سیاست: اسلامی نقطۂ نظر

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

______________________

نبی اور رسول دنیا بھر کے انسانوں میں سب سے زیادہ ممتاز اور کار خلافت کے لیے موزوں ترین انسان ہوتے ہیں، ان کے اقوال ، اعمال، کیرکٹر اور کردار کی حفاظت من جانب اللہ کی جاتی ہے، کیوں کہ آگے انہیں جوکام کرنا ہے، اس کے لیے کردار کی بلندی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، تاکہ لوگ ان کی بات پر کان دھریں اور گم گشتہ لوگ راہ ہدایت پا سکیں، اس کام میں ان کی مدد وحی الٰہی کے ذریعہ کی جاتی ہے، اس طرح وہ ایک ایسی جماعت تیار کرنے پر قادر ہو جاتے ہیں جن کا اللہ رب العزت سے مضبوط رشتہ ہوتا ہے، اور وہ اس خلافت ارضی کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہو سکتے ہیں۔
انسان سے انسان کا رشتہ سماجی بنیادوں پر ہو تو اخلاقیات کہتے ہیں، اور اس رشتہ میں حکومت کے قیام اور اس کے تعلقات کی جد وجہد ہو تو اسے سیاسیات کہتے ہیں، توجہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی طرف ہو تو مکارم اخلاق ہے اور حکومت کی طرف ہو تو سیاسیات ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی مرحلے میں افراد سازی پر توجہ دیا اور مکارم اخلاق سے امت کو آراستہ کرنے کی جد وجہد کیا، ایمان وعمل صالح کی طرف لوگوں کو بلایا، پھر جب پوری جماعت تہذیب نفس کے منزل سے گذر گئی تو ایسا معاشرہ وجود میں آگیا ہے جو خود بخود ہلکی سی توجہ سے ملکی سیاست کے اسرار ورموز پر واقف ہوجاگئی اور حکومت الٰہیہ نے حقیقت کا روپ دھارن کر لیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان وعقائد اعمال وافعال کے اعتبار سے صحابہ کرام کی تربیت کی تھی ، اوریہ تربیت اس قدر مکمل تھی کہ اللہ نے انہیں اپنی رضا کی بشارت دی ، یہ جماعت خود بھی راضی برضا ء الٰہی تھی ، پھر جب آپ مدینہ تشریف لے گیے تو اس منتخب جماعت کے لیے ممکن ہو سکا کہ اسلامی اصول واقدار پر حاکمیت کی بنیاد رکھی جائے ، اس کام کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقہ کار اپنا یا، اس میں دنیا میں رائج تنازع للبقا کے اصول کو رد کر دیا ، رواج یہ تھا کہ ہر قبیلہ اور ریاست اپنی بقا کے لیے جنگ پر آمادہ ہوتا تھا ، زندگی کا کوئی تصور بغیر جنگ کے نہیں ہوتا تھا اور لوگ ہر وقت اس کے لیے تیار رہتے تھے، شاعر نے کہا کہ   ؎
زندگی جنگ است جاناں بہر جنگ آمادہ شو
نیست ہنگام تغافل بے درنگ آمادہ شو
یعنی پیارے زندگی جنگ کا نام ہے اس لیے جنگ کے لیے تیار رہو ، مہلت کا وقت نہیں ہے ، بے خوف وخطر آمادہ ہو ، اس ماحول میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’تنازع للبقا‘‘ کے اصول کے بجائے ’’بقائے باہم‘‘ کا اصول دنیا کو دیا جو سیاست میں بالکل نئی چیز تھی، ’’بقاء باہم‘‘ کی بنیاد پر آپ نے میثاق مدینہ کیا جو آج بھی معاہدہ کے لیے ماڈل اور نمونہ سمجھا جاتا ہے ، اس معاہدہ کی رو سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکم مان لیا گیا اور آپ نے ہر مذہبی جماعت کو اس کے اپنے دین پر چلنے کی آزادی دیدی ، اور دفاعی امور میں سب کو شریک کرلیا، یہ پہلا سیاسی معاہدہ تھا ، جس نے مسلمانوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ، اور اللہ تعالیٰ نے اعلان کر دیا کہ ’’ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، نیکی کا حکم دیںگے ، اور بدی سے روکیں گے‘‘۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست کی بنیاد اس بات پر تھی کہ جاہلیت کا کوئی طریقہ رائج نہیں کیا جائے گا ، امور مملکت یا تو وحی الٰہی سے طے ہوں گے یا مشورے سے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ ہمارے درمیان پیش آجائے، جس کے بارے میں نہ کوئی امر ہو اور نہ نہی تو ایسی صورت میں آپ کا کیا ارشاد ہے، فرمایا : اس بارے میں عبادت گذار اور دیانت دار ماہرین شریعت سے مشورہ کر لیا کرو ، اور انفرادی رائے اختیار نہ کرو۔‘‘
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اسلامی سیاست میں بنیادی حیثیت حاصل تھی؛ بلکہ مملکت کے قیام کا مقصد ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مزاج بنانا تھا ،اور طے کر لیا گیا تھا کہ وہ بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے معاون ہوں گے اور گناہ کے کاموں میں تعاون نہیں کیا جائے گا ، اس سیاست میں جن لوگوں کا عمل دخل ہوگا ، ان کے لیے بنیادی شرط یہ رکھی گئی کہ وہ عہدے کے طالب نہیں ہوں گے ، ذاتی زندگی میں وہ ایمان دار خدا ترس ، نیک اور امانت دار ہوں گے ،ان کے اندر حد سے گذر نے اور فساد فی الارض کا مادہ نہیں ہونا چاہیے ، ان کے اندر حکومت کرنے کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت ہونی چاہیے ،وہ اہل علم بھی ہوں اور معاملہ فہم بھی،جو لوگ بھی حکومت کریںگے ان کے لیے عدل وانصاف کا قیام ضروری ہوگا ، اور ظلم وجور کے خاتمہ کے لیے کام کرنا ہوگا ، اس حکومت میں رعایا کو ان کے حقوق دیے جائیں گے ، ان کے جان ومال عزت وآبرو، نیزان کی نجی زندگی محفوظ رہے گی، رعا یا کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہوگا ، اور شرعی اصول وحدود اور ادب واحترام کے ساتھ اظہار خیال کی آزادی ہوگی ، غیر مسلموں کو بھی اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہوگی اور ان کی  ضروریات زندگی کا خیال رکھا جائے گا ، رنگ ونسل زبان اور علاقہ کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جائے گی؛ کیونکہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، اس بنیاد پر کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر برتری حاصل ہو گی ، برتری کا معیار تقویٰ ہوگا ۔
اسی طرح رعایا کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنے حاکم کی اطاعت کریں گے اور کسی بھی امرِ معروف میں نا فرمانی سے گریز کریںگے ، قانون کی پابندی کا خیال رکھیںگے اور نظم ونسق میں خلل نہیں ڈالیں گے ، ملک پر وقت آئے تو جان ومال کی قربانی پیش کریں گے ۔
جنگ وصلح سے متعلق خارجہ پالیسی میں بد عہدی سے بچا جائے گا اور معاہدہ ختم کرنا ضروری ہوا تو اس کی اطلاع مخالف فریق کو دی جائے گی ، عہد وپیمان کا خیال رکھا جائے گا اور اس میں مکر وفریب کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی ، صلح پسندی حکومت کا موقف ہوگا ، جو گروپ دشمنی پر آمادہ نہ ہو اس سے دوستانہ برتاؤ کیا جائے گا ، جو لوگ ظلم وزیادتی کریں گے، ان سے بدلہ لینے میں زیادتی نہیں کی جائے گی ۔
سیرت مبارکہ میں ان اصولوں کی عملی تنفیذ کے واقعات کثرت سے موجود ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حکمراں ہو اس کو بھاری حساب دینا ہوگا اور وہ سخت عذاب کے خطرے میں مبتلا ہوگا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاست کے جو اصول مقرر کئے تھے اور جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری زندگی عمل پیرا رہے ،دھیرے دھیرے امت نے ان اصولوں کو چھوڑ دیا ، جس کی وجہ سے اسے حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا اور سیاست غیر اسلامی بن کر رہ گئی ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیش گوئی پہلے ہی کردی تھی ، مسلم شریف کتاب الایمان کی روایت ہے کہ ’’پھر ان کی جگہ نالائق لوگ لے لیں گے ، جو کہیں گے وہ کریں گے نہیں ، اور وہ کام کریںگے جس کا حکم نہیں دیا گیا ہے، پس جو کوئی ان کے خلاف ہاتھ ، زبان اور دل سے جہاد کرے وہ مؤمن ہے، اس سے کم تر ایمان کا ذرہ برابر بھی درجہ نہیں ہے ۔‘‘
نسائی شریف کی ایک روایت ہے کہ میرے بعد کچھ لوگ حکمراںہونے والے ہیں، جو ان کی جھوٹ میں تائید اور ان کے ظلم میں مدد کرے، وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں ۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ عنقریب تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے ،جن کے ہاتھ میں تمہاری روزی ہوگی ، وہ بات کریںگے تو جھوٹ بولیں گے ،کام کریںگے، توبُرے کام کریںگے ، وہ تم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے، جب تک تم ان کے بُرے کاموں کی تعریف اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرو ، پس تم ان کے سامنے حق پیش کرو جب تک وہ اسے گوارہ کریں، پھر اگر وہ تجاوز کریں تواس تجاوز کے نتیجے میں جو شخص قتل کیا جائے وہ شہید ہوگا۔
آج کی خدا بیزار اور ظلم وجور پر مبنی سیاست میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف ثابت ہو رہی ہے ، ایسے موقعوں سے ان ہدایات پر ہمیں سختی سے عامل ہونا چاہیے کہ یہی راہ نجات ہے۔اور ہمیں اس دور کی سیاست کو سمجھنا چاہیے، جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے ۔
سیاست کی اپنی اک الگ زبان ہے
لکھا ہو جو اقرار ، انکار پڑھنا

Exit mobile version