شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
___________________
کیا آپ لوگوں نے بہار کے وزیراعلیٰ کی وہ تصویر دیکھی ہے جس میں وہ بی جے پی کی انتخابی نشانی ’ کمل ‘ ہاتھ میں لیے ہوئے بی جے پی امیدوار کا پرچار کر رہے ہیں ؟ اگر تصویر نہیں دیکھی ہے تو دیکھ لیں ، اس میں ہر اُس شخص کے لیے عبرت ہے جو عہدے کے لالچ میں اپنے نظریات سے ، اپنے حلیفوں سے اور اپنے دیش سے بے وفائی کرتا ہے ، یا ان سب کو دھوکہ دیتا ہے ۔ یہ بہار کی راجدھانی پٹنہ کی تصویر ہے ۔ نتیش کمار ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ انتخابی ریلی میں شریک ہیں اور اُن کے چہرے سے بے بسی اور بے چارگی جھلک رہی ہے ، اور پی ایم کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا ہے ۔ نتیش کمار اپنے ہاتھوں میں ’ کمل ‘ کی نشانی یوں لیے ہوئے ہیں جیسے انہیں کسی نے کوئی ایسی چیز زبردستی پکڑا دی ہو جِسے وہ پکڑنا نہ چاہتے ہوں ۔ لیکن اس میں کسی اور کا نہیں خود ان کا قصور ہے ۔ بار بار ایک سے دوسری اور دوسری سے پھر پہلی سیاسی پارٹی میں آنا اور جانا ایک ایسا کھیل ہے جو عزتِ نفس پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے ، اور نتیش کمار نے یہ کام بار بار کیا ہے ۔ وہ بی جے پی چھوڑ کر تیجسوی یادو کے ساتھ آئے ، انہوں نے ’ انڈیا ‘ الائنس کی نیو رکھی ، تمام اپوزیشن لیڈران کو یکجٹ کیا ، اور عین الیکشن کے موقعے پر پھر بی جے پی کے ساتھ چلے گیے ! یہ بدترین مفاد پرستی تو تھی ہی ، یہ بدترین دھوکہ دھڑی بھی تھی ۔ اپوزیشن جو ان کے کہنے پر ، اور ان کی محنت سے یکجٹ ہوا تھا خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگا تھا ، یہ اور بات ہے کہ اپوزیشن نے نتیش کمار کے ’ پلٹنے ‘ سے اپنے حوصلے نہیں ہارے ، یکجٹ رہے ۔ خیر ، بات نتیش کمار کی ہو رہی ہے جنہیں ’ پلٹو رام ‘ کہا جاتا ہے ، کیونکہ وہ بار بار ’ پلٹے ‘ ہیں ! وہ بی جے پی کی مدد سے وزیراعلیٰ بنے تھے ، پھر انہوں نے جے پی کو بھی جھٹکا دیا تھا اور راشٹریہ جنتا دل سے ہاتھ ملا کر پھر وزیراعلیٰ کی گدی پر بیٹھ گئے تھے ۔ اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ’ وہ مرجائیں گے مگر پھر کبھی بی جے پی میں نہیں جائیں گے ۔‘ لیکن آر جے ڈی کا دامن چھوڑ کر وہ پھر بی جے پی کی گود میں جا بیٹھے ، اور بی جے پی نے بھی اس دعوے کے باوجود کہ اب نتیش کمار پر اس کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے ہیں ، انہیں ویلکم کر دیا ۔ جو سیاست نظریے کی بنیاد پر نہیں مفادات کی بنیاد پر چلتی ہے ، اس میں ایسی ہی غیراخلاقی حرکتیں کی جاتی ہیں اور نتیش کمار جیسے بے پیندے کے لوٹے نظر آتے ہیں ۔ نتیش کمار کے سامنے قومی سیاست میں چمکنے کے لیے ایک کھلا ہوا میدان تھا ، وہ ملک کی سیاست میں ایک ایسے لیڈر کے طور پر ابھرنے کے قریب تھے جو بی جے پی کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن سکتا تھا ، لیکن عین موقعہ پر انہوں نے اپنے کیے کرائے پر خود پانی پھیر دیا ۔ بی جے پی نے انہیں ہنسی خوشی گلے لگایا تھا کیونکہ اسے نتیش کے پلٹنے میں اپنے لیے بہار میں امید کی کرنیں نظر آ رہی تھیں ۔ بہار میں بی جے پی نتیش کے سہارے لوک سبھا الیکشن ، اور اس کے بعد اسمبلی الیکشن جیتنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ کسی طرح بہار اس کے مکمل قبضے میں آجائے ، اور اس کے لیے اس نے نتیش کمار کے ہاتھ میں ’ کمل ‘ پکڑا کر ، ان کے راج والے بہار کو ایک تجربہ گاہ ، اور خود انہیں اس تجربہ گاہ کا گنی پِگ بنا لیا ہے ۔ لیکن شاید بی جے پی کا یہ خواب پورا نہ ہو ! بہار سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ نہ بی جے پی کے لیے اچھی ہیں اور نہ ہی وزیراعلیٰ نتیش کمار کے لیے ۔ وہاں اسی ’ انڈیا ‘ الائنس کا زور ہے جس کی بنیاد رکھنے میں نتیش کمار کا سب سے اہم کردار تھا ۔ کیسی بلندی اور کیسی پستی کی ایک مثال بن گیے ہیں نتیش کمار ۔ وہ ایک اچھے بھلے سوشلسٹ ، سیکولر اور سمجھ دار سیاسی رہنما تھے ، جب تک لالو پرساد یادو کا اور ان کا ساتھ رہا بہار فرقہ پرستی سے بڑی حد تک محفوظ رہا ۔ نتیش کمار خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوئے تھے ۔ انہوں نے بہار کو وکاس کی راہ پر ڈالا تھا ، اور کی ترقی کے کئی اچھے منصوبے بنائے تھے ۔ ان کی ساکھ بہتر سے بہتر ہوئی تھی ، وہ سشاسن بابو کہے جانے لگے تھے ۔ اور وہ ہنوز سشاسن بابو رہتے اگر بار بار نہ پلٹتے ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس انہیں 2015ء میں اپنے جال میں نہیں پھانس سکی تھی ، لیکن اس کے بعد اس نے نتیش کمار کو اپنے جال میں ایسا پھانسا کہ اس بہار میں جہاں ایک دور میں وہ عروج پر تھے ، لوگوں میں مقبول تھے ، انہیں ووٹ مانگنے کے لیے وزیراعظم نریندر مودی کے نام کا سہارا لینے اور یہ کہہ کر ووٹ مانگنے پر مجبور ہونا پڑا کہ یہ میرا آخری الیکشن ہے ! اور اب بی جے پی نے الیکشن جیتنے کے لیے ان کے ہاتھ میں ’ کمل ‘ دے دیا ہے ! وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بنے رہنے کے لیے انہوں نے بی جے پی اور سنگھ کے ایجنڈے کو روکنے کے لیے ہاتھ پیر تک نہیں ہلائے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ سنگھی ایجنڈے کو لاگو کرنے میں انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے مدد کی ، نتیجے میں ان کی مقبولیت گھٹی ، ان کے ووٹ اور ان کی سیٹیں گھٹیں ۔ نتیش کمار نے مسلمانوں سے لے کر کسانوں تک سب کو باری باری دھوکہ دیا ہے ۔ لیکن اب وہ خود سنگھ سے دھوکہ کھا گیے ہیں ، یا یہ کہہ لیں کہ سنگھ نے ، بی جے پی نے اور پی ایم مودی نے ان کی کسی ’ نامعلوم مجبوری ‘ پر انہیں بے بس کردیا ہے کہ وہ سیکولر نہیں فرقہ پرستوں کے لیے پرچار کریں ۔ ’ کمل ‘ نشانی اپنے ہاتھ میں لیے نتیش کمار کے چہرے پر شکست کے آثار تھے ۔ انہوں نے مکمل ہتھیار ڈال دیے ہیں ۔ افسوس ایک اچھے لیڈر نے اپنے نظریات ، اپنے حلیفوں اور اپنی ریاست کؤ دھوکہ دیا ہے ، اور اس کے بعد بھی ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا ہے ۔