Site icon

اللہ کی مدد کے مستحق مخلص اہل ایمان ہیں،مشرک مسلمان نہیں

موجودہ دور میں مسلمانوں کی اکثریت شرک میں ملوث ہے

✍️ عبدالغفارصدیقی

________________

اسلام توحید پر مبنی دین ہے۔ توحید میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش بھی ایک مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے لیے کافی ہے۔توحید کا عقیدہ اپنے ماننے والے کو بہادر اور جری بناتا ہے،جب کہ شرک بزدلی پیدا کرتا ہے۔آسان لفظوں میں اللہ کو ایک ماننے کوتوحید کہتے ہیں۔لیکن اس کا مفہوم نہایت وسیع ہے۔اس کے اثرات دور رس ہیں۔اللہ کو ایک تسلیم کرلینا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب اللہ کو ایک ہی مانتے ہیں۔کسی بھی دھرم اور مذہب یہاں تک کہ پنتھ اور مسلک میں دو یا تین خدا نہیں ہیں۔ہر مذہبی انسان یہی عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ ایک ہے۔لیکن اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا اور ایسے افعال و اعمال سے دور رہنا جن سے شرک کی بو آتی ہو نہایت مشکل امر ہے۔اس ریگذار میں بہت زیادہ علم رکھنے والوں اور اپنے تقویٰ پر فخر کرنے والوں کو بھی بڑی احتیاط سے قدم اٹھانے پڑتے ہیں۔
ہندوستان شرک کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں کے ذرہ ذرہ میں دیوتا براجمان ہیں۔قدم قدم پر شرک کے اڈٖے ہیں۔اکثریت کا مذہب ہی شرک پر مبنی ہے۔مسلمانوں کا مشرکین کے ساتھ ہر وقت کا میل جول ہے۔اس لیے شرک کے اثرات مسلمانوں کی حرکات و سکنات میں دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔اس کے علاوہ خود ملت اسلامیہ کی اکثریت ناخواندہ ہے۔دینی تعلیم کی شرح صفراعشایہ ایک فیصد ہے یعنی دس ہزار میں ایک شخص حافظ،عالم یامولوی ہے۔ان میں بھی صحیح تصور دین سے آشنا افراد کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔اگر سروے کیا جائے تو لاکھوں کی آبادی میں بمشکل ایک فرد ملے گا جس کے پاس دین کا صحیح شعور اور تصور ہوگا۔مثال کے طور پر علمائے دین کی ایک بڑی تعداد قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کو مناسب نہیں سمجھتی،ظاہر ہے ان کا یہ خیال غیر اسلامی ہے۔اسی طرح علماء دین کی ایک بڑی تعداد غیر مسلموں کو قرآن مجید دینے کی روادار نہیں حالانکہ اللہ کی یہ کتاب ”ھدیً للناس“ ہے۔یہ مثالیں اس دعوے کی تائید میں عرض کی گئی ہیں جو دینی شعور اور صحیح تصور دین کے متعلق میں نے کیا ہے۔
شرک کی مختلف صورتیں اور شکلیں ہیں۔اگر خداکی ذات و صفات میں کسی غیر کو شریک کیا جاتا ہے اور اس کا اسٹیچو بناکر اس کی عبادت کی جاتی ہے تو یہ کھُلا ہواشرک  (شرک جلی)ہے اور اگر کوئی شخص دل میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ فلاں فلاں بزرگ خداتعالیٰ کی جناب میں کوئی دخل رکھتے ہیں تو یہ چھُپا ہواشرک  (شرک خفی) ہے۔دونوں قسم کے شرک گناہ اور ظلم عظیم ہیں۔جسم کے کسی حصہ پر تعویذ یا دھاگا باندھنا بھی شرک ہے،پختہ قبریں بنانا اور ان پر چادر چڑھانا،ان کو دھونا اور اس کے پانی میں شفا سمجھنا،مرحومین سے مرنے کے بعد کسی قسم کی توقعات وابستہ رکھنابھی شرک ہے،کسی انسان کی اس قدر تعریف کرنا کہ اس کا قد اللہ سے بلند معلوم ہونے لگے یا کسی انسان کواتنا باکمال اور پہنچا ہوا جاننا کہ اللہ بھی اس کے سامنے (نعوذ باللہ) کمزور معلوم دینے لگے نہ صرف شرک ہے بلکہ کفر کی حدود میں داخل ہوجانا ہے۔بعض اوراد و ظائف کے متعلق یہ گمان کرنا کہ ان کو پڑھ کر فلاں کام ہوجائے گا،شرک ہے۔میت سے یہ کہنا کہ ہمارے فلاں رشتہ دار سے سلام کہہ دینا شرک ہے۔وغیرہ وغیرہ
اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی ذات میں یکتا ہے، اسی طرح اپنی صفات میں بھی تنہا ہے۔اس سے بڑا کوئی نہیں ہے۔وہ کسی کے حکم اور مشورے کا پابند نہیں ہے۔بلکہ اس کی بارگاہ میں مشورہ دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔وہ کسی غوث و ابدال تو کیا کسی نبی اور رسول کو بھی اپنے حدودو اختیارات میں دخل دینے کی اجازت نہیں دیتا۔وہ اپنی مرضی کا مالک ہے،وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور وہی ہوسکتا ہے۔اس نے اپنی سلطنت کے جو اصول و قوانین بنادیے ہیں ان کے سب پابند ہیں۔کائنات میں گردش لیل و نہاراور موسموں کا نشیب و فراز اسی کے حکم پر جاری ہے۔اس نے اپنے نظام کو چلانے کے لیے جن فرشتوں کو ذمہ داریاں سونپی ہیں،وہ اس کے معاون و مددگار نہیں بلکہ غلام اور بندے ہیں۔اس لیے کہ اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور رکھنا کہ وہ فلاں بزرگ کی بات ماننے کا پابند ہے،یا نعوذ باللہ فلاں کام نہیں کرسکتا،اس کو نہ ماننے کے برابر ہے۔وہ بے عیب ہے اورہر کمزوری سے پاک ہے۔
اللہ تعالیٰ کو کسی وسیلے کی ضرورت نہیں،وہ ہر ذی روح کی رگ جاں سے قریب تر ہے۔کتنے ہی نادان کہتے ہیں کہ جس طرح اوپر جانے کے سیڑھی کی ضرورت اسی طرح اللہ تک پہنچنے کے لیے انسانی وسیلے کی ضرورت ہے۔کچھ لوگیٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(المائدہ۔35)”اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ“کا مفہوم یہی سمجھتے ہیں،جب کہ اسی آیت میں جہاد فی سبیل اللہ کو وسیلہ کہا گیا ہے اور حدیث میں قرب الٰہی کے حصول کا نسخہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:۔”میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرنا چاہتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب چیزیں میرے نزدیک وہ ہیں جو میں نے اُس پر فرض کی ہیں (یعنی فرائض  ادا کرنے سے سب سے زیادہ مجھ سے قرب حاصل ہوتاہے)،اور نوافل کی وجہ سے بندہ مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اُسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں۔“(بخاری)کسی کی خوشی اور رضا حاصل کرنے کے لیے یا کسی شہنشاہ و حاکم تک اپنی بات پہنچانے کے لیے جو سب سے قابل اعتماد ذریعہ ہے وہ اس کی اطاعت و فرمانبرادی ہے،اس کی منشاء کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔دنیا کے حکام بھی یہ پسند کرتے ہیں کہ فریاد رس ان تک براہ راست پہنچے۔سفارشی کو ہماری زبان میں ”دلال“ کہا جاتا ہے،کوئی شریف آدمی دلال کہلانا پسند نہیں کرتا۔پھر اللہ تو تو غیور وں کا غیور ہے،اس کی غیرت یہ کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ اس کے اور بندوں کے درمیان کچھ ”دلال“موجود ہوں۔کیا دلالوں سے عدل و انصاف اور غیر متعصبانہ رویہ کی صد فیصد توقع کی جاسکتی ہے۔آج امت مسلمہ کے پاس دلالوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جن بزرگوں کو ہم خداکی جناب میں سفارشی اوردخیل کہتے اور سمجھتے ہیں،ان کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی ”اپوائنٹ منٹ لیٹر“جاری نہیں ہوا۔بلکہ وہاں سے تو کہا گیا:”وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المومن 35)”اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔“
خدا کے کلام کے مقابلے دوسری کسی بھی کلام کو کسی بھی طرح سے راجح سمجھنا اور ترجیح دینا شرک ہے۔اس لیے کہ ”قرآن“فرمانروائے کائنات کے فرامین و احکامات کا مجموعہ ہے،اس کے حروف و الفاظ من جانب اللہ ہیں،اس کا ثبوت قرآن خود ہے۔پندرہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کتاب میں بال برابر تغیر واقع نہیں ہوا۔کفر و شرک کے کتنے طوفان آئے،عروج و زوال کی کتنی آندھیاں چلیں،اختلاف رائے کے سبب ہزاروں فرقے اور مسلک بن گئے،مگر قرآن اپنی جگہ قائم ہے۔اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔اب اگر کوئی شخص قرآن پڑھنے  کے بجائے کسی دوسری کتاب کو پڑھتا ہے،اسے سمجھنے کے بجائے دوسری کتابوں کے سمجھنے کو فوقیت دیتا ہے،اس پر عمل کرنے کے بجائے دیگر کتابوں پر عمل کرتا ہے،اس کی تبلیغ و اشاعت کے بجائے دوسری کتابوں کی تبلیغ کرتا ہے تو وہ شرک کرتا ہے،وہ شہنشاہ کائنات کی توہین کرتا ہے کہ اس کے کلام کے سامنے اس کے غلاموں کے کلام کو ترجیح دیتا ہے۔یہ تو ہوسکتا ہے کہ بادشاہ کے کلام کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے بادشاہ کے نمائندے (رسول)کی طرف رجوع کیا جائے،ماضی میں اس کے جو فرماں بردار بندے گزرے ہیں ان کی تشریحات و توضیحات سے مدد حاصل کی جائے،مگر یہ کسی طرح گوارہ نہیں کیا جاسکتا کہ بادشاہ کے کلام کو پس پشت ڈال کر اس کے غلاموں کی تشریحات کو ہی اصل سمجھ لیا جائے۔
یہ بھی شرک ہے کہ انبیاء کے علاوہ کسی انسان کی عقل و فہم اور دیانت داری و تقویٰ پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیا جائے اور اس کی تقریروں،تحریروں،اس کی تحقیقات کو حرف آخر سمجھ لیا جائے۔ فرقہ بندی کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم غیر نبی میں سے کسی کو اصل مرجع مان لیتے ہیں اور اس کی جانب سے جاری ہونے والی ہدایات کو اللہ کی ہدایات پر جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔کسی انسان سے اندھی عقیدت اس کو خدا بنا ڈالتی ہے،اس کے نام پر جماعتیں،فرقے اور مسلک بن جاتے ہیں۔جس دین میں احادیث کی صحت کو جانچنے کا پیمانہ بھی قرآن ہو اس دین کے ماننے والے اپنے پیروں اور مرشدوں کی ایسی باتیں مانتے ہیں جن کو عقل بھی تسلیم نہیں کرتی۔
اللہ کے سوا دوسروں سے خوف کھانااور ڈرنا بھی شرک ہے۔دوسروں کے خوف کی وجہ سے حق گوئی سے باز رہنا اور سچائی کو چھپانا بھی شرک ہے۔اللہ پر توکل نہ کرنا بھی شرک ہے۔ہم ہر وقت دووقت کی روٹی کے چھین لیے جانے کے غم میں مبتلا رہتے ہیں،کاروبار کی ذرا سی مندی ہماری راتوں کی نیند اڑادیتی ہے۔اولاد کے معاشی مستقبل کی فکر ہمارے قدم میں تزلزل پیدا کردیتی ہے اور ہم حلال و حرام میں امتیاز کرنا بھول جاتے ہیں۔
آج امت کی اکثریت مشرکانہ افعال و اعمال میں ملوث ہے اور مشرکانہ عقائد رکھتی ہے۔بیشتر قبرستانوں میں پختہ مزارات ہیں،جو لوگ عرس نہیں کرتے وہ بھی شب برات کی رات قبرستان میں چراغاں کرتے ہیں اور وہاں جانا ضروری خیال کرتے ہیں،اللہ کی کتاب کا استعمال بھی زیادہ تر مسلمان مشرکانہ افعال کے لیے کررہے ہیں۔کوئی اس کے ذریعہ جن بھوت بھگا رہا ہے،کسی نے قرآن خوانی کو تجارت بنا لیا ہے،کوئی اس سے اپنے مردے بخشوارہا ہے اور کوئی اس کے نقش بنا کر بیچ رہا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو شرک سب سے زیادہ ناپسند ہے،اس کا اعلان ہے شرک کے سوا تمام جرائم قابل معافی ہیں۔شرک کو وہ ظلم عظیم کہتا ہے۔شرک کا ادنیٰ شائبہ بھی اس کو ناراض کرنے کے لیے کافی ہے۔شرک کے مرتکب کس منہ سے اس کے فضل و کرم کے طلب گار ہیں اور کیوں یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ انھیں عزت و غلبہ عطا کرے گا۔اس نے اپنی مدد و نصرت کے وعدے مخلص اہل ایمان سے کیے ہیں،جو کہتے ہیں:”میں نے اپنا رخ یکسو ہوکر اس اللہ کی طرف کرلیا جو زمین و آسمان کا خالق ہے،میرے مراسم عبودیت،میری قربانی،میرا مرنا اور جینا سب اسی کے لیے ہے۔“(الانعام۔79)

Exit mobile version