Site icon

کسی کے کمزور پہلو کو مت چھیڑیں

✍️ محمد قمر الزماں ندوی

___________________

کسی بھی چیز یا عمل کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی پہلو ،انسان کو چاہیے کہ وہ کسی عمل یا کام میں زیادہ سے زیادہ مثبت پہلو تلاش کرے اور مثبت انداز فکر اپنائے ،الا یہ کہ جہاں ناگزیر اور ضروری ہو وہاں منفی پہلو پر بھی نظر رکھے اور اس کے متعلق بھی سوال و جواب کرے اور اس پر بھی تبصرہ کرے ۔ لیکن انسان کا کمزور پہلو یہ ہے کہ وہ زیادہ تر منفی پہلوؤں پر نظر ڈالتا ہے اور سامنے والے کو مزید الجھن یا ڈپریشن میں ڈال دیتا ہے ۔ عموماً معاشرہ میں یہ چیز پائی جاتی ہے ۔ جو مناسب نہیں اور جس سے انسان کو پرہیز کرنا چاہیے ۔ ایک صاحب نظر نے منفی طرز فکر اور اس کے نقصان و نتائج کو بہت سلیقے سے اور اچھے انداز سے مثالیں دیکر سمجھایا ہے ۔ مناسب محسوس ہوا کہ ہدیہ قارئین کردوں۔
م۔ ق۔ ن

__________________

کیا یہ ضروری ہے کہ ہم ہر ملاقات میں، ہر ٹیلیفونک گفتگو میں دوسرے کے کمزور پہلوؤں کو ہی چھیڑیں ؟
• تمہاری بچی کا ابھی تک رشتہ نہیں ہوا؟
• بچے کو نوکری نہیں ملی؟
• تمہاری شادی کو اتناااا عرصہ ہو گیا ابھی تک کوئی خوشخبری نہیں سنا رہے؟
• پانچ سالوں میں بس ایک ہی بچہ/بچی؟ یارررر آگے کا بھی سوچو ۔۔۔!!
• رشتے سے انکار کر دیا کیوں بھئی کیوں؟
• اللّٰہ یہ تمہارے چہرے پہ اتنے دانے کیوں نکل آۓ؟ پہلے تو اتنا پیارا سا چہرہ تھا۔
• اتنے موٹے کیوں ہو گئے ہو؟ پہلے اتنا بہترین جسم تھا تمہارا ۔۔!
• ہاااااا یہ تمہارے بالوں کو کیا ہو گیا ہے؟
ذرا ٹھرئیے!!!!
رکئیے….!!!
ذرا سوچئے !!!
آپ کے پاس اگر یہ سب نعمتیں ہیں تو کیا اس میں آپ کا اپنا کمال ہے؟
آپ کے بچہ یا بچی کا رشتہ ہو گیا تو کیا آپ کا اپنا کمال ہے؟؟؟
آپ کے بچے اعلیٰ عہدوں پہ نوکریوں پہ لگ گئے آپ کا اپنا کمال ہے؟
نہیں  بالکل بھی نہیں  کیونکہ وہ ایک ذات اوپر موجود ہے جو جانتی ہے کہ کونسی چیز کس انسان کو کس وقت میں دینی ہے ۔ وہ ذات جانتی ہے کس کے صبر کو کس طرح ٹیسٹ کرنا ہے۔ اور کس کے شکر کو کس طرح جانچنا ہے ۔
لہٰذا یہ آپ کا کام نہیں ہے…!!!
اور کیا کبھی آپ کو یہ سوال کرتے ہوئے اگلے کے چہرے کی اذیت نظر نہیں آتی؟؟؟
کیا اس کی بے بسی آپ دیکھتے نہیں؟
یقیناً …. سب کو نظر آتی ہو گی لیکن کچھ لوگ محض اپنے چسکے اور اپنے دل کی اس فضول ترین تسکین کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ کسی کے بچے کے منفی پہلوؤں کو کبھی بھی نہیں اچھالنا۔ نہ ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنے ہیں جن کا تعلق انسان کی قسمت کے ساتھ ہوتا ہے۔ (رشتہ کیوں نہیں ہو رہا، کیوں ٹوٹ گیا، نوکری نہیں ملی ) میرے سامنے بیٹھ کے جب کوئی دوسرا اس معاملے کے بارے میں سوال و جواب کرتا ہے تو سامنے والے چہرے کی اذیت نہیں دیکھی جاتی ۔ سوال کرنے والا اتنا بے حس کیوں ہو جاتا ہے؟
اگر ان سب چیزوں کا ڈیپریشن ہوتے ہوئے بھی آپ سے کوئی ملاقات کرنے آ جائے یا آپ سے فون پہ رابطہ کر لے تو ضروری ہے کہ آپ اس کے اُس ڈیپریشن میں اضافے کا ہی باعث بنیں؟
ہو سکتا ہے اس نے Relax ہونے کے لئے آپ سے ملاقات رکھی ہو یا فون کیا ہو ۔
براہِ کرم تکلیف کا باعث مت بنیں۔ اسے تسلیاں بھی مت دیں، جب تک وہ خود اپنا مسئلہ آپ سے ڈسکس نہ کرے۔ بلکہ آپ کسی بھی طرح اس موضوع کو مت چھیڑیں۔
ہر ملاقات میں ایک ہی سوال مت کریں (رشتہ نہیں ہوا، بچہ نہیں ہوا، نوکری نہیں ملی، گھر نہیں خریدا ابھی تک؟؟؟؟ وغیرہ وغیرہ) آپ کو عقل استعمال کرنی چاہیئے اور سوچنا چاہیئے کہ جو بھی ہو گا آپ کو وہ خود بتا دیں گے۔ بار بار پوچھنے کا مقصد؟
اگر آپ کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو سوالات کرنے سے پہلے اپنی ذات کو خود اس جگہ پہ رکھ کے سوچئے شاید آپ کچھ سمجھ پائیں۔
آسانیاں کیجیئے،
محبتیں بانٹیے
پرسکون رہیے
پرسکون رہنے دیجیئے
ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے یقین کیجئے کہ
اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ
اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو۔

Exit mobile version