے، خوشی کے موقع پر دوستوں کی دعوتیں کرنے،دینی کاموں میں ایک دوسرے بڑھ کر خرچ کرنے،جلسوں اور سمپوزیم و سمیناروں میں خرچ کرنے،جنازے میں شریک ہونے والے بیرونی مہمانوں کو کھاناکھلانے،ایک دوسرے کو تحائف دینے،حج و عمرہ کرنے،سفر کو آسان بنانے کے لیے جدیدو آرام دہ ذرائع اختیار کرنے سے نہیں روکتا،وہ روکتا ہے حد سے تجاوز کرنے سے،وہ ذاتی مال کو بھی حد سے زیادہ خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہتا ہے اور مسلمانوں کے بیت المال سے زیادہ خرچ کرنے کو تو وہ خیانت اور غلول سے تعبیر کرتا ہے۔ سماج میں غربت و فاقہ کشی کا دیو انسانوں کی قابل ذکر تعدادکو نگل لینا چاہتا ہے، جہالت کا عفریت کروڑوں انسانوں کو اپنا لقمہ بنالینا چاہتا ہے، اسپتالوں میں پیسہ نہ نے ہونے باعث لاکھوں بیمار دم توڑ رہے ہیں،قوم کے ہزاروں نوجوان بے روزگار گھوم رہے ہیں،ان حالات میں قدم قدم پر فضول خرچی کا مظاہرہ اللہ کے نزیک شیطانی عمل ہے۔ اسلام ہمیں کنجوسی کی تعلیم نہیں دیتا۔قرآن مجید میں جہاں فضول خرچی سے روکا گیا ہے وہیں انسان کو کنجوسی اور بخل سے بھی منع کیا گیا ہے :۔”اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ پورا کھول دو کہ پھر ملامت میں، حسرت میں بیٹھے رہ جاؤ۔“(الاسراء۔29)اسراف اور بخل کا فیصلہ یا مصارف کی حدود کا تعین ہر انسان کو خود کرنا ہے۔اسے اپنی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہمسایوں،اپنے اعزہ و اقرباء اور ملی و ملکی ضروریات کا بھی خیال رکھنا ہے۔اگر ہم اپنی فضول خرچیوں کو کنٹرول کرلیں تو ایک بڑی رقم بچا سکتے ہیں جو ہماری آنے والی نسلوں اور سماج کے ضرورت مندوں کے کام آسکتی ہے اور معاشرہ کو خوش حال بنایاجاسکتا ہے۔

Exit mobile version