Site icon

حجۃ الاسلام مولانامحمد قاسم نانوتوی کا نظریۂ تعلیم

سید احمد

سید احمد

✍️ سید احمد

___________________________

امام نانوتوی کے تعلیمی نظریے کو ہم خود ان ہی کی زبان میں آپ کے سپرد کرتے ہیں۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے سوانح قاسمی کی پہلی جلد کے اندر، سن۱۲۹۰ کے اختتامی اجلاس میں ہونے والی الامام کی تقریر کی روشنی میں آپ کے نظریہ تعلیم پر مفصل بحث کی ہے اور اس تعلیمی نظریہ کی معنویت و تاثیر اور اس کے باوزن ہونے کے حق میں خاصا مواد درج کیا ہے جو باذوق اہل علم کے لیے بڑے خاصے کی چیز ہے۔ (سوانح قاسمی ج 1 ص 275 تا 300)
الامام اپنی اس تقریر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’فراغت کے بعد اگر طلبۂ مدرسہ ھذا، مدارسِ سرکاری میں جاکر علوم جدیدہ حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ مؤید ثابت ہوگی۔‘‘ (ایضا ص 286) پھر کیوں کہ جدید تعلیم گاہوں میں حکومت کی جانب سے مختلف درجات کےلیے مختلف عمروں کی قید تھی، جس کی وجہ سے فارغین علوم دینیہ کو جدید تعلیم گاہوں میں داخلے کے سلسلے میں مشکلات کے سامنے کا امکان تھا، اس پر الامام نے افسوس کا اظہار کرتے ہوے فرمایا کہ ’’کاش گورنمنٹ بھی قید عمر طلبۂ نو کو اڑادے‘‘ اس سے الامام کا سوز دروں چھلکتا ہے کہ وہ تمام رہبران ملت کے صرف دینی علوم پر اکتفا کو مزاحمت کے تدریجی خاکے کی تکمیل کے لیے کس قدر ناکافی سمجھ رہے تھے، بعد ازاں صرف اسی پر اکتفا نہیں ہوا بل کہ ’’قید عمر‘‘ کی مشکل کا حل نکالنے کے لیے مدرسہ کا تعلیمی دورانیہ دس سال سے گھٹا کر چھ سال کردیا گیا، تاکہ علوم اسلامیہ سے سیرابی اور اسلامی فکر و عمل کی تربیت پانے کے بعد مستقبل کے مزاحمت کاروں کے لیے تحصیل علوم جدیدہ کی صورت پیدا ہو سکے۔
ذرا غور فرمائیے کہ یہ فکر و ترتیب کس دور اور کس ماحول میں تیار کی جارہی ہے جس وقت انگریزی استعمال کا طوطی بول رہا تھا اور حکومتی تعلیمی مراکز کے قریب  سے گزرنا بھی ایمان و یقین کے لئے خطرناک تصور کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں آئیندہ چند برسوں میں تعلیمی حوالوں سے جو تجاویز اور اقدامات سامنے آئے وہ الامام کی وسعت نگاہ اور رجال سازی کے ہمہ جہت تصور کو مزید واضح کرتے ہیں۔اس کی تفصیل ہمیں دارالعلوم دیوبند کی تاریخ پر سب سے مستند کتاب تاریخ دارالعلوم دیوبند، از : سید محبوب رضوی ؒمیں ملتی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں!
1296 ھ میں باقاعدہ تعلیم طب کا اجرا عمل میں آیا، اور فن طب کی بنیادی کتب داخلے درس کی گئیں۔ اور اسی سال کی روداد میں اسباب میسر آنے پر طلبہ کو طریقہ طب، فن جراحی اور دواسازی سکھلانے کا عندیہ بھی دیا گیا( تاریخ دارالعلوم ج 1 ص 187) اور بالآخر 1301 ھ میں مولانا یعقوب نانوتوی  کی رائے پر پر اس شعبے کو مزید ترقی دی گئی اورطبابت سکھانے کی غرض سے باضابطہ طبیب کا تقرر کیا گیا۔ (ایضا ص 197) اس دوران الامام 1297 ھ میں داعئی اجل کو لبیک کہہ گئے اور قدرت نے حضرت الامام کو اپنے مجوزہ خاکے میں رنگ ریزی کی مزید مہلت نہیں دی۔ لیکن ادارے کے اندر آپ کی پھونکی ہوئی روح کام کررہی تھی ،سو سن 1321 ھ میں شعبہ انگریزی کے قیام کی تجویز پیش کی گئی جس میں یہ قضیہ اٹھایا گیا کہ جدید تعلیم یافتہ گان کے لیے تحصیل علوم دینیہ کا نظام قائم کیا جائے اور صرف یہی نہیں بل کہ اس میں داخل ہونے والوں کا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے، تاکہ اس جانب رغبت پیدا ہو۔ اور طلبہ دارالعلوم کے لیے فراغت کے بعد انگریزی سیکھنے کا نظم کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا گیا، سید محبوب رضوی ؒنے تجویز کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ ’’دونوں صورتوں میں مسلمانوں کے لئے بہت سے فوائد ہیں‘‘ مگر قلت وسائل کے سبب یہ تجویز رو بہ عمل نہ آ سکی۔ (ایضا ص 208)
نیز الامام نے سفر حج کے دوران اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ میں وطن واپسی کے بعد انگریزی زبان سیکھوں گا؛ لیکن اجل نے آپ کو اس کا موقع فراہم فراہم نہیں کیا۔(ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت از : مناظر احسن گیلانی)
تصور کیا جاسکتا ہے کہ برطانوی استعمار کے سب سے بڑے دشمن اور تحریک دیوبند کا مؤسس و سرخیل تقریباً سوا صدی قبل حاکم قوم کی زبان سیکھنے کا عزم کررہا ہے۔ آخر کیوں؟ کیا مادی نقطۂ نگاہ سے؟ حاشا وکلا! کیا مرعوبیت کے سبب؟ الحذر سو بار الحذر! کیا اس وجہ سے کہ وہ اسلامی علوم و فنون میں ناپختہ تھا اور اس کی بھرپائی کے لیے ایک امتیازی صفت چاہتا تھا؟ الامان و الحفیظ!ان میں سے کسی وجہ کا تصور الامام کا کوئی دشمن بھی نہیں کرسکتا! پھر اس یگانہ روزگار متکلم اور سلسلہ تجدید کے رکن، مزاحمت کاری کے استعارے کو آخر کیا دلچسپی تھی کہ انگریزی زبان سیکھی جائے، سوائے اس کے کہ وہ اس چیز کو ایک اہم ترین سبب کے طور پر دیکھ رہے تھے! اور اگر الامام کو سوا سو برس قبل یہ ضرورت محسوس ہوئی تو ہمیں آج اس کے سوا کن کن چیزوں کی ضرورت ہوگی؟
اب یہاں ٹھہر کر یہ سمجھ لیجیے کہ مذکورہ اقتباسات کی جو تشریح بیان کی گئی وہ ہماری خانہ زاد نہیں ہے بل کہ جیساکہ ہم ذکر کر چکے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے سوانح قاسمی کے اندر نظام تعلیم کے عنوان سے باب باندھ کر امام نانوتویؒ کے تعلیمی نقطۂ نظر کو بہ تفصیل موضوع گفتگو بنایا ہے، سو اسی کی تلخیص ہم نے اپنے الفاظ میں پیش کی ہے۔ یہاں ایک قابل ذکر نکتہ یہ بھی ہے کہ دوران تحریر اس حوالے سے سوانح قاسمی کے مصنف محترم کا ذاتی اضطراب بھی واضح طور پر نمایاں ہوتا ہے اور وہ خود بھی دائرہ کار کی محدودیت کے سخت خلاف نظر آتے ہیں، دوٹوک جملوں میں کہا جائے تو بہ قول مولانا مناظر احسن گیلانی  الامام کا نقطۂ نگاہ یہی تھا کہ علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد، تحصیل علوم جدیدہ بھی ارتقائی سفر کے لیے از بس ضروری ہے، اور مولانا نے ازخود بھی اسی نقطۂ نظر کی صاف و صریح تائید کی اور اس کے حق میں کثیر دلائل و شواہد پیش کیے ہیں۔
ایک اور چیز ملحوظ خاطر رہے کہ سید مناظر احسن گیلانی ؒ، شیخ الہندؒ کے صحبت یافتہ، دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری، اور حضرت حکیم الاسلامؒ کے خاص معتمدین میں سے تھے۔ اور آں محترم کی مذکورہ تصنیف کوئی ذاتی نوعیت کی تصنیف نہیں ہے بل کہ دارالعلوم دیوبند کی ترجمان ہے، ایسا ہم اس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ اولا تو حضرت حکیم الاسلامؒ کی زیر سرپرستی اس تصنیف کا عمل مکمل ہوا اور تکمیل کے بعد یہ سوانح طباعت کے مرحلہ میں آپ کی حکیمانہ نگاہ سے چھننے کے بعد داخل ہوئی (مقدمہ سوانح قاسمی از مولانا قاری محمد طیب صاحب) ثانیا : حضرت شیخ الاسلام ؒکی خواہش پر مجلس شوریٰ نے متفقہ ریزولیوشن سے اس کتاب کو دارالعلوم کے شعبہ نشر و اشاعت کے سپرد کیا، اور اس کتاب کا یہ حق قرار دیا کہ یہ دارالعلوم دیوبند کی ملکیت ہو۔ (تقریب سوانح قاسمی مولانا حسین احمد مدنی صاحب)

Exit mobile version