ترتیب: محمد قمر الزماں ندوی
____________________
اردو شاعری میں اور خاص طور پر غزلیہ شاعری میں ماضی قریب میں جن شعراء کو کافی مقبولیت نیک نامی اور شہرت حاصل ہوئی ان میں مجروح سلطان پوری مرحوم کا نام بھی نمایاں اور سر فہرست ہے ۔ ان کے بعض اشعار کو تو اتنی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی کہ لوگ تقریروں اور تحریروں میں بطور عنوان اور سرخی پیش کرتے ہیں ، اور تقریری مقابلوں میں بطور عنوان دیا جاتا ہے ، جن میں ایک شعر ہے ،،
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہ شعر اپنی غیر معمولی مقبولیت کے باعث ایک مدت تک فیض احمد فیض کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا ، بعض لوگ اس کو اقبال کی طرف بھی منسوب کر دیتے ہیں اور شاید آج بھی بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں ۔ حالانکہ یہ شعر مجروح سلطانپوری کے دیوان غزل میں شامل ہے ۔ یہی ایک شعر نہیں بلکہ مجروح سلطانپوری کے بہت سے اشعار دوسروں کے نام منسوب ہیں، ایک موقع پر انہوں مشہور صاحب قلم مولانا نعیم صدیقی ندوی کے استفسار پر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ یہی ایک شعر کیا، میرے متعدد اشعار یاروں نے اپنے نام کر رکھے ہیں ۔۔
ندوہ میں دوران طالب علمی الاصلاح کے پروگراموں سے راقم کو بہت دل چسپی تھی ، شاید ہی کوئی بزم ہو ، جس میں میری شرکت نہ ہوتی ہو ، ہمیشہ ایک انعام سال بھر بزم میں پابندی سے شرکت کا حاصل کرتا تھا ۔ بیت بازی کے پروگرام سے بھی بڑی دلچسپی تھی، ہمیشہ اس پروگرام میں بھی شرکت کرتا اور ٹیم کو جیت دلاتا تھا ۔ اس زمانے ہزاروں اشعار زبان زد تھے ۔ علامہ اقبال ،غالب ، ذوق ،داغ ، ذوق، اصغر گونڈوی ، مصحفی، فیض احمد فیض، فانی بدایونی کلیم عاجز اور مجروح سلطان پوری کے اشعار کو زیادہ ترجیح حاصل تھی ۔ ان دنوں مجروح سلطان پوری کے جو اشعار اور غزلیں یاد تھیں ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔
مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کانام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح
____________________
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
میں تب جب جانوں کہ بھر دے ساغر ہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیر مغاں بنتا گیا
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایان شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا
شرح غم تو مختصر ہوتی گئی اس کے حضور
لفظ جو منھ سے نکلا داستاں بنتا گیا
دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضمون کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا
____________________
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
پھاڑے ہوں گے ہم نے عزیزو چاک گریباں تم سے زیادہ
چاک جگر محتاج رفو ہے، آج تو دامن صرف لہو ہے
اک موسم تھا، ہم کو رہا ہے ،شوق بہاراں تم سے زیادہ
جاؤ تم اپنے بام کی خاطر ،ساری لویں شمعوں کی کتر لو
زخم کے مہر و ماہ سلامت جشن چراغاں تم سے زیادہ
زنجیر و دیوار ہی دیکھی ،تم نے تو مجروح مگر
کوچہ کوچہ دیکھ رہے ہیں ،عالم زنداں تم سے زیادہ
____________________
مجھ سے کہا جبرئیل جنوں نے، یہ بھی وحی الٰہی ہے
مذہب تیرا مذہب دل ہے ،باقی سب گمراہی ہے
وہ جو ہوئے فردوس بدر،تقدیر تھی وہ آدم کی مگر
میرا عذاب در بدری ،میری ناکردہ گناہی ہے
وغیرہ
برصغیر کے ممتاز غزل گو شاعر اور عظیم نغمہ نگار مجروح سلطان پوری کا 24/ مئی یوم وفات کے طور پر منایا جاتا ہے، گزشتہ سے پیوستہ کل 24/ مئی کی تاریخ تھی ،چونکہ ان کے اشعار کو راقم بہت شوق سے پڑھتا اور سنتا ہے اور طالب علمی کے زمانے میں اس سے فائدہ اٹھایا ، اس لیے حق بنتا ہے کہ ان کی شاعری اور ادبی خدمات سے قارئین کو روشناس کراؤں یاد رہے کہ مجروح سلطانپوری بھی اصلا دینی مدرسہ اور تکمیل طب کالج کے فارغ تھے اور عالم تھے۔ عربی فارسی اردو تینوں زبانوں پر مہارت تھی، لیکن فکر معاش سے مجبور ہوکر جگر مرادی آبادی کے مشورہ پر فلمی دنیا کے ہوکر کر رہ گئے اور تقریبا چار ہزار نغمات اور کئی سو غزلیں لکھیں ،جو خود ایک ریکارڈ ہے ۔
مجروح سلطانپوری کے بارے میں علی سردار جعفری نے لکھا ہے کہ ،، مجروح شاعر خوش گو بھی تھے اور خوش گلو بھی ،خوش شکل بھی اور خوش پوش بھی ،اور اس پر خوش گفتاری سونے پر سہاگہ ،، (بزم دانشوراں ، ص،89)
مجروح سلطانپوری یکم اکتوبر 1919ء کو برٹش انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے ایک شہر سلطان پور میں پیدا ہونے والے مجروح سلطان پوری کا اصل نام اسرار الحسن خان تھا۔ شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انہوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے، دراصل انہیں شاعری کا شوق طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا، لیکن طب یونانی کی تعلیم کے دوران وہ اس طرف زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔
مجروح کے والد سراج الحق خان جو کہ سب انسپکٹر تھے، انہیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے ساتویں جماعت مکمل کرنے کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم کے لیے سات سالہ کورس میں داخلہ کرا دیا۔ مجروح نے درس نظامی کا کورس مکمل کیا، پھر عالم بن گئے۔ بعد ازاں لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج کی تعلیم حاصل کی، وہ حکیم تو بن گئے اور لوگوں میں ان کی حکمت کی خبر بھی پھیلنی شروع ہو گئی، لیکن بچپن سے ہی ان کے اندر شعر و شاعری کا جو طوفان ہلوریں مار رہا تھا، اس میں اچانک اضافہ ہو گیا۔
ایسے وقت میں جگر مراد آبادی سے ملاقات اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے، 1945ء کی بات ہے جب مجروح نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں شرکت کی تھی، یہ وہ دور تھا جب ان کی شاعری ادبی حلقوں میں اپنا پرچم لہرا رہی تھی، ممبئی کے اس مشاعرے نے مجروح کی زندگی کا رخ ہی موڑ دیا۔ مذکورہ مشاعرے میں فلم انڈسٹری کے مشہور پروڈیوسر اے آر کاردار بھی شریک تھے جنہیں ان کی شاعری نے اپنا دلدادہ بنا لیا۔ کاردار نے فوراً مجروح کے پاس آ کر انہیں نغمہ نگاری کی پیش کش کی، اس وقت انہوں نے انکار کر دیا، لیکن جب جگر مراد آبادی نے مجروح کو سمجھایا تو وہ راضی ہو گئے، پھر کاردار نے موسیقار نوشاد سے مجروح کی ملاقات کرائی۔ یہ وہ موقع تھا جب دو بڑی شخصیتوں کا "ملن” ہو رہا تھا، نوشاد نے فوراً ایک ساز (دھن) پیش کیا اور نغمہ لکھنے کی فرمائش کی۔ گویا مجروح کا پہلا فلمی نغمہ منظر وجود پر آیا۔ وہ نغمہ تھا:
جب اس نے گیسو بکھرائے بادل آیا جھوم کے
مست امنگیں لہرائی ہے رنگیں مکھڑا چوم کے
نوشاد کو یہ نغمہ بہت پسند آیا اور انہوں نے فلم "تاج محل” میں نغمہ نگاری کی ذمہ داری مجروح کے سپرد کر دی۔ اس فلم کے نغموں کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ سبھی کی زبان پر صرف مجروح کا ہی نام تھا۔ اس کے بعد ان کے پاس نغمہ نگاری کے لیے کئی پیش کش آئے اور یہی موقع تھا جب وہ بالی ووڈ کے ہو کر رہ گئے۔ حالانکہ ایسا کہنا درست نہیں ہوگا کہ انہوں نے فلموں میں نغمہ نگاری کی اور ادب سے کنارہ کش ہو گئے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 70 غزلیں لکھی ہیں جب کہ فلمی نغموں کی تعداد تقریباً 4000 ہے، ماہرین ادب کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مجروح ادبی شاعری پر توجہ دینے کے بجائے فلمی دنیا کی نذر ہو گئے۔ لیکن شاعر اشعر ہاشم کا نظریہ کچھ مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”مجروح نے فلموں کے لیے صرف شوقیہ لکھا ہے اور ان کی پہلی محبت غزل تھی۔ انہوں نے فلمی نغموں میں بھی اردو ادب کی تاثیر کو برقرار رکھنے کی طرف پوری توجہ دی تھی۔
بلاشبہ مجروح سلطان پوری کے فلمی نغموں میں ہمیں خیالات کی نازکی کے ساتھ ساتھ زندگی کے تجربات جس انداز میں پیش پیش نظر آتے ہیں وہ ان کی ادب پروری کا ہی نتیجہ ہے۔ نغموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی ایسے تخلیق کار کے قلم سے صفحہ قرطاس پر اترے ہیں جو نہ صرف غزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے، بلکہ جس نے تمام رموز و علائم کو اشعار کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ جگر مراد آبادی کے شاگرد اور مشہور شاعر بیکل اتساہی نے مجروح کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ ”مجروح ایک ایسے شاعر تھے جن کے کلام میں سماج کا درد جھلکتا تھا۔ انھوں نے زندگی کو ایک فلسفی کے نظریے سے دیکھا اور اردو شاعری کو نئی اونچائیاں عطا کیں۔”
دراصل مجروح کی نظر سماجی مسائل کے ساتھ زندگی کی کشمکش پر بھی رہتی تھی۔ وہ اپنے قلم کے ذریعہ سماجواد کا پرچم بلند کرنے والے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ترقی پسند مصنّفین کی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد وہ حکومت مخالف نظم لکھنے کی پاداش میں قید و بند کا شکار بھی ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی مالی حالت خراب ہو چکی تھی۔ 1949 ءمیں مجروح کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے بالی ووڈ کے "شو مین” راج کپور نے ان کی مدد بھی کرنی چاہی تھی لیکن مجروح کی خودداری کے کیا کہنے۔ انہوں نے ان کی پیشکش خارج کر دی۔ پھر راج کپور نے ایک نغمہ لکھنے کی فرمائش کی جس سے مجروح انکار نہیں کر سکے۔ اس موقع پر مجروح نے اپنے درد و الم کو کاغذ پر بکھیرتے ہوئے یہ نغمہ لکھا:
ایک دن بک جائے گا ماٹی کے مول
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول
راج کپور نے اس نغمہ کے لیے انہیں 1000 روپے دیے تھے۔ یہ نغمہ راج کپور نے 1975ء میں اپنی فلم "دھرم کرم” میں شامل کیا تھا۔ مجروح نے فلموں میں روایتی انداز کی نغمہ نگاری سے ہمیشہ پرہیز کیا، شاعری کے لیے انہوں نے حکیمی کا پیشہ تو ترک کر دیا لیکن انسان کے نبض پر ان کا ہاتھ ہمیشہ رہتا تھا۔ انہوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے نغمہ کے پیرایہ میں ڈھال دیا۔ فلمساز و ہدایت کار ناصر حسین کے ساتھ متعدد فلموں میں انہوں نے جس طرح کی نغمہ نگاری کی ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہیں۔ "پھر وہی دل لایا ہوں”، "تیسری منزل”، "بہاروں کے سپنے”، "کارواں”، "خاموشی” وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جن کے کسی ایک نغمہ کو بطور مثال پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس میں موجود سبھی نغمے فلموں کی کامیابی کا ضامن بنی ہیں۔
فلم "دوستی” کے نغمہ "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے” کے لیے فلم فیئر ایوارڈ حاصل کرنے والے مجروح سلطان پوری کے نام فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” حاصل کرنے والاےپہلے نغمہ نگار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ مجروح نے دنیا کو 14 سال قبل آج ہی کے دن 24 مئی 2000 کو الوداع کہہ دیا لیکن آج بھی ان کی نغمہ نگاری کا رنگ بالکل تازہ ہے اور یقینا کبھی پھیکا نہیں پڑے گا۔
[انتخاب کلام]
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے سات چلے
دیار شام نہیں منزل سحر بھی نہیں
عجب نگر ہے یہاں دن چلے نہ رات چلے
ہمارے لب نہ سہی وہ دہانِ زخم سہی!
وہیں پہنچتی ہے یارو کہیں سے بات چلے
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
ہُوا اسیر کوئی ہمنوا تو دور تلک!
بپاسِ طرزِ نوا ہم بھی ساتھ سات چلے
بچا کے لائے ہم اے یار پھر بھی نقدِ وفا
اگرچہ لُٹتے ہوئے رہزنوں کے ہات چلے
پھر آئی فصل کہ مانندِ برگِ آوارہ
ہمارے نام گلوں کے مراسلات چلے
قطار شیشہ ہے یا کاروانِ ہم سفراں
خرامِ جام ہے یا جیسے کائنات چلے
بُلا ہی بیٹھے جب اہلِ حرم تو اے مجروحؔ
بغل میں ہم بھی لیے اِک صنم کا ہات چلے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب ہوا عرفاں تو غم آرامِ جاں بنتا گیا
سوزِ جاناں دل میں سوزِ دیگراں بنتا گیا
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسمِ چمن
دھیرے دھیرے نغمۂ دل بھی فغاں بنتا گیا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
میں تو جب جانوں کہ بھر دے ساغرِ ہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیرِ مغاں بنتا گیا
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا
شرحِ غم تو مختصر ہوتی گئی اس کے حضور
لفظ جو منہ سے نہ نکلا داستاں بنتا گیا
دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا
نوٹ:_________
یہ تحریر فیس بک ،گوگل سے ماخوذ و مستفاد ہے اور بعض کتابوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے.