✍️ محمد قمر الزماں ندوی
____________________
قرآن مجید کی ایک مختصر سورہ سورۃ العصر ہے ، لیکن اختصار کے باوجود اس سورہ میں دنیا و آخرت کی بھلائی اور فرد و جماعت کی کامیابی کے بنیادی شرائط اور اصول و قواعد بیان کئے گئے ہیں ۔ اس سورہ کی جامعیت اور مرکزیت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ سیدنا امام شافعی رح فرماتے ہیں کہ اگر پورا قرآن نازل نہیں ہوتا اور صرف یہی سورت ( سورئہ عصر) ہی نازل ہوئی ہوتی، تب بھی تنہا یہ سورت انسان کی کامیابی ،رہنمائی اور رشد و ہدایت کے کافی تھی ۔
اس سورہ میں زمانہ کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سارے کے سارے لوگ ہی خسارے اور نقصان میں ہیں، بجز ان لوگوں کے جنہوں ایمان قبول کیا عمل صالح کو انجام دیا اور حق کی فہمائش کرتے رہے اور جنہوں نے صبر کے دامن کو تھامے رکھا ۔
گویا کامیابی اور نجات کی شاہ کلید اور فوز و فلاح اور نجات کی ضمانت چار چیزوں پر منحصر ہے، ایمان( اس میں اپنی صلاح اور لوگوں کی اصلاح شامل ہے)،عمل صالح اور تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ۔۔
ایمان کے بعد سب سے بڑا درجہ عمل صالح کا ہے ۔
اس لیے انسان کو ہمیشہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ عمل صالح میں کوشاں اور سرگرداں رہنا چاہیے ۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح انسان کو لوگوں کی نگاہ میں مقبول اور محبوب نظر بناتا ہے ، قرآن اس کی گواہی دیتا ہے ۔ ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات سیجعل لھم الرحمٰن ودا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حیات مستعار میں انسان کو زیادہ سے زیادہ عمل صالح کی راغب ہونا چاہیے ۔ یاد رہے کہ نیک عمل سے صرف آخرت ہی نہیں بنتی، بلکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی انسان کو نیک نامی اور شاد کامی عطا فرماتا ہے اور اس کے ذکر کو ذکر جاوداں کر دیتا ہے ، عمل صالح کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے اور نہ ہی اس کے گوشے اور شعبے محدود ہیں ،آخری سانس تک انسان اس کو انجام دے سکتا ہے خواہ آخری وقت کوئی نیک وصیت ہی کردے، یا ثلث مال کو راہ خیر میں لگانے کی وصیت اور تلقین کر دے ۔
ہم یہاں احادیث کے ذخیرے سے ایک ایسا ہی واقعہ پیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ نیک عمل کا ثمرہ اجر اور انعام کتنا بڑا ہے ۔۔۔۔ م۔ ق ۔ن
حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ در رسول الله ﷺ
پر کلمہ پڑھنے آئے،
مسلمان ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کرنے لگے:
یا رسول الله ! ﷺ ایک بات پوچھنی ہے:
حضور ﷺ نے فرمایا: پوچھو ! کہنے لگے یا رسول الله ﷺ ! دور جاہلیت میں ہم نے جونیکیاں کی ہیں ۔
اُن کا بھی الله ہمیں آجر عطا کرے گا ؟
کیا اُسکا بھی آجر ملے گا؟
تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: تُو بتا؛
تو نے کیا نیکی کی؟
تو کہنے لگے:
یا رسول الله ﷺ ! میرے دو اونٹ گم ہوگئے، میں اپنے تیسرے اونٹ پر بیٹھ کر اپنے دو اونٹوں کو ڈھونڈنے نکلا۔
میں اپنے اونٹوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے جنگل کے اُس پار نکل گیا
جہاں پرانی آبادی تھی،
وہاں میں نے اپنے دو اونٹوں کو پا لیا۔
ایک بوڑھا آدمی جانوروں کی نگرانی پر بیٹھا تھا،
اُس کو جا کر میں نے بتایاکہ یہ دو اونٹ میرے ہیں۔
وہ کہنے لگا یہ تو چرتے چرتے یہاں آئے تھے، تمہارے ہیں تو لے جاؤ۔
اُنہی باتوں میں اُس نے پانی بھی منگوا لیا، چند کھجوریں بھی آ گئیں ،میں پانی پی رہا تھا، کھجوریں بھی کھا رہا تھا کہ ایک بچے کے رونے کی آواز آئی تو بوڑھا پوچھنے لگا:
بتاؤ بیٹی آئی کہ بیٹا؟
میں نے پوچھا بیٹی ہوئی تو کیا کرو گے .کہنے لگا اگر بیٹا ہوا تو
قبیلے کی شان بڑھائے گا۔
اگر بیٹی ہوئی تو ابھی یہاں اُسے زندہ دفن کرا دوں گا،
اِس لیئے کہ میں اپنی گردن اپنے داماد کے سامنے جھکا نہیں سکتا۔ مں بیٹی کی پیدائش پر آنے والی مصیبت برداشت نہیں کر سکتا۔ میں ابھی دفن کرا دوں گا۔
حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ فرمانے لگے:
یا رسول الله ﷺ!
یہ بات سن کے میرا دل نرم ہوگیا۔
میں نے اُسے کہا:
پھر پتہ کرو بیٹی ہے کہ بیٹا ہے؟
اُس نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ بیٹی آئی ہے۔
میں نے کہا کیا واقعی تو دفن کرے گا ؟
کہنے لگا ہاں !
میں نے کہا دفن نہ کر مجھے دے دے، میں لے جاتا ہوں،
یا رسول اللّٰه ﷺ وہ مجھے کہنے لگا:
اگر میں بچی تم کو دے دوں تو تم کیا دو گے؟
میں نے کہا:
تم میرے دو اونٹ رکھ لو بچی دے دو۔
کہنے لگا:
نہیں،
دو نہیں یہ جس اونٹ پہ تو بیٹھ کے آیا ہے یہ بھی لے لیں گے۔
حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ عرض کرنے لگے: ایک آدمی میرے ساتھ گھر بھیجو،
یہ مجھے گھر چھوڑ آئے، میں یہ اونٹ اُسے واپس دے دیتا ہوں۔
یا رسول اللّٰه ﷺ !
میں نے تین اونٹ دے کر ایک بچی لے لی ۔
اُس بچی کو لا کر میں نے اپنی کنیز کو دیا، نوکرانی اُسے دودھ پلاتی ۔
یا رسول الله ﷺ وہ بچی میرے داڑھی کے بالوں سے کھیلتی
وہ میرے سینے سے لگتی،
حضور ﷺ پھر مجھے نیکی کا چسکا لگ گیا، پھر میں ڈھونڈنے لگا کہ
کون کون سا قبیلہ
بچیاں دفن کرتا ہے،
یا رسول الله ﷺ!
میں تین اونٹ دے کے بچی لایا کرتا۔
یا رسول الله ﷺ میں نے 360 بچیوں کی جان بچائی ہے۔
میری حویلی میں تین سو ساٹھ بچیاں پلتی ہیں۔
حضور ﷺ مجھے بتائیں۔
میرا مالک مجھے اِس کا اجر دے گا ؟
کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا رنگ بدل گیا داڑھی مبارک پر آنسو گرنے لگے۔ مجھے سینے سے لگایا۔ میرا ماتھا چوم کے فرمانے لگے
یہ تو تجھے اجر ہی تو ملا ہے کہ
رب نے تجھے دولتِ ایمان عطا کر دی ہے۔
نبی کریم ﷺ فرمانے لگے:
یہ تیرا دنیا کا اجر ہے،
اور تیرے رسولﷺ کا وعدہ ہے۔
قیامت کے دن رب کریم تمہیں
خزانے کھول کے دے گا۔