مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی
____________________
آپ مانیں یا نہ مانیں دور یہ تعلیم کا ہے، علم کے حصول کا ہے، مدرسوں اور اسکولوں کا ہے، کالجوںاور یونیورسٹیوں کا ہے، ٹیوشن اور کوچنگ کا ہے، بستے ہیں کہ پھولتے جارہے ہیں، کاندھے ہیں کہ ان کے بوجھ سے جھکتے جارہے ہیں، ڈونیشن اور فیس نے باپ کی کمر توڑ دی، اسکول کی تیاری نے ماں کی نیند اڑادی، ہوم ورک کی زیادتی نے معصوم طلبہ کے چہروں سے ان کی مسکراہٹ چھین لی۔
لیکن ایک سنہرے مستقبل کی امید میں ماں باپ کو یہ سب گوارہ ، آخر وہ مستقبل حال میں بدلتا ہے، لیکن افسوس کہ تب تک ماں باپ کے خوابوں کا وہ شیش محل چکنا چور ہوچکا ہوتا ہے، بڑھاپا ہے اور ایک لق ودق مکان کی حفاظت کا مسئلہ ہے، صاحبزادے جا چکے ہیں آسٹریلیا اور صاحبزادی کی رخصتی ہوچکی ہے کنیڈا، رہے وہ دونوں تو اب ان کی عمر کہیں جانے کی نہیں، آرزوئیں تمام دم توڑ چکی ہیں، تمنائیں ایک ایک کرکے سب رخصت ہوچکی ہیں، اب تو بس اپنی رخصتی کا منظر نگاہوں کے سامنے ہے، فکر ہے تو صرف اس بات کی کہ کیسے ہوگا یہ سفر، کس کے کاندھے پر ہوگا، زاد سفر کہاں سے آئے گا، راستہ کی ضرورتیں کون پوری کرے گا، منزل تک پہنچانے کے فرائض کون انجام دے گا، میرا بچہ تو اس لائق نہیں، اس راہ سے وہ واقف نہیں، کہاں جانا ہے یہ اسے پتہ نہیں، سفر کی مدت کا اسے کچھ اندازہ نہیں، راستہ کی ویرانی، مسافر کی تنہائی اور مسافت کی دوری کا اسے کوئی علم نہیں۔
یہ ہے مستقبل اس نظام تعلیم وتربیت کا جس کے لیے اس وقت دنیا دیوانی ہے، ایسی دیوانی کہ نہ تو اسے عقیدہ کی پرواہ ہے، نہ اخلاق کی فکر ہے، نہ عبادات کا خیال ہے، نہ معاملات کے بگڑنے کا احساس ہے اور نہ طوروطریق بدلنے کا اسے کوئی ملال۔
جن کا آخرت پر ایمان نہیں ان سے تو کچھ کہنا ہی نہیں لیکن جو حضرات آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور ایک ابدی زندگی کا تصور رکھتے ہیں، ان سے کہنے کو ضرور یہ دل چاہتا ہے کہ وہ نظام تعلیم وتربیت جس کے پیچھے آپ اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار ہیں وہ ایک مخصوص مذہب، ایک مخصوص کلچر اور ایک مخصوص طرز فکر کی نمائندگی کرتا ہے، مادیت پر اس کی بنیاد ہے، روحانیت سے وہ بیزار ہے، قلب کی دنیا اس کی نگاہوں سے بالکل اوجھل ہے، صرف مادی دنیا ہے جوہمہ وقت اس کے پیش نظر ہے، رہی آخرت تو وہ اس کے ہاں صرف ایک خیال اور ایک افسانہ ہے، تو کیا ایسے نظام تعلیم کو جوں کا توں قبول کرلینا ہمارے لیے‘ ہمارے ملک کے لیے اور ہماری ملت کے لیے سود مند ہوسکتا ہے؟
ہم مانتے ہیں اور صرف مانتے ہی نہیں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے، اس میں دنیا بھی ہے اور آخرت بھی، جسم بھی ہے اور روح بھی، کمانا بھی اور خرچ کرنا بھی، اس میں رعایت ہے فرد کی بھی اور افراد کے مجموعہ کی بھی، اس میں اہمیت ہے خاندان کی بھی اور سماج اور معاشرہ کی بھی، مرد کی بھی اور عورت کی بھی، والدین کی بھی اور پڑوسیوں کی بھی، یتیموں کی بھی اور بیواؤں کی بھی، کمزوروں اور لاچاروں کی بھی اور ضعیف وناتواں بوڑھوں کی بھی، حتی کہ اس میں ہدایات ہیں معاندین ومخالفین کے لیے بھی اور حقوق ہیں غیر مسلم ہم وطن بھائیوں کے لیے بھی۔
اس سے انکار نہیں کہ مغربی نظام تعلیم کی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، مغرب نے اپنے اس نظام تعلیم کی بدولت سائنس، ٹکنالوجی، صنعت، حرفت، ریاضی، انجینئرنگ، فلکیات، طبیعیات اور دوسرے علوم وفنون میں کامیابی کی منزلیں طے کیں، ایجادات پر ایجادات کیں، چاند پر کمندیں ڈالیں، سمندر کی گہرائیاں ناپیں، فتوحات پر فتوحات حاصل کیں، یہاں تک کہ آج وہ اپنے اسی نظام تعلیم کی بدولت اس منزل تک پہنچ گیاکہ اس نے دنیا کو اپنی مٹھی میں کرلیا لیکن ساتھ ساتھ اس نے انسان کو بحیثیت انسان کے جینے سے محروم کردیا، امن کو غارت کیا، سکون کو برباد کیا، خاندانی نظام کو درہم برہم کیا، دلوں کو محبتوں سے خالی کیا اور اس کی شکل بدل کر اس کو ایک تجوری بنا دیا۔
جسم کی ضرورتوں سے کس کو انکار، آرام وراحت سے کس کو بیر، فرد کی اہمیت کسے تسلیم نہیں، ذاتی نفع ونقصان کی کس کو فکر نہیں، دنیاوی ترقی کی تمنا کس کے دل میں نہیں لیکن روح کو نظر انداز کرکے، آخرت کو فراموش کرکے، انسان کی انسانیت کو پامال کرکے، سماجی تقاضوں کو پس پشت ڈال کے، ماں باپ، رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے ناطہ توڑ کے صرف اپنی ذات تک اپنی سوچ کے دائرہ کو محدود کرلینا، یہ طرز عمل جانوروں کا تو ہوسکتا ہے کسی انسان کا نہیں، جنگل میں تو اس طریقہ سے رہا جاسکتا ہے لیکن انسانی آبادی میں نہیں۔
یقیناً ہر قوم کو ضرورت پڑتی ہے ڈاکٹروں کی، انجینئروں کی، سائنس دانوں کی، صنعت کاروں کی، قانون دانوں کی، ریاضی کے ماہرین کی اور دوسرے علوم وفنون میں دسترس رکھنے والوں کی، مسلم معاشرہ کو بھی ایسے لوگوں کی ضرورت ہے، لیکن اسلامی تعلیمات کے ساتھ، اعلیٰ انسانی قدروں کے ساتھ، ہمدردی وغمخواری کے جذبہ کے ساتھ، دوسروں کے دکھ درد کے احساس کے ساتھ اور یہ چیزیں پیدا ہوتی ہیں تو اسلامی نظام تعلیم وتربیت کے مرحلہ سے گذر کر۔
ہوسکتا ہے کہ میری ان باتوں سے آپ کو اتفاق نہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی زبان نہیں تو دل ضرور کچھ اس طرح گویا ہو کہ کس نظام تعلیم وتربیت کی آپ بات کرتے ہیں، وہ نظام تعلیم جس کے پروردہ اشخاص کے پاس نہ دین ہے نہ دنیا، جنت ودوزخ کے تذکرے تو بہت کرتے ہیں لیکن نہ دوزخ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ جنت میں جانے کی کوئی فکر، دین بیچتے ہیں اور دنیا خریدتے ہیں، شہرت وناموری کے دل دادہ اور کبر ونخوت میں ڈوبے ہوتے ہیں، نہ ان کے یہاں قناعت ہے، نہ توکل ہے، نہ زہد ہے، نہ استغنا ہے، نہ ایثار ہے، نہ ہمدردی ہے اور نہ تقویٰ۔
تو کیا ایسی صورت میں اس نظام تعلیم وتربیت سے کوئی اچھی امید لگائی جاسکتی ہے؟ جی ہاں! بشرطیکہ آپ اس نظام سے جڑیں، خرابی نظام کی نہیں، دانش گاہوں کی نہیں، تربیتی اداروں کی نہیں، خانقاہوں اور مدرسوں کی نہیں، نصاب تعلیم کی نہیں، خرابی ان لوگوں کی ہے جو اس نظام سے جڑتے ہیں،لیکن دنیاوی مقاصد کی تکمیل کے لیے اور اپنی مادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ، آپ جڑیں نیت کی درستگی کے ساتھ، اخلاص کے جذبہ کے ساتھ، عمل کے ارادے کے ساتھ،پھر دیکھئے انسانیت کی کھیتی کیسے لہلہاتی ہے اور انسان کو اس کا کھویا ہوا مقام کیسے واپس ملتا ہے۔
ضرورت آج قدیم وجدید میں توازن پیدا کرنے اور ان کا صحیح استعمال کرنے کی ہے، علم قدیم ہو یا جدید ہو،ہر علم خدا کا دیا ہوا ہے، ہر علم خدا تک پہنچاتا ہے، ہر علم اپنے اندر افادیت رکھتا ہے، ہر علم مشکلات میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے، بشرطیکہ اس کا حصول رب کے نام کے ساتھ ہو، خدا کے تصور کے ساتھ ہو، جواب د ہی کے احساس کے ساتھ ہو۔
جدید کہے جانے والے علوم کا المیہ یہ ہے کہ خالق کائنات سے ان کا ربط ٹوٹ گیا، اسم ’’رب‘‘ سے ان کا رشتہ منقطع ہوگیا ، قدیم کہے جانے والے علوم کا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے وابستہ افراد کا سب سے بڑا سرمایہ اخلاص تھا، اب وہی اخلاص دھیرے دھیرے ان کی زندگیوں سے نکلتا جارہا ہے،مولانا ابو الکلام آزاد نے ایک مرتبہ گاندھی جی کی کلکتہ آمد کے موقع پر مدرسہ عالیہ کلکتہ کے طلبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: گاندھی جی، دنیا میں صرف یہی وہ جماعت ہے جو علم کو برائے علم اور برائے رضائے الٰہی حاصل کرتی ہے، لیکن افسوس کہ آج یہ جماعت بھی اپنا امتیاز کھوتی جارہی اور دنیا کی رنگینیوں میں گم ہوکر اپنے ماضی سے اپنا رشتہ کمزور کررہی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ سماج کے ہر طبقہ کو اس کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
انسان کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے علم کو تقدس کا درجہ دے دیا ہے، اس نے علم کو غلطی کرنے اور دھوکہ کھانے سے مبرا سمجھ لیا ہے، آج دنیا کا سارا بگاڑ اسی تصورکا نتیجہ ہے، علم غلطی کرتا ہے، دھوکہ کھاتا ہے، چوک اس سے ہوتی ہے، سوائے اس کے کہ علم آسمانی تعلیمات وہدایات کی رہنمائی میں اپنا سفر طے کرے اور احکام الٰہی کا پابند اور اس کا تابع ہو کر اپنا کردار ادا کرے۔
آج ضرورت ہے جدید علوم کو خداکے نام سے جوڑنے اور قدیم علوم سے وابستہ افراد میں اخلاص پیدا کرنے اور ان میں رضائے الٰہی کے جذبہ کو فروغ دینے کی، یہی اس وقت علمی دنیا کی سب سے بڑی خدمت اور انسانی دنیا کی اہم ترین ضرورت ہے۔