Site icon

ریاکاری اور فضول خرچی حج کو ضائع کرنے والے اعمال ہیں

✍️ عبدالغفارصدیقی

______________

ریا و نمود انسان کی خواہشات میں شامل ہے۔ ہرانسان چاہتا ہے کہ اس کی شہرت ہو،اس کا نام بلند ہو،لوگ اس کی تعریف کریں،اس کے نام کے جھنڈے گاڑے جائیں،اس کو اعزازات سے نوازا جائے،حالانکہ اس کی یہ خواہش اس کے ذریعہ کیے گئے نیک عمل کو ضائع کردیتی ہے۔اگر یہ شہرت و نام وری انسان کے کاموں کے عوض از خود ہو،سماج یا حکومت اس کے کام سے خوش اور متاثر ہوکر کوئی اعزاز عطا کرے،اور وہ بادل ناخواستہ اس کو اللہ سے ڈرتے ہوئے قبول کرے تو کوئی حرج نہیں،لیکن دور حاضر میں اعزازات کے حصول کے لیے لوگ منصوبہ بندی اورسازشیں تک کرنے لگے ہیں،اپنے ہی پیسوں کے پھول خرید کر گل پوشی کراتے ہیں،جو معیوب ہی نہیں گناہ بھی ہے۔جس دین میں کسی کے منہ پر اس کی بے جا تعریف و تحسین کرنے کو ناپسند کیا گیا ہو اس دین میں اپنے منہ میاں مٹھو بننے یا پیسے دے کر اپنی تعریف کرانا گناہ نہیں تو اور کیا ہوگا؟اسی فہرست میں ایک برا عمل یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو لوگ حج کرلیتے ہیں ”حاجی“ ان کے نام کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک بنئے سے بہت سا سامان ادھار لے رکھا تھا۔اتفاق سے وہ حج کرنے چلا گیا۔حج سے واپس آکر بنئے کی دوکان پر پہنچا اور بولا:”لالہ جی! میرے حساب والا کھاتہ نکالیے۔“ بنیا بہت خوش ہوا۔اس نے سوچا،صاحب حج سے آئے ہیں تو شاید نیک ہوکر آئے ہیں،ان کو احساس ہوا ہو کہ قرض ادا کردینا چاہئے،وہ خوشی خوشی کھاتہ لایا،ان صاحب کے نام کاصفحہ کھولا،پیسے جوڑ کر بتانے والا ہی تھا کہ وہ بول اٹھے:”ذرا میرے نام کے ساتھ حاجی لکھ لو۔“
ایک صاحب حج کرکے واپس آئے۔لوگوں نے مبارکبادیاں دیں،ایک دن میں ان کے ساتھ موٹر سائکل پر کہیں جارہا تھا،راستے میں ایک معزز شخصیت سے ملاقات ہوئی۔علیک سلیک کے بعد حج سے واپس آنے والے نے شکایت کی:”آپ ہم سے ملنے نہیں آئے۔“ وہ بیچارہ حاجی صاحب کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
حج سے واپسی ہی کیا،حج کا ارادہ کرتے ہی،اور حج کا فارم بھرتے ہی،وہ خود کو حاجی سمجھنے لگتا ہے۔اگر وہ نہیں بھی سمجھے تو دوسرے لوگ حاجی حاجی کہہ کر اسے حاجی بنادیتے ہیں۔حج سے واپسی پر صرف نام میں اضافہ نہیں ہوتا،بلکہ لباس اور وضع قطع بھی کچھ دن تک بدلی بدلی نظر آتی ہے۔سرپر ٹوپی،گلے میں عرفاتی رومال،ہاتھ میں تسبیح اسی کے ساتھ اگر جناب گنجے بھی ہوں تویہ وہ حلیہ ہے جسے آپ دیکھ کر پہچان لیجیے گا کہ محترم حج کا فریضہ ادا کرکے آئے ہیں۔
برصغیر ہندوپاک میں کسی حاجی سے تعارف حاصل کیجیے تووہ اپنے نام کے ساتھ حاجی لگانا نہ بھولے گا۔یہ پچانوے فیصد سے زیادہ کا معاملہ ہے۔اسی طرح کا ایک واقعہ ہمارے ایک دوست نے ہمیں سنایا کہ”ایک بار میں ٹرین میں سفر کررہا تھا،سامنے ایک باریش شخصیت جلوہ فرما تھی،میں نے سلام کیا اور ان سے ان کا نام معلوم کیا،بڑے تپاک سے بولے:”حاجی۔۔۔۔۔“۔انھوں نے جوابا ًمیری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے کہا۔:”میں نمازی۔۔۔۔۔۔۔۔“۔اب وہ خفا ہوگئے،بولے یہ نمازی کیا ہوتا ہے،میں نے کہا کہ جو حاجی ہوتا ہے،جناب میں برسوں سے سجدے میں سر رگڑ رہا ہوں،میں آج تک نمازی لکھنے کا اختیار حاصل نہ کرسکا،اور ایک بار کے حج سے آپ حاجی ہوگئے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ جس ذات اقدس سے حج کی رسومات اور شعائر زندہ و پائند ہ و موسوم ہیں، اس ذات کے نام کے ساتھ ہم کبھی حاجی نہیں لگاتے، ہم کبھی حاجی ابراہیم علیہ السلام نہیں کہتے، نہ لکھتے ہیں۔جو پیغمبر اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ان کے نام کا لاحقہ حاجی نہیں بن سکا۔جو ذات خاتم النبئین کہلائی،جس کے ننانوے نام باری تعالیٰ نے بیان کیے،جنھوں نے حج کے آداب ہمیں سکھائے،جنھوں نے کعبہ ہی نہیں عرش اعظم کی زیارت کی،ان کے نام کا جز حاجی نہ ہوسکا۔ہم میں سے کون ہے جو رسول اکرم ﷺ کا اسم مبارک لیتے وقت کہتا ہو ”حاجی حضرت محمد ﷺ“۔روایات کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر،ان کے بعد ایک لاکھ سے زیادہ سے صحابہ کرام،پھر تابعین و تبع تابعین و اولیاء کرام کی ایک کثیر تعداد ہے۔کیا ہم کسی کے ساتھ حاجی لکھتے ہیں۔؟ نہ حاجی معین الدین چشتیؒ،نہ حاجی نظام الدین اولیاء۔نہ اپنے فقہاء کے نام کے ساتھ حاجی لگاتے ہیں،میں نے کسی کتاب میں حاجی امام ابو حنیفہ لکھا نہیں دیکھا اور نہ کسی واعظ کی تقریر میں سنا۔وغیرہ وغیرہ۔آخر ان لوگوں کے ساتھ جب ہم حاجی نہیں لکھتے اور نہ ان کا ذکر کرتے وقت حاجی کا اضافہ کرتے ہیں تو پھر ان کے قدموں کی دھول،ہم جیسے ایرا غیرا نتھو خیرا کو کیا حق ہے کہ ہم اپنے نام کے ساتھ حاجی لگائیں۔آج بھی پوری عرب دنیا میں شاذو نادر ہی کوئی اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھتا ہو۔
کیا ہمارا یہ عمل ریا و نمود میں شامل نہیں ہے؟کیا ہمیں اس باب میں وہ مشہور حدیث نہیں پہنچی ہے جو حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے اور جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں جگہ دی ہے۔جس میں ایک شہید،ایک عالم اور سخی کو صرف اس لیے جہنم میں بھیج دیا جائے گا کہ انھوں نے یہ عمل صرف دنیا میں نام وری کے لیے کیا تھا۔ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تمہیں شہید،عالم اور سخی کہہ دیا گیا، پھر حکم دیا جائے گا کہ انہیں منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ انھیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)
اس حدیث میں بطور مثال تین افراد کو پیش کیا گیاہے۔ورنہ معاملہ یہ  ہے کہ ہر وہ شخص جس نے کوئی خیر و بھلائی کا کام کیا اور اس کی نیت دنیا میں شہرت طلبی کی رہی تو اس کا حشر بروز حساب یہی ہوگا۔کیا اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھنے کے پیچھے ہماری یہی نیت نہیں ہے کہ لوگ ہمیں حاجی کہیں اور ہمارے احترام میں اضافہ کریں۔ہمارا کیا حال ہوگا جب اللہ تعالیٰ ہم سے پوچھے گا کہ تم نے میرے مال کا کیا کیا؟ہم جواب دیں گے بارالٰہا! ہم نے تیرے مال سے تیرے گھر کا حج کیا،تیرے رسولؐ کے روضہ کی زیارت کی۔اللہ فرمائے گا کہ یہ تو نے اس لیے کیا کہ لوگ تجھے حاجی کہیں،سو تجھے حاجی کہہ دیا گیا۔اب تیرے حج کا کوئی ثواب ہمارے دفتر عمل میں نہیں ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں جن میں ریا و نمود،دکھاوا،شہرت طلبی کی مذمت کی گئی ہے۔
اول تو ہماری عبادتیں اس معیار مطلوب پر پوری نہیں اترتیں جو اللہ و رسول کو مطلوب ہے۔ہم عجمی لوگ تو دوران حج اداکیے جانے والے عربی زبان میں دعائیہ کلمات کا مطلب تک نہیں سمجھتے، بظاہر کچھ رسوم ادا کرکے آجاتے ہیں۔نہیں معلوم بارگاہ ایزدی میں حج مقبول بھی ہوتا ہے کہ نہیں،دوسری طرف ہم خواہ مخواہ حج مقبول کو بھی حاجی لکھ کر غیر مقبول کی فہرست میں شمار کرادیتے ہیں۔
صرف حاجی کا لاحقہ ہی نہیں ہمارے یہاں ایک شخص کے نام کے ساتھ اتنے القاب و آداب جوڑ دیے جاتے ہیں کہ وہ ایک پوری جماعت کے برابر نظر آتا ہے۔پہلے مرزا،پھر دوتین اجزا پر مشتمل نام،اس کے بعد ڈگری کو ظاہر کرنے والا نام مثال کے طور پر مرزا محمد راشد بیگ ندوی علیگ وغیرہ،اسی کے ساتھ علامہ، مولانا، فضیلۃ الشیخ، مقرر شعلہ بیاں،ماحی کفر و ضلالت، حامی سنت و شریعت اور جوڑ دیجیے، تب دیکھئے، پورے پندرہ افراد کے نام ہوئے کہ نہیں؟کسی ہوٹل میں فون آیا کہ کیا کوئی کمرہ خالی ہے،جواب ملا”ہاں“ہے۔نام لکھائیے کس کے لیے چاہئے؟جواب میں حضرت والا کا نام اتنے القاب کے ساتھ بولا گیا کہ ہوٹل کے کارکن نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا،جناب ہمارے یہاں ایک ہی روم خالی ہے،اتنے لوگوں کو ہم روم نہیں دے سکتے۔ہمارے ایک دادا تھے،میاں جی عبدالمجید(اللہ ان کی مغفرت فرمائے) وہ چھوٹے قد کے تھے۔ایک بار وہ مرادآباد کی جامع مسجد میں لگے اشتہار پر مولانا کا نام اپنی بالشت سے ناپنے لگے،کسی شخص نے پوچھا:۔”بڑے میاں کیا کررہے ہو؟“ دا داجی بولے،نام ناپ رہا ہوں،سوچتا ہوں نام اتنا طویل ہے تو یہ مولانا کتنے طویل القامت ہوں گے۔ہمارے نام کے ساتھ اتنے لاحقے ہوتے ہیں کہ اکثر سرکاری فارموں میں نام کے لیے بنے کالمس کم پڑجاتے ہیں۔
فضول خرچی بھی ہمارے دور میں حج کا لازمہ بن گئی ہے۔موجودہ دور میں سرکاری طور پر حج کے مصارف میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ عام مسلمان حج کا ارادہ نہیں کرسکتا۔اسی کے ساتھ ہمارے اہل مال لوگوں نے اس میں بعض فضول خرچیاں شامل کرکے سفر حج کو مزید مہنگا کردیا ہے۔تمام اعزہ سے ملاقات کے لیے جانے اور پھر روانگی کے وقت تمام اعزہ کے آنے جانے پر ہی ایک بڑی رقم خرچ ہوجاتی ہے۔اسی کے ساتھ سفر حج پر جانے سے پہلے دعوت عام کا اہتمام کیا جاتا ہے۔بعض بڑی دعوتوں میں کئی ہزار لوگ شریک ہوتے ہیں۔ہمارے شہر میں ایک صاحب نے تین ہزار لوگوں کی پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا۔ظاہر ہے اس پر کم و بیش چھ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہوں گے۔اس کے علاوہ تحائف کے تبادلہ پر بھی اچھی خاصی رقم خرچ کی جاتی ہے۔حج کرنے والے کا بیشتر وقت اسی منصوبہ بندی میں گزرجاتا ہے کہ ”کس کے لیے کیا لے جائے۔“یہ تمام مسرفانہ سرگرمیاں حج کی روح کو متاثر کرتی ہیں اور اجر کو کم کردیتی ہیں۔
اے عازمین حج! اپنی نیکیاں ضائع مت کیجیے۔نام صرف شناخت کے لیے ہیں۔بھاری بھرکم اور طول طویل نام میں کیا رکھا ہے؟اصل تو کام ہے،جو آپ کے بھی کام آئے گا اور دنیا والوں کو بھی آپ کے کام کا فائدہ پہنچے گا۔جو نام آپ کے والدین نے رکھا ہے وہی کافی ہے۔احتراماً دوسروں کے لیے جناب یا صاحب کا اضافہ کیجیے،مگر بہت زیادہ مبالغہ سے کام نہ لیجیے،اپنے بھائی کی زیادہ تعریف کرکے اس کے نفس کو موٹا نہ کیجیے،اس پر رحم کیجیے،اگر آپ کے تملق پسندانہ رویہ سے اس کے اندر کوئی عیب پیدا ہوگیا تو بے چارے کا نامہ اعمال اکارت ہوجائے گا۔خرچ میں اعتدال کی روش اپنائیے۔اپنے مال کو یوں ہی ضائع نہ کیجیے۔اس ما ل کو انسانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیجیے۔

Exit mobile version