سیمانچل کے معصوم طلبہ کا تعلیم کے لیے بیرون ریاست سفر: مشاہدات، حقائق اور گذارشات

✍️ محمد اطہر القاسمی

نائب صدر جمعیت علماء بہار

____________________

ارریہ سیمانچل اور ریاست بہار کے مسلمان گرچہ صدیوں سے اقتصادی و معاشی طور پر پس ماندگی کے شکار رہے ہیں اور آزادی کے ستتر سال کے بعد بھی دیگر خطے کے مقابلے میں ترقیاتی سفر میں وہ تا ہنوز بہت پیچھے ہیں۔
لیکن تعلیم اور بطورِ خاص دینی تعلیم کے معاملے میں بحمد اللہ اہالیانِ سیمانچل و بہار اور بطورِ خاص مسلمانانِ ارریہ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اور وہ اپنے کھیت و کھلیان کی سوکھی روٹی کھاکر اور اپنے پیٹ کاٹ کر بھی اپنے نونہالوں کو زیور تعلیم وتربیت سے آراستہ کرتے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کی مادیت پرستی کے ماحول میں بھی ارریہ سیمانچل اور ریاست بہار کے علماء و فضلاء اور حفاظ و ائمہ پورے ملک میں چھوٹے بڑے دینی اداروں اور چھوٹی بڑی مساجد و مکاتب میں اپنی مخلصانہ خدمات کے لئے متعارف ہی نہیں ممتاز بھی ہیں بلکہ مجھ عاجز سے جو منتظمین حضرات،مدرسین وغیرہ کے حوالے سے رابطہ کرتے ہیں بعض دفعہ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر ضلع ارریہ کے باشندے ہوں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ قلیل تنخواہ پر بھی دل جمعی اور محنت ولگن کے ساتھ اپنے مفوضہ امور انجام دیتے ہیں۔
بیس پچیس سال کے حالیہ عرصے میں ملک کے کونے کونے میں طلبہ عزیز ایک دوسری جگہ تعلیم وتربیت کے حصول کے لئے رواں دواں نظر آتے ہیں لیکن آج سے پچیس پچاس سال قبل اس معاملے میں ارریہ،سیمانچل،بہار اور صوبہ اترپردیش نے پورے ملک میں اپنی تاریخی نمائندگی کی ہے اور ملت اسلامیہ کی دینی تعلیم وتربیت کے لئے انہوں نے جو مثالی کردار ادا کیا ہے اس حقیقت و صداقت سے شاید ہی کسی انصاف پسند طبقے کو انکار ہوسکتاہے،مجھے کہنے دیا جائے کہ اس معاملے میں بطورِ خاص ان دونوں صوبوں نے پورے ملک کی اولین امامت و قیادت کی ہے جس کا سلسلہ بحمد اللہ تاہنوز جاری ہے اور ان شاءاللہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔
چنانچہ آج سے تقریباً 38 سال قبل جبکہ اس عاجز کی عمر محض آٹھ سال تھی،اعظم گڈھ کے اکابر علماء کی سرپرستی میں اپنے گاؤں کے مکتب و اسکول کو چھوڑ کر جامعہ عربیہ انوار العلوم جہاناگنج اعظم گڈھ سے حفظ قرآن کریم سے تعلیم وتربیت کا بسم اللہ کیا تھا اور پھر جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور،جامعہ عربیہ عین الاسلام نوادہ،جامعہ عربیہ منبع العلوم خیرآباد مئو کے بعد جامعہ عربیہ مدرسہ شاہی مرادآباد اور ام المدارس دارالعلوم دیوبند تک کا 14 سالہ سفر طے کرتے ہوئے تکمیل افتاء کے بعد 22 سال کی عمر میں جامعہ مدنیہ سبل پور پٹنہ میں اساتذہ گرامی حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم و حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری دامت برکاتہم کے حکم پر درس وتدریس میں لگ گیا تھا۔
لیکن مجھے خوب اچھی طرح پورے 14 سالہ سفرِ طالب علمی کا خوبصورت زمانہ مکمل یاد ہے کہ کس طرح بہار سے یوپی کے دور دراز کے اسفار میں جگہ جگہ اپنوں سے زیادہ برادرانِ وطن کے ذریعے ہم سفید ٹوپی اور سفید کرتے و پاجامہ والے کم عمر طلبہ کی جماعت کا استقبال ہوتا تھا، ہم جہاں رکتے تھے،لوگ رک رک کر ہمیں مسکراتے ہوئے دیکھتے اور قریب آکر سروں پر شفقت بھرے ہاتھ پھیرتے تھے اور بڑے پیار سے اپنے تھیلے سے ہمیں اپنا بچہ سمجھ کر پھل اور میوے پیش کرتے تھے،اور ہم بچے بھی من کے ایسے سچے ہوتے تھے کہ بلاتکلف ان کے پرخلوص ہدیوں کو قبول کرلیتے تھے۔یہی نہیں یوپی کے اعظم گڈھ اور مئو کے علاقے میں جب جمعرات کی چھٹیاں ہوتیں اور ہم بچے اپنے ساتھیوں کے مدارس میں بطورِ مہمان ان سے ملنے کے لئے پندرہ پندرہ بیس بیس کلومیٹر جھنڈ بنا بنا کر کھیت و کھلیان کی منڈیروں سے ہوتے ہوئے پیدل ہی سفر کرلیتے تھے،تو راستے میں جگہ جگہ بوڑھی بوڑھی غیر مسلم مائیں اور بہنیں اپنے کھیتوں سے نکل نکل کر ہمیں اپنے دروازوں پر بٹھا بھٹا کر چینی پانی اور گنے کے جوس اور شربت پلا پلاکر ہمارا استقبال کرتی اور ہمیں اپنی آنچل سے دھوپ سے سرخ ہمارے چہروں کو پوچھتی اور دعائیں دیتی ہوئی اگلے سفر کے لئے روانہ کردیا کرتی تھیں۔
رفقاء گرامی قدر!
آج آپ اپنی نظریں گھمائیے اور پورے ملک پر سرسری ہی سہی ایک بار دیکھ لیجیۓ کہ یکایک آج کیا سے کیا ہوگیا ؟ ملک کہاں تھا اور کہاں چلا گیا ؟ ملک کی فضا کس قدر مکدر اور مسموم بلکہ زہر آلود ہوگئی،بطور خاص حالیہ دس پندرہ سال کے عرصے میں پے درپے رونما ہونے والے مسلم مخالف واقعات سے شاید بعض لوگوں کو یہ یقین بھی نہیں ہوسکتاہے کہ کیا واقعی یہ وہی دیش ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں ابھی اوپر کاتبِ تحریر نے خود اپنے بچپن کے قصہ پیار و محبت درج کئے ہیں۔
اچھا یہ تو بچوں کی باتیں تھیں، آپ ہی بتائیے کہ کیا یہ حقیقیت نہیں ہے کہ پورے ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے مسلمان جب اور جہاں چاہتے تھے،نماز کا وقت ہونے پر مصلے بچھالیتے تھے اور یہی نہیں کہ وہ مکمل صبر و قرار کے ساتھ اپنی نمازیں ادا کرتے تھے،بلکہ بغل میں موجود برادران وطن بغیر درخواست کئے ہی ان کے لئے جگہ ہموار کردیتے تھے،ان کی اور ان کے زاد سفر کی نگہداشت کرتے تھے اور جب ریلوے اسٹیشنوں پر جماعت کی صفیں لگ جایا کرتی تھیں تو یہی وطنی بھائی ٹکٹکی باندھے بڑے پیار سے اسلام کے اس اہم رکن کی عملی شکل کو دیکھتے رہتے اور خوب خوب محظوظ ہوتے تھے۔
رفقاء گرامی !
لیکن یہ کتنے قلق اور درد و الم کی بات ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گیا،کہنے کو ملک کا آئین و دستور وہی ہے لیکن مٹھی بھر فرقہ پرست طاقتیں،شرپسند عناصر اور نفرتی جماعت کی کارستانیاں رفتہ رفتہ اس قدر اپنے شباب پر پہنچ چکی ہیں کہ ملک کی ساری ملی جماعتیں اور انصاف پسند گروہوں کی ٹیمیں اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر اُسی پرانے پیارے بھارت کو دوبارہ پٹری پر لوٹانے کے لئے کمربستہ ہوجائیں تو شاید انہیں اب صدیاں لگ جائیں گی۔
ماب لنچنگ کے بےشمار روح فرسا واقعات، بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں،مدارس اسلامیہ کے خلاف طرح طرح کے سروے،تاریخی وراثت کی علمبردار مساجد کی مسماریاں،ان پر تالے بندیوں کی کوششیں،اوقاف کی جائیدادوں پر طرح طرح کے خدشات،دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں پر نگرانیاں،علماء و حفاظ کے کردار و عمل پر ترچھی نگاہیں حتی کہ امن و آشتی کے روحانی مراکز مساجد میں جمعہ کے خطبات پر خفیہ ایجینسیوں کے پہرے؛ان تمام کڑیوں کو آپ جب پوری سنجیدگی کے ساتھ ایک دوسرے سے جوڑیں گے تو آپ کا ضمیر خود گواہی دے گا کہ اب عملی طور پر ملک کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔آپ کہ سکتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری ہے،یہاں قانون کا راج ہے اور ہم آئین و دستور کے مطابق اپنے شب وروز پہلے کی طرح ہی گذارنا چاہتے ہیں تو جواب یہی ہوگا کہ آپ اپنے دعوے میں حق بجانب ہیں،ہم بھی یہی کہتے اور سوچتے ہیں اور اسی پرانے بھارت کو برسوں سے ڈھونڈ رہے ہیں لیکن تمام تر خواہشات کے باوجود ہماری کھوپڑی کی دونوں آنکھیں ہمیں بتاتی ہیں کہ تم خوابوں کی دنیا کی سیر کررہے ہو،تم ابھی تک گہری نیند میں ہو،اور جب بیدار ہوگے تو دیش اور دنیا اور زیادہ بدل چکی ہوگی۔وما النصر الا باللہ۔و الی اللہ المشتکی۔حسبنا اللہ و نعم الوکیل ۔۔۔
رفقاء گرامی!
اس پندرہ سترہ سالہ ملک بھر کے مشاہداتی زمینی تجربے اور حقائق کی بناء پر بندہ عاجز محمد اطہر القاسمی نے اپنی پرانی رائے تبدیل کرتے ہوئے  یہاں اپنے آبائی ضلع ارریہ،سیمانچل اور بہار کے معصوم طلبہ عزیز جن کی عمریں 6 سال سے 14 سال کے درمیان ہوں،ان کے حق میں یہ تجویز رکھی اور ان کے گارجین اور سرپرستوں سے شعبان المعظم اور شوال المکرم میں بارہا یہ اپیلیں کی کہ آپ اپنے ان معصوم بچوں کو اندرون ریاست اپنے علاقائی و مقامی مدارس میں ابتدائی دینی و عصری تعلیم وتربیت سے آراستہ و پیراستہ کرائیں اور جب یہ بچے دینیات،ناظرہ،حفظ اور ابتدائی عربی و فارسی مثلاً عربی اول و دوم تک یہاں پڑھ لیں،جب تک ان کی عمر بھی سنِ شعور کو پہنچ جائے اور وہ ریاست کے باہر اسفار کی صعوبتوں کو برداشت کرلینے کے اہل بھی ہوجائیں تو پھر انہیں معتبر ذمےداران و سرپرستوں کی نگرانی میں عُلیا یا متوسطات کی تعلیم وتربیت کے لئے باہر بھیجیں پھر وہ حسب سہولت ملک و ملت کی خوب خوب دینی و مذہبی خدمات انجام دے سکیں تو یہ طرز عمل موجودہ ملکی منافرتی ماحول کے تناظر میں زیادہ بہتر ہوگا،حالانکہ اب یہاں خود صوبہ بہار میں بھی اکابرین کے مشورہ سے کئی بڑے ادارے میں بھی دورہ حدیث شریف تک کی تعلیم وتربیت ہورہی ہے۔
لیکن کم از ابتدائی تعلیم یہاں مقامی اداروں میں تو لازمی حاصل کرلیں۔اس میں جہاں ایک طرف ملکی منافرتی مسائل سے حفاظت ہوگی،وہیں دوسری طرف قریب ہونے کی وجہ سے والدین اور سرپرست حضرات حتی کہ جن بچوں کے باپ یا بھائی روزی روٹی کمانے کے لئے مسلسل باہر رہتے ہیں ان کی معزز مائیں بھی کم از کم ماہانہ ہی سہی اپنے جگر پاروں کی ملاقات کرکے ان کی تعلیمی و تربیتی ترقی اور صحت و تندرستی کے حوالے سے دیکھ ریکھ بھی کرسکیں گی اور بچوں کو کم عمری میں بہت زیادہ دوری کا احساس بھی نہیں ہوگا اور نیز مدرسہ انتطامیہ سے باہمی ربط و ضبط سے ادارے کے ساتھ بچوں کو بھی حوصلہ ملے گا۔
البتہ ایسے معتبر و مخلص علماء و نظماء حضرات جو خود اپنے معیاری ادارے بیرون ریاست چلارہے ہیں اور انہیں ان تمام مراحل و خدشات سے تحفظ پر مکمل بھروسہ و اعتماد ہے اور وہ انہیں اپنے جگر پاروں کی طرح اپنے ساتھ رکھ کر پوری امانت و دیانت کے ساتھ معیاری تعلیم وتربیت سے آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتے ہیں تو ایسے مخلصین کے اعلیٰ جذبات کی قدر کی جانی چاہئے لیکن ظاہر سی بات ہے کہ ایسے مخلصین اس زمانہ میں کم ہی دستیاب ہیں۔
رفقاء گرامی قدر!
عاجز یہ اپیلیں گذشتہ کئی سال سے کررہاہے لیکن بڑے قلق اور درد کے ساتھ آج یہ عرض کرنے پر مجبور ہے کہ اس اپیل کو ملک و ملت کا بیشتر حساس و بالغ نظر انصاف پسند طبقہ تو سراہتا اور خوب حمایت کرتا ہے لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مسلسل اس عاجز کو ٹارگیٹ کررہاہے اور بہانے بہانے بناکر طعن وتشنیع اور سخت و سست کہتا اور لکھتا رہتاہے اور پرسنل وہاٹسپ پر تحریروں اور فون پر الٹا سیدھا سنانے پر آمادہ نظر آتا ہے۔اور اس کے پیچھے وہ یہ بنیادیں پیش کرتا ہے کہ یہاں ارریہ سیمانچل اور بہار میں معیاری مدارس نہیں ہیں’ اور جو ہیں وہاں سینکڑوں کمیاں و خامیاں ہیں اور یہ کہ اس عاجز کا اس اپیل سے شاید کوئی ذاتی مفاد وابستہ ہے،حالانکہ واللہ ایسا ہرگزنہیں۔بندہ چونکہ مسلسل ملک کے منفی حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا رہتا ہے اور جب ان ہی بچوں کی جگہ جگہ گرفتاریاں ہوتی ہیں تو بچوں کے رہبران پھر جمعیت جیسی تنظیموں سے فوری تعاون کی اپیلیں کرتے ہیں اور عدم تعاون کی صورت میں سارا بھڑاس نکالنے میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔
رفقاء گرامی!
ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ارریہ،سیمانچل یا ہمارا صوبہ خود کفیل ہے،یہاں پورے ملک کے بالمقابل بڑے مدارس موجود ہیں،اس لئے آپ اپنے بچوں کو باہر مت بھیجو،نہیں بالکل نہیں۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔اور نہ ہم نے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ یہاں کے مدارس میں قیام کے لئے ایرکنڈیشن روم ،فرش کے لئے سنگ مرمر،ہمالیائی گیٹ و گنبد والی پرشکوہ عمارتیں ہیں اور طعام کے لئے تینوں وقت قیمے،قورمے،کباب،باسمتی پلاؤ،مرادآبادی بریانی،چکن فرائی اور مرغ مسلم ملتے ہیں؛بابا یہ مدارس بھی تو محض مدارس ہی ہیں اور ملک بھر کے ٹکے ٹکے کے چندے سے چلتے ہیں اور ساتھ ہی علاقائی فصلی گیہوں دھان اور مکئی کی مٹھی مٹھی سے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں اور مستزاد یہ کہ یہ اقتصادی و معاشی پسماندگی کے شکار خطے کے مدارس ہیں،اس لئے سہولیات کا فقدان تو لازمی شی ہے۔اچھا جہاں قدرتی طور پر یا دیگر وجوہات کی بناء پر سہولیات کا فقدان ہے وہاں کے مدارس دینیہ میں سہولیات کا فقدان ہو تو کون سی حیرت و استعجاب کی بات ہے،ہم نے تو بچپن میں خودکفیل خطے کے مدارس میں تعلیم کے زمانے میں اپنی پلیٹ کے چاولوں سے کیڑے چن چن کر پلیٹ کے کناروں پر لگا لگا کر کھانا کھایا ہے اور خوب پڑھائی کی ہے بلکہ ہم اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے کہ بابو جس کی پلیٹ میں جتنے کیڑے نکلیں وہ پلیٹ کے کناروں میں لگاتا جائے،کھانے کے درمیان اس کا چرچہ نہ کرے،ہاں کھانے کے بعد اپنی اپنی گنتی شمار کرادے کہ کس کی پلیٹ میں آج کتنے کیڑے نکلے۔۔۔۔۔اللہ معاف کرے کہ ان ہی خلوص بھرے چاول اور روٹیاں کھاکر دو چار حرف علم و ادب کا تحفہ ملا جو آج کام آرہاہے،ورنہ ہم بھی آج کسی فیکٹری میں کسی مشین کے کان اینٹھ رہے ہوتے،فجزاکم اللہ خیر الجزاء۔
تو یقیناً یہاں کے مدارس میں سہولیات کا فقدان ہے، لیکن اس کا حل بھی ہمیں ہی تلاش کرنا ہے اور جن سے جو ممکن ہوسکے انہیں اپنا دامے درمے سخنے اور قدمے تعاون ضرور پیش کرنا چاہئے اور طالبان علومِ نبویہ کی خوب تر سہولیات کی فراہمی کے لئے اپنی سی کوششیں ضرور کرنی چاہئے۔
اس سلسلے میں یہاں کے مدارس دینیہ کو بھی سنجیدگی کے ساتھ سر جوڑ کر غور وخوض کرنا چاہئے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی روک تھام کے لئے منظم و مستحکم لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے کہ آخر آپ جن بچوں کی ناک کی رینٹیں صاف کرتے اور جنہیں ازار باندھنا سکھاتے ہیں انہیں سال دو سال کے بعد ہی پَر کیوں لگ جاتے ہیں اور وہ آپ سے دور کیوں ہوجاتے ہیں اور آپ کے ہاتھوں سے کیوں نکل جاتے ہیں؟اس سلسلہ میں یہاں کے نظماء حضرات کو آپس میں رفیق کار بن کر اور آپس میں مل جل کر اپنے تعلیمی نظام کو پہلے سے زیادہ منظم و مستحکم و معیاری بنانے کے لئے مزید ٹھوس و موثر اقدامات کرنے چاہییں؛خاص طور پر علاقائی فصلی مالی فراہمی کے لئے بار بار مدارس میں مکمل چھٹی اور اساتذہ کرام کے لئے اپنی تنخواہیں اپنے چندے سے حاصل کرنے کی ذمے دارایوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے الگ سے محصل کی ضرورت ہو تو رکھ لینے چاہییں لیکن چھٹیوں کے سلسلے میں کمی لانی چاہئے یا پھر ایک جماعت علاقے میں جائے تو دوسری جماعت تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھے اور ساتھ ہی مدارس کے اساتذہ کا اپنے حلقے کی عوام سے چندہ کے علاوہ بھی ان کے دکھ سکھ میں موقع بہ موقع ملاقاتوں کا سلسلہ ہو،طلبہ کا ماہانہ تعلیمی جائزہ،بچوں کی تعلیمی و تربیتی ڈائری اور بچوں کے گارجین و سرپرستوں کے ساتھ ماہانہ تعلیمی میٹنگ بھی منعقد ہونے چاہئیں۔دوسری طرف خطے کے مسلمانوں کا اپنے حلقے کے مدارس سے والہانہ عشق و لگاؤ،مدرسہ کے منتظم سے گفت و شنید،اساتذہ سے ربط و ضبط،اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر مشاورتی بات چیت اور ادارہ کو پروان چڑھانے اور مزید آگے بڑھانے کے لئے اپنی خدمات کی پیشکش وغیرہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔۔۔۔
رفقاء گرامی!
مذکورہ بالا امور گرچہ لازمی ہیں اور ہمارے بیشتر مدارس گرچہ ان تمام امور پر پہلے کے مقابلے زیادہ کام کررہے ہیں اور تنخواہیں بھی پہلے کے مقابلے اب قدرے مناسب یعنی کم از کم دس سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ ہیں لیکن ان سب کے باوجود ہمیں بدلتے ہوئے حالات کی نزاکت کے پیش نظر مزید اقدمات کرنے ہوں گے پھر علاقائی مدارس کے حوالے سے لوگوں کی یہ ساری شکایات بھی جلد ہی دور ہوجائیں گی اور ہم اس حالت میں آجائیں گے کہ پھر آپ کے لئے کسی کو اپیل کرنے اور سخت سست سننے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی ان شاءاللہ۔۔
لیکن ان سب کے باوجود ملک کے موجودہ منافرتی ماحول میں محض دینیات اور حفظ و ناظرہ اور ابتدائی عربی و فارسی کے لئے اپنی جانیں جوکھم میں ڈال کر سرپرستوں کا اپنے لخت جگر کو پانچ سو،ہزار،دو ہزار اور ڈھائی ہزار کلومیٹر دور علاقوں کے مدارس میں بھیجنا اور منع کرنے کے باوجود بچہ مزدوری کے شک میں بچوں کے قافلے کو ریلوے پولس کے ذریعے گرفتار کرلینا اور پھر جمعیت علماء ہند یا دیگر ملی جماعتوں کے نمائندوں سے رہائی کی اپیلیں کرنا اور جب اس میں کمی واقع ہوجائے تو پھر تنقیدوں اور منفی تبصروں سے نوازنا یہ کسی بھی لحاظ سے جائز یا مناسب عمل نہیں ہوسکتا۔
آج ہی جمعیت علماء ہند کے میڈیا انچارج رفیق گرامی مولانا عظیم اللہ صدیقی حفظہ اللہ نے جمعیت علماء ارریہ گروپ میں ہندی روزنامہ أمر اجلا کا ایک تراشہ بھیجا ہے جس میں ارریہ کے چند معصوم بچوں کو ریلوے پولس نے اطفال مزدوری کے شک میں گرفتا کرکے چائلڈ کیر کے حوالے کردیا ہے اور ان کے رہبروں کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔اور رہبرانِ طلبہ پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے ہیں،یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے،ابھی صرف اسی سال یکم شوال المکرم 1445 سے آج 20 شوال المکرم تک یعنی محض 20 دن میں ایسے دسیوں واقعات پیش آچکے ہیں کہ ملک کے مختلف علاقوں میں کہیں دس بچے،کہیں بیس،کہیں تیس،کہیں پچاس اور کہیں نوے اور پچانوے معصوم بچے ریلوے پولس کی کسٹڈی میں آکر خوف وہراس سے دوچار ہوچکےہیں
گرچہ یہ سارے بچے محض طلبہ ہوتے ہیں اور پیشتر کے پاس اب ضروری دستاویزات بھی ہوتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود تو ہی نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں کی کہاوت دہرائی جاتی ہے،یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔عموما ارریہ کے بچے ملک بھر میں جہاں کہیں بھی گرفتار ہوتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بندہ عاجز کو فون کرکے حکم دیتا ہے کہ جلدی چھڑاؤ،کیونکہ تم جمعیت کے آدمی ہو،گویا ہمیں چھڑانا تمہاری اولین ذمےدارای ہے۔اب آپ ہی بتائیے کہ ملک کے حالات انتہائی نازک ہیں،یہاں کے اعلیٰ ترین سیاسی لیڈران 20 فیصدی اس طبقے کو چڑھانے اور ذلیل وخوار کرنے پر کمربستہ ہیں،پورے ملک میں اس وقت پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں،ضابطہ اخلاق نافذ ہے،ایم ایل اے و ایم پی حضرات معاونت سے ہاتھ اٹھا لے رہے ہیں اور ایک ملکی تنظیم کا ادنیٰ خادم ہی ہونے کی حیثیت سے بندہ مہینہ دو مہینہ پہلے سے ہی اپیل پر اپیلیں کررہاہے لیکن لوگ اپیل سننے اور ماننے کو تیار تو نہیں ہیں البتہ جب وہی حادثہ رونما ہوتا ہے جس سے خبردار کیا جاتا ہے تو پھر فون اور وہاٹسپ پر خوب طمطراق کی قابلیت دکھائی جاتی ہے اور جمعیت جمعیت کی دہائیوں کا نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ اپیل کرنے والا ہی قصوروار ہے۔
لہٰذا اگر کسی صاحب کو عاجز کی عاجزانہ اپیل سے اختلاف ہے،تو آپ کو اختلاف کا کلی اختیار ہے،کیونکہ اپیل تو محض ایک اپیل یعنی درخواست ہے،جسے ماننا نہ ماننا دونوں جائز ہے،یہ کوئی واجبی امر ہرگز نہیں،البتہ جب کوئی شخص کسی کی کوئی اپیل ٹھکرادے اور اپنی کفالت پر بعینہٖ اس کے برعکس کوئی قدم اٹھانے پر آمادہ ہو تو اب انہیں یہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اس کے انجام کا ذمےدار بہرحال اب وہ خود ہے،کوئی دوسرا ہرگز نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے،آمین یا ربّ العٰلمین!

Exit mobile version