✍️ محمد عامل ذاکر شیخ
متعلم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
________________
موت کی حقیقت ایسی ہے کہ کوئی بھی شخص اس سے انکار و اختلاف نہیں کرسکتا ،خواہ وہ کسی بھی مذہب و مسلک سے تعلق رکھتا ہو،اس دنیائے رنگ و بو میں بڑے بڑے دعوے داروں نے زندگی کی ہمشیگی کا برملا دعوہ کیا لیکن موت کے منہ سے نکل نہ سکے ، لھذا ہر جنس کو موت کی کٹھن گھڑی سے گزرنا ہے ، لیکن بعض ایسی شخصیتیں ہیں جن کے جانے سے نہ صرف ایک گاؤں کا بلکہ؛ ملک و ملت کا عظیم خسارہ واقع ہوتا ہے ایسی ہی ایک شخصیت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کی تھی جن کی رحلت سے عالم اسلام رنجیدہ و غم زدہ ہے اور اپنے قائد و رہبر کی رخصتی کا درد لیے ہوئے ہیں ۔
آپ ؒ1948ء میں پیدا ہوئے ، آپ کے والد گرامی عبدالسلام فاروقی اور آپ کے دادا عبد الشکور فاروقی تھے،آپ کے دادا اپنے آپ میں ایک انجمن تھے، کئی اہم کتابیں تصنیف کی ، تاحیات علم دین کی تعلیم دیتے رہے ، دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کافی عرصے تک خدمات انجام دیں ، کئی اداروں ،تنظیموں کے بانی و سرپرست رہے ، مختصر یہ کہ آپ علمی گھرانہ کے فرزند تھے ، آپ کی نشوونما خالص اسلامی و دینی ماحول میں ہوئی ۔
آپ نے اپنی بنیادی و ابتدائی تعلیم شہر لکھنؤ میں حاصل کی اور عربی کی تعلیم جامعہ حسینیہ محمدی، لکھیم پور میں حاصل کی ،اس کے بعد مظاہر علوم سہارنپور کا سفر کیا اور وہاں تین سال مستقل تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ،اس وقت کے ناظم مظاہر علوم محمد اسعد اللہ رامپوری کے نہ صرف خادم خاص تھےبلکہ علمی اور روحانی طور پر استفادہ بھی کرتےتھے۔ محمد طلحہ کاندھلوی سےآپ بیعت تھے ،محمد یونس جونپوری ،سید فخر الدین احمد آپ کے اساتذہ میں سے تھے۔مظاہر علوم کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا اور 1969ء میں وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔
ہندوستان کی سب سے بڑی اور قدیم تنظیم جمعیتہ علمائے ہند کے عظیم و مشہور رہبر تھےاورجنوری 1995ء تادسمبر 2001ء آپ متحدہ جمعیۃ علماء ہند کے دسویں ناظم عمومی کی حیثیت سےبے مثال خدمات انجام دیں۔پھر جمعیۃ علماء کی تقسیم کے بعد آپ نے جمعیۃ علماء ہندکے پہلے ناظم عمومی کے طور پر سرگرمیاں انجام دیں۔آخری عمر میں آپ نے جمعیۃ علماء ہندکے نائب صدر کی حیثیت سے کارنامے انجام دیے۔علاوہ ازیں کئی سالوں تک شہر لکھنؤ کا معروف ادارہ دار المبلغین میں بحیثیت مہتمم نمایاں خدمات انجام دیں،ساتھ ہی مجلس تحفظ ناموس صحابہ، لکھنؤ کےآپ صدر بھی تھے۔اسی کے زیر اہتمام 1998ء سےلکھنؤ میں سالانہ جلوس مدحِ صحابہ منعقد کرتے آ رہے تھے، جس میں ہزاروں مسلمان شریک ہوتے رہے ہیں۔26 سال تک آپ نے مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں،اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے رکن بھی رہے ،مرکز تحفظ اسلام کے سرپرستی بھی فرمائی ،دینی تعلیم ٹرسٹ، لکھنؤ کے چیئرمین، اور امیرِ شریعت، اترپردیش تھے۔
حد درجہ مصروفیات کے باوجود آپ نے کئی اہم کتابیں تصنیف کی جن میں بالخصوص (١)مذہب شیعہ کا علمی محاسبہ(٢)امیر معاویہ اور معاندین کے اعتراضات (٣)آئینۂ مرزا وغیرہ ۔یہ کتابیں ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ فرقہ باطلہ کے سخت مخالف تھے ، علوم رافضیت و شیعیت میں خاصی مہارت کے حامل تھے ،دفاع صحابہ کے لیے ہمیشہ اپنی جان کی بازی لگادیاکرتے تھے ، حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کے حکمپر قادیانیوں کے خلاف زبردست تحریک چلائی اور انکے پیر جمنے نہیں دئے،آپ ؒتادمحیات باطل عقائد کے حاملین کی تردید کرتے رہے ۔
آپ کا انتقال بروز بدھ ١٤ شوال المکرم ،١٤٤٥ھ بمطابق 24/ اپریل، 2024ء کو لکھنؤ میں ہوا۔بعد نماز عصر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں نماز جنازہ آپؒ کے صاحبزادے مولانا عبد الباری فاروقی نے پڑھائی ، تدفین عیش باغ لکھنؤ قبرستان میں ہوئی ،ہزاروں کی تعداد میں عوام و خواص نے شرکت کی ۔ آپ کو علمی و سیاسی حلقوں میں ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا ،آپ کی رائے کو ہمیشہ سراہا گیا تھا اس لیے کہ آپ صاحب الرائے تھے ،آپ ؒہند و مسلم اتحاد و اتفاق کے علمبردار بھی تھے، یہی وجہ کہ نماز جنازہ کے بعد سڑکوں پرسخت گرمی کے پیش نظر ٹھنڈا پانی کا انتظام ہندؤں بھائیوں نےکیا جس سے انسانیت ابھی زندہ ہے کی بہترین مثال قائم ہوگئی ، آپ جمعیۃ علماء ہندکے بڑے سے بڑے اجلاس کی نظامت فرماتے اور مجمع پر سکوت طاری کرنے کی طاقت رکھتے تھے ،آواز کی نغمگی ، الفاظ کی ادائیگی ، حرکات و سکنات کا ہنر ،خطاب کے زیر و بم کا ملکہ جیسے اوصاف سے اللہ تعالیٰ نے حضرت کو متصف فرمایا تھا ۔ قوم و ملت کے تئیں آپ کے حسنات کو ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا ، اور آپ کے کارنامے ، دینی و علمی کوشیشیں ہمیشہ زندہ رہے گی ، واقعی آپ کی رحلت سے عالم اسلام بالخصوص ہندوستانی عوام کا ناقابل تلافی خسارہ ہوا ہے ، یہ ایک روح فرسا سانحہ سے کم نہیں ۔