✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری
___________________
کتنا آسان ہے یہ لفظ؛ لیکن اس کی خطرناکی اور زہرناکی پر دھیان دیجیے تو روئے زمین پر اس سے زیادہ ناپسندیدہ چیز اللہ تعالی کو کچھ نہیں ہے. چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ابغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق”.
”اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
طلاق صرف میاں بیوی کے درمیان ہی واقع نہیں ہوتی بلکہ دو خاندان علاحدہ ہو جاتے ہیں، نسلیں متاثر ہو جاتی ہیں، اولاد کا مستقبل داؤ پر لگ جاتاہے، ان کی تعلیم و تربیت کو گھن لگ جاتاہے، بے شک میاں بیوی کے درمیان جھگڑے اور ناموافقت کے باعث عموما طلاق واقع ہوتی ہے؛ لیکن طلاق کے بول بولنے سے پہلے ذرا سوچئے ان معصوم بچوں کے اوپر کیا گزرتی ہوگی جب ان کی ماں ان سے الگ کی جاتی ہے یا ان کا والد ہمیشہ کے لئے ان سے دور ہو جاتا ہے، وہ اولاد جس کے بغیر ماں کو نیند نہیں آتی تھی یا وہ والد جو اپنی اولاد کی خوشی کے لئے اپنی تمام تر خوشیوں کو قربان اور پس پشت ڈال چکاتھا اب طلاق کی دراڑ کیا واقع ہوئی کہ جڑ نہیں سکتی، علاحدگی کی خلیج کبھی پاٹی نہیں جاسکتی۔
نااتفاقی، اختلاف رائے، مزاج کی نا موافقت اور حالات کی مجبوری جو کچھ بھی ہو جو بھی وجہ رہی ہو لیکن سب سےبڑی سزا معصوم بچے کو ملتی ہے، بچہ اپنی ماں کے پاس ہے تو اپنے والد سے بدظن ہوتا چلا جاتا ہے اور والد کے پاس ہے تو اپنی ماں سے بدگمانی بڑھتی چلی جاتی ہے، بے شک شریعت نے طلاق کا اختیار دیا ہے لیکن کیا صرف یہی ایک راستہ ہے، آپ کے پاس نبھانے کے لئے اور بھی راستے ہیں مثلا آپ دوسری شادی کر لیجیے، پہلی کو شرعی طور پر جو بھی حقوق ہیں وہ دیتے رہئے،یا خاندان کے بڑے بزرگ لوگوں کو درمیان میں ڈال کر اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کیجیے، لمبی مدت کے لئے بیوی کو اس کے والدین کے گھر بھیج کر اپنی کمی اور اپنی یاد کا اس کو موقع دیجیے، شادی شدہ لڑکیاں اپنے والدین کے گھر زیادہ دن نہیں رہ سکتی ہیں، یا اپنی بیوی کو ایک طلاق دے کر سنبھلنے اور سمجھنے کا موقع دیجیے ، عموما پہلی ہی طلاق میں دماغ درست ہوجاتاہے۔
اللہ تعالی نے مردوں کو طلاق کا اختیار دے کر عورتوں پر بڑا کرم فرمایا ہے، ورنہ آج طلاق یافتہ مردوں کی اکثریت ہوتی کیونکہ عورت ناقص العقل ہے وہ غصہ میں سب سے پہلا تیر طلاق کا ہی چلاتی۔ لیکن آپ کو اللہ نے مرد بنایا ہے اس لئے ہر لفظ سے پہلے سوچئے، ہر قدم اٹھانے سے پہلے غور کیجیے، ہر وقت دھیان رکھئے کہ کوئی ایسا لفظ صراحتاً یا اشارۃ یا کنایۃ زبان سے نہ نکلے کہ آپ کی بیوی آپ کے لئے حرام ہوجائے۔