✍️ شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
_________________
’ لگتا ہے آنے والی فلم ’ ہم دو ہمارے بارہ ‘ بالکل ’ دی کیرالا اسٹوری ‘ کی طرز پر کمائی کرے گی ! سترہ دنوں میں فلم ’ دی کیرالا اسٹوری ‘ نے 198 کروڑ روپے کما لیے تھے ! جبکہ یہ فلم صرف تیس کروڑ روپیے کی لاگت سے بنائی گئی تھی ، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس فلم کا منافع 550 فیصد ہوا ہے ! یہ اعداد و شمار دو باتیں سامنے لاتے ہیں ، ایک تو یہ کہ ’ نفرت ‘ ایک زبردست کاروبار ہے ، اور دوسرا یہ کہ اگر ’ نفرت ‘ کے کاروبار کی بنیاد ’ اسلاموفوبیا ‘ پر رکھی جائے ، تو چھپّر پھاڑ کمائی ممکن ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ لوگ ’ نفرت ‘ کی بنیاد پر بنی فلموں کو دیکھنا پسند کرتے ہیں ، اور اپنی اس پسند کے نتیجے میں فلم سازوں کو مزید حوصلہ فراہم کرتے ہیں کہ وہ ’ دی کیرالہ اسٹوری ‘ جیسی فلمیں بنائیں ، حقائق کو مسخ کریں اور اپنی جیبیں دولت سے بھر لیں ۔ لیکن اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر ’ دی کیرالا اسٹوری ‘ کو پبلسٹی نہ دی جاتی ، یہ بات موضوعِ گفتگو نہ بنتی کہ فلم مسلمانوں کے خلاف ہے ، اور اس فلم کو لے کر احتجاج نہ کیا جاتا تو یہ فلم اُسی طرح سے فلاپ ہوجاتی جس طرح ’ نفرت ‘ کی بنیاد پر بنائی گئی وہ فلمیں فلاپ ہوئی ہیں جن کے خلاف احتجاج نہیں کیا گیا ۔ مثلاً ’ ۲۷ حوریں ‘ ، ’ فرحانہ ‘ ، ’ رضاکار ‘ وغیرہ وغیرہ ۔ ویسے یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب ’ نفرت ‘ کو فلمی دنیا نے کاروبار بنایا ہے ، لوگ ابھی بھی فلم ’ دی کشمر فائلز ‘ کو بھول نہیں سکے ہیں ، جو کشمیری مسلمانوں کو انتہا پسند ، دہشت گرد ، ہندو کُش ثابت کرنے کے لیے تمام انتہاؤں کو پار کر گئی تھی ۔ لوگوں کو خوب یاد ہوگا کہ وویک اگنی ہوتری کی فلم نے ملک بھر میں کشمیریوں کے خلاف ، اور اسی بہانے عام مسلمانوں کے خلاف ، ایک ایسی فضا قائم کی تھی کہ کئی جگہ تشدد پھوٹ پڑا تھا اور تھیٹروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے نعرے لگائے گئے تھے ۔ وہ فلم محض 25 کروڑ روپیے کی لاگت سے بنائی گئی تھی ، لیکن اس نے 341 کروڑ روپیے سے زائد منافع کمایا تھا ۔ فلم حقیقت سے کوسوں دور تھی ، ایک مخصوص نظریے کو بنیاد بنا کر سارے کشمیری مسلمانوں کو کٹگھڑے میں لا کر کھڑا کر دیا گیا تھا ، اور جو کشمیر کے حقیقی ’ مجرم ‘ تھے ، جیسے کہ اُس وقت کے کشمیر کے گورنر جگموہن ، وہ ’ ہیرو ‘ بنا دیے گئے تھے ۔ وویک وگنی ہوتری کروڑوں کے مالک ہو گئے ، اور اُن کا سارا قصور ، مثلاً یہ اعتراف کہ وہ بیف کھاتے ہیں یا دیوی دیوتاؤں کے تعلق سے اناپ شناپ ، سب بی جے پی کی ’ پروپیگنڈا مشین ‘ میں آکر دھُل گیا ۔ اور کیسے نہ دھلتا ، اس فلم کا پرچار خود ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ اور ساری بی جے پی جو ، کر رہی تھی ۔ لیکن اگر مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار نہ کیا جاتا تو یہ فلم اتنی زبردست کمائی نہ کرتی ، کیونکہ پی ایم مودی نے فلم ’ پرتھوی راج چوہان ‘ کی بھی سفارش کی تھی ، جو بُری طرح فلاپ رہی ۔ لیکن مسلمانوں نے کوئی سبق نہیں لیا ہے ، اب فلم ’ ہم دو ہمارے بارہ ‘ کے خلاف احتجاج شروع کر دیا گیا ہے ! مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فلم پر پابندی لگائی جائے ، جبکہ کسی بھی ایسی فلم پر جو سینسر بورڈ سے منظور ہو گئی ہو عدالتیں بھی پابندی نہیں لگاتیں ۔ فلم ’ بمبئی ‘ سے لے کر ’ دی کیرالا اسٹوری ‘ تک اس کا تجربہ ہے ، لیکن اس تجربے کے باوجود وہی نعرہ کہ فلم پر پابندی لگے ! کیا ہے اس فلم میں ؟ چونکہ اب تک یہ فلم نمائش کے لیے پیش نہیں ہوئی ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلم میں ہے کیا ، لیکن جو چند مناظر سوشل میڈیا وغیرہ پر آئے ہیں انہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فلم ’ اسلامو فوبیا ‘ کے مرض میں مبتلا اذہان کی کارستانی ہے ۔ فلم میں قرآن و احادیث اور اسلامی عقائد و نظریات کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے ۔ اس فلم کا رائٹر کوئی راجن اگروال اور ڈائریکٹر بریندر بھگت ہے ۔ فلم میں قرآن پاک کی آیات کو من مانے مطلب دیے گیے ہیں ، اور یقیناً یہ افسوس ناک ہی نہیں مسلمانوں کے خلاف ایک جرم ہے ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ سینسر بورڈ نے اس مذموم فلم کو نمائش کی اجازت دے دی ہے ! لیکن مسلمان یہ مان کر چلیں کہ ان دنوں اس ملک میں تقریباً سارے ہی ادارے مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھر دیے گیے ہیں ، اداروں کے ذمے داران ایسے افراد منتخب کیے جاتے ہیں جو مسلم دشمنی میں تَاک ہوں ، ان سے کسی نرمی یا ہمدردی کی توقع فضول ہے ۔ مسلمان احتجاج کریں ، لیکن اس کی شکل کچھ الگ طرح کی ہو ۔ گزشتہ دنوں رضا اکیڈمی کے ایک وفد نے سینسر بورڈ کے ذمے داران سے مل کر اپنی بات ان کے سامنے رکھی ، اور انہیں سمجھایا کہ یہ فلم کیوں مسلمانوں کے لیے دل آزار ہے ، اور کیوں یہ فلم نمائش کے لیے پیش نہیں کی جانی چاہیے ۔ اسی طرح تمام مسلم تنظیمیں اور جماعتیں متحد ہوکر وفد کی شکل میں مختلف ذمے داران سے ملیں ، ان تک اپنی بات پہنچائیں ۔ مزید یہ کریں کہ اپنے ساتھ اُن برادرانِ وطن کو لیں جو سمجھدار ہیں ، اور جانتے ہیں کہ ایسی فلمیں ’ اسلامو فوبیا ‘ کے تحت بنائی جاتی ہیں ۔ اپنی بات مرکزی وزیراطلاعات و نشریات تک پہنچائیں ، حالانکہ ان اقدامات سے کوئی بہت فرق نہیں پڑے گا ، لیکن ساری دنیا تک یہ بات پہنچے گی کہ مسلمانوں کے قائدین نے سمجھداری کے ساتھ اپنی بات ذمے داران تک پہنچانے کی کوشش کی ۔ خالی احتجاج صرف فلم کی پبلسٹی کا سبب بنے گا ، اور لوگ اس تجسس میں کہ اس میں کیا ہے اسے دیکھنے کے لیے سنیما گھروں میں پہنچیں گے ، اور فلم بہت ممکن ہے کہ ’ دی کیرالا اسٹوری ‘ کی طرح کمائی کرنے لگے ! ایک مشورہ مزید ہے ، اور اس پر عمل بھی آسان ہے ؛ مسلمان اس فلم کا اپنے طور پر ، بغیر کسی شور شرابے کے بائیکاٹ کریں ، یعنی فلم دیکھنے نہ جائیں ۔ ساتھ ہی برادرانِ وطن میں جن سے ان کی قربت ہو اس سے بھی کہیں کہ وہ فلم نہ دیکھیں ، یقیناً اس کا مثبت اثر پڑے گا ، اور فلم چند ہی دنوں میں سنیما گھروں سے اتر جائے گی ۔ بصورت دیگر احتجاج کا فائدہ بی جے پی اٹھائے گی ، خاص کر لوک سبھا الیکشن کے آخری مرحلے میں ۔