✍️ مشتاق احمد نوری
_______________________
چند روز قبل تاریخ اردو ادب بہار جلد دوم پر ڈاکٹر ریحان غنی کی ایک مختصر تحریر نظر سے گزری. میرے پاس کتاب نہیں تھی، بازیافت کی کوشش کرنے لگا. جب تک کتاب ملی تب تک ریحان غنی کی دوسری تحریر اخبار کی زینت بن گئی جس میں ان کی تحریر پر جو کمنٹ آئے اسے بھی شامل کرلیا گیا پھر تیسری نیوز بھی آگئی جس میں مزید اغلاط کی نشاندہی کی گئی تھی. کچھ اغلاط کا میلان میں نے بھی کتاب سے کی تو مزید نشاندہی مل گئی جسے نہ ریحان نے اور نہ کسی نے کمنٹ میں اشارہ کیا.
کسی بھی کتاب میں غلطی کا امکان رہتا ہے، لوگ نشاندہی بھی کرتے ہیں اور غلطیاں درست بھی کی جاتی ہیں.کسی نے وہاب اشرفی کی تاریخ ادبیات عالم کی بھی نشاندہی کی کہ وہاں بھی اغلاط کا پلندہ ہے لیکن پھر دوسرے صاحب نے یہ کہ کر بچاؤ کیا کہ چونکہ وہ تاریخ کسی سرکاری ادارے کے فنڈ سے وجود میں نہیں آئی اس لئے اس پر بحث کی ضرورت نہیں. یہ تنقید کا دوہرا پیمانہ نہیں تو اور کیا ہے.
زیادہ زور سرکاری رقم کی بندر بانٹ پر تھا جس پر ڈاکٹر اسلم جاوداں بھی تال ٹھوکنے لگے کہ میں کبھی تفصیل سے لکھوں گا.ایک بات واضح ہے کہ اسلم جاوداں اس پورے پروجکٹ کے ساتھ رہے ہیں اور کس نے کتنی رقم ہڑپی اس کی جانکاری انہیں ضرور ہوگی. میں نے جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ تینوں محقق کو مسودہ تیار کرنے اور اس کی کمپوزنگ کے لئے محض 20 یا 25 ہزار روہئے دئے گئے. جس لاکھوں کی رقم کی بندر بانٹ یا اعجاز علی ارشد کے ہڑپ کرجانے کا الزام ہے اس کی ایک کوڑی بھی موصوف کو نہیں ملی.. یہ رقم ہڑپنے کا الزام لگا کر ان کی کردار کشی نہیں کی گئی .. نسیم احمد نسیم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہیں بھی کوئی باب لکھنے کہا گیا تھا اور دوسروں کو بھی کہا گیا تھا.اب یہ اسلم جاوداں ہی بتا سکتے ہیں نسیم اور دیگر کو کس نے تیار رہنے کے لئے کہا.کس نے خط لکھا یا کس نے فون کیا نسیم احمد سے پوچھا جانا چاہئے. مجھے جو جانکاری ملی ہے کہ ادارے کا ایک کارندہ چاہتا تھا کہ آٹھ دس ہزار روپیہ الگ الگ لوگوں کو دیکر ان سے لکھوا لیا جائے اور دو تین لاکھ مولف کو دیکر باقی بندر بانٹ کرلیا جائے لیکن ڈائرکٹر موصوف نے اس سسٹم کو منظور نہیں کیا اور اس اہم کارندے کا داؤ نہیں چلا بعد میں احمد محمود نے اس بندر بانٹ والی فائل کو نامنظور کردیا. اب کھسیانی بلی کھمبا بھی نہ نوچے.
تین مصنفین کو تین پروجیکٹ دئے گئے پروفیسر جاوید حیات نے جلد نمبر ایک جمع کیا شائع بھی ہوئی کتاب پر بڑا تلخ کمنٹ آیا ان کی ایسی تیسی کردی گئی لیکن کسی نے بچاؤ نہیں کیا بلکہ کسی اور نے آگ میں گھی ڈال دیا.
ریحان غنی صاحب آپ نے غلطی کی نشاندہی کی اچھی بات ہے مزید کوشش کرکے پورے اغلاط کی نشاندہی کردیں تاکہ تاریخ کی ایک اہم کتاب اغلاط سے پاک ہو لیکن اردو کاپروفیسر جو شعبہ کا صدر رہا ہو پٹنہ کالج کا پرنسپل رہا ہو اور مولانا مظہر الحق اردو فارسی یونیورسیٹی کا سب سے فعال وائس چانسیلر رہاہو اسے آپ اس طرح ذلیل تو نہیں کرسکتے۔ یونیورسیٹی کو چھوٹے سے ڈربے سے اٹھا کر پانچ ایکٹر زمین حاصل کر 85 کڑوڑ کی لاگت سے عالیشان عمارت کی تعمیر کروا دینا عام بات نہیں ہے جسے جاہل کہ رہے ہیں یہ اسی اعجاز علی ارشد کا کارنامہ ہے جسے یہ قوم کیسے فراموش کرسکتی ہے.وہاں ایک لڑکیوں ایک لڑکوں کا شاندار ہوسٹل بھی تعمیر ہوا.وہ اعجاز علی ارشد کی قسمت اچھی تھی کہ رقم کی منظوری اور نقشہ کی منظوری کرواکر نکل آئے اگر ان کی موجودگی میں عمارت کی تعمیر ہوئی ہوتی تو کڑوڑوں کے گھپلے کا الزام لگتا اور آپ انکی کردار کشی کررہے ہوتے۔
اب اتنے شاندار طریقے سے ان کے کام پر کیچڑ اچھالی گئی ہے کہ حکومت کے کان کھڑے ہونگے ہی. بہار اردو اکادمی جس کے بجٹ کو میں نے محترم عامر سبحانی کے تعاون سے 40 لاکھ سے بڑھا کر 25000000 دو کڑوڑ پچاس لاکھ کروایا تھا اور تین سال میں تینوں بار پوری رقم لے کر خرچ کیا وہ اب جس حال میں ہے آپ سب کو بھی معلوم ہے.یار لوگوں نے میرے اوپر بھی الزام لگائے دو ڈپٹی سکریٹری نے کئی مہینے تک جاچ کے بعد ایک بھی الزام ثابت نہیں کیا. جو بھی کام کرتا ہے غلطی اسی سے ہوتی ہے لیکن اس کے دیگر مثبت کام پر بھی توجہ دینی چاہئے یکدم جاہل قرار دیا جانا سوائے کردار کشی کے اور کیا کہا جائےگا.
چار سو اکتیس صفحہ کی کتاب میں پروف کی بھی بے شمار غلطیاں ہونگی جیسے قلاقوں آپ کو پریشان کرگیا کمپوزنگ میں علاقوں کی جگہ قلاقوں لکھا گیا اسے پروف کرتے وقت درست کرنا تھا آپ نے جن مہان مجلس مشاورت کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ان سب کی نظروں سے یہ کتاب گزری لیکن ایک جگہ بھی کسی نے غلطی کی نشاندہی نہیں کی۔
اعجاز علی ارشد سے چوک تو ہوئی ہے. سرکاری رسالے کے ضمن میں انہوں نے بہار کی خبریں کا مدیر جناب ارتضی حسین ہوش عظیم آبادی کو بتایا اس کے بعد کے مدیر کا نام ہی نہ لیا جبکہ میں خود بہار کی خبریں اردو ہندی اور انگریزی کا چیف ایڈیٹر رہا اور اردو کے رسالے کو اردو کا بہترین رسالہ بنا دیا.اب چیف ایڈیٹر سکریٹری ہوتے ہیں اور اس میں صرف اشتہار چھپتے ہیں. اسی طرح انہوں نے نقیب کے مدیر کے بارے میں ذکر کیا شروع کے مدیر شاہد رام نگری اور اصغر امام فلسفی کا ذکر الگ کیا بعد میں مفتی ثناءالہدی قاسمی کا ذکر الگ کیا جبکہ ایک ساتھ یہ لکھنا تھا کہ فلاں فلاں کے بعد ابھی فلاں ہیں۔
شکیل الرحمن کی سوانح آشرم کا ذکر انہوں نے کیا اور بتایا کہ اس میں 1955-56 تک کا ذکر ہے.انہوں یہ بھی لکھا کہ شکیل الرحمن نے جن بلندیوں کو چھوا اس کا ذکر نہیں کیا لیکن انہیں اس کی جانکاری نہیں مل سکی کہ میرے بار بار کہنے پر انہوں نے ایک کتاب … دربھنگا کا جو ذکر کیا … نام سے سوانحی لکھی اور اس کتاب کو میرے نام منسوب کیا.تقریبا 50 کاپیاں مجھے بھیجی لیکن اعجاز علی ارشد کو اس کتاب کا علم نہیں ہوسکا اس لئے وہ اس کا حوالہ نہ دے سکے..
جہاں تک ریحان غنی کا ذکر ہے ایک سہو یہ ہوا کہ نام جلی حرفوں میں الگ سے ہونا چاہئے تھا لیکن آپ کا تعارف بہت شاندار لفظوں کیا گیا…..
ہم عصر صحافیوں میں جو لوگ اب تک سرگرم کار ہیں ان میں سن پیدائش 2 مارچ 1952 کے اعتبار سے سر فہرست ریحان غنی ہیں .انہوں نے بہترین علمی اور تدریسی صلاحیتوں کے باوجود ملازمت کی جگہ صحافت کی راہ اختیار کی.مختلف اخباروں میں مختلف مضامین کے علاوہ کالم بھی لکھ رہے ہیں.اردو معلی کی ادبی خدمات کے نام سے ان کی ایک کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہے. بےباکی بے لوثی اور غیر جانب داری ان کے صحافتی رویے کی امتیازی خصوصیات ہیں.
اب ایماندری سے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اعجاز علی ارشد نے جس محبت سے آپ کے صحافتی صفات کا ذکر کیا ہے اس کی نفی آپ کی موجودہ تحریر سے نہیں ہوتی.
میں نے یہ محسوس کیا کہ آپ کو ان لوگوں کی کردار کشی کرنے میں تلذذ کا احساس ہوتا ہے جو قوم یا زبان کے لئے کچھ کار نمایاں کرتے ہیں. آپ نے وہاب اشرفی کے کردار کے چیتھڑے اڑائے جب وہ چیرمین یونیورسیٹی سروس کمیشن بنائے گئے. حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ مولانا غنی کے صاحبزادے کو بھی لکچرر بنانے کے خواہاں تھے.میں نے آپ کے تعاون سے اس کی بھرپائی کی کوشش بھی کی لیکن تب تک زہر اندر تک پھیل چکا تھا اس لئے کوئی چارہ نہ رہا.. میں نے جب بہار اردو اکادمی میں خواتین کی دوسری نشنل مجلس بلائی تو آپ نے پندار کے پہلے صفحے پر بلاک نیوز بنائی … نوری نے بہار اردو اکادمی میں بہو بازار سجایا ہے.یہ کون نہیں جانتا بہو بازار کولکتہ میں طوائفوں کا بڑی منڈی ہے یہ میری کردار کشی کے ساتھ مشہور قلم کار خواتین کے بےعزتی بھی تھی اس سےآپ کی سادیت پسندی جھلکتی ہے.اکادمی کی ایک مٹنگ میں وزیر عبدالغفور نے مجھ پر اپنی کھیج اتاری کہ ان کے دوستوں نے ان کے کان بھر دئے تھے. ایک ممبر نے نمک مرچ لگا کر فون کیا اور آپ نے ایسا نیوز بنایا گویا وزیر نے مجھے قتل ہی کردیا ہو.یہ بھی آپ کی ذہنی آسودگی کا سبب بنا. خیر میں تو اردو کا ایک چھوٹا پرزہ تھا لیکن آپ نے محترم عامر سبحانی کو بھی نہیں بخشا.
پروفیسر عبدالمغنی پر مونوگراف لکھتے وقت آپ نے ان کی رحلت کے وقت دو تین سو افراد کی موجودگی نماز جنازے میں شرکت کرنےپر بہت اداس رہے لیکن پھر آپ نے ایک لیڈی ڈاکٹر کی جنازے میں بے پناہ بھیڑ دیکھ کر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کوئی معروف ادیب شاعر یا سیاست داں نہیں تھیں وہ کوئی مشہور ڈاکٹر بھی نہ تھیں ان کا تشخص صرف یہ تھا کہ وہ ایک مشہور اور مضبوط آئی اے ایس آفیسر کی اہلیہ تھیں.آپ زبردست ذہنی بوجھ لیکر گھر آئے کہ مسلمان حق پرست ہوتا ہے وہ اپنے مخلصوں کو فراموش کرکے اقتدار کی پوجا کیوں کرتا ہے.الحاج غلام سرور کو بھی آپ نے نہیں بخشا اور لکھا کہ اگر ان کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہ ہوتا وہ وزیر نہ ہوتے تو ان کی میت میں پچاس آدمی بھی نہ ہوتے.یہ وہی غلام سرور ہیں جنہوں نے آپ کو سنگم سے وابستہ کر صحافت کی الف بے سکھایا تھا..مغنی صاحب پر لکھتے وقت آپ نے ان لوگوں کی کردار کشی کی جن کا تعلق اس مونوگراف سے نہ تھا.
آپ نے لکھا کہ مسلمان حق پرست ہوتا ہے وہ اقتدار کا پوجا کیوں کرتا ہے اس سلسلے میں ایک واقعہ اور قلمبند کردوں کہ بہار اردو اکادمی میں ایک پروگرام ہورہا تھا.ہال میں امتیاز کریمی صاحب موجود بھی نہیں تھے.میں نے نظامت کے فرائض آپ کو سوپا تھا اچانک آپ نے چیختے ہوئے فرمایا …. کیا کرینگے عبدالمغنی اور کیا کرینگے غلام سرور جو اکیلے امتیاز کریمی نے کر دیکھایا وہاں بہت سے لوگ ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے. ایسا کہنا اقتدار کی پوجا کرنا تھا یا سائیکو فینسی اس کا فیصلہ تو آپ کو ہی کرنا ہے. چونکہ میرے زمانے میں سارے پروگرام کی ویڈیو گرافی ہوتی تھی وہ سب آج بھی موجود ہے آپ اگر بھول گئے ہوں تو ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں.
ریحان غنی صاحب میں یہ بتاتا چلوں کہ ہر شخص اپنے حصے کا کام کرتا ہے .محترم عامرسبحانی نے مسلم قوم کے لئے جو کچھ کیا اس کی فہرست بہت طویل ہے. حج بھون سے بی پی ایس سی کے امتحان کے ذریعہ ہرسال پچیس پچاس لڑکے لڑکیاں ڈپٹی کلکڑ اور دیگر شعبوں کے آفیسر کے روپ میں بحال ہوتے ہیں یہ عامر سبحانی کی سوچ کا نتیجہ ہے.پولیس ڈرائیور داروغہ اور سپاہی کی پوسٹ بھی حج بھون کی تیاری کی وجہ کر بچے نکالتے ہیں.دیگر مقابلہ جاتی اکزام کے ذریعہ بھی ہر سال بحالی ہوتی ہے گزشتہ ایک سال میں مسلم لڑکیوں نے جج کے عہدے پر بھی کامیابی حاصل کی ایک ساتھ نو مسلم بچیاں جج کے عہدے پر فائز ہوئیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری رہےگا.کئی جگہ مسلم ہاسٹل چھ کڑوڑ سے زائد خرچ سے بنائے گئے.خود امتیاز احمد کریمی کے مدرسہ میں بھی چھ کڑوڑ کا ہوسٹل اور اتنی ہی رقم کے مدرسہ کی تعمیر ہوئی.یہ سب اکیلے جناب عامر سبحانی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جن کی ڈاکٹر غیر معروف اہلیہ کی میت میں بے پناہ بھیڑ سے آپ کو چڑھ ہوئی.
محترم آپ ایک سید گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں سسرال بلخیہ خاندان میں ہے یعنی خون کے اعتبار سے اعلی و عرفہ ہیں تو لوگوں کی کردار کشی کرکے تلذز حاصل کرنا آپ کے لئے زنا سے بھی بدتر ہے.سادات نسل کے لوگ فاقہ کشی اختیار کرتے ہیں.احسان فراموشی کردار کشی اور الزام تراشی ان کے خون میں شامل نہیں ہوسکتا.
آپ نے ایک خبر دی کہ بڑے ادیب کی ناقص کتاب .. پھر کمینٹ کو جوڑ کر دوسری نیوز جس میں ڈاکٹر سید احمد قادری کے کمنٹ کو اجاگر کیا اگر قادری اس کتاب کو پڑھے ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ اعجاز علی ارشد نے ان کی کتاب سے چار پاچ جگہ حوالے دئے ہیں تو شاید وہ ایسا کمنٹ نہیں کرتے.جہاں تک آپ کی اخبار سے وابستگی کا سوال ہے تو ان کا یہ کہنا کہ آپ قومی تنظیم سے وابستہ ہیں تو بات دراصل یہ ہے کہ قومی تنظیم میں دوچار چمکتے چہرے کم و بیش روزانہ نظر آتے ہیں ان میں آپ کا بھی چہرہ مبارک شامل ہوتا ہے اس سے ان کو مغالطہ ہوسکتا ہے.میرے خیال سے انہوں نے اپنی کتاب بہار کی بہار میں صحافت کے زمرے میں آپ کی پوری تفصیل لکھی تھی.
آپ کسی اخبار میں بہت دنوں تک وابستہ بھی نہیں رہتے.پندار نے جب آپ کا نام چیف ایڈیٹر کی طور پر دینا شروع کیا تو میں نے احسانی کو فون کرکے مبارک باد دی تھی کہ اس نے ڈاکٹر ریحان غنی کو صحیح جگہ دیکر ہمت کا کام کیا ہے لیکن کچھ دنوں بعد آپ کا نام ہی ہٹ گیا معلوم ہوا کہ آپ کی کسی تحریر سے احسانی کی سرکاری طور پر کلاس لگی اور انہیں آپ کا نام ہٹانا پڑا لیکن آپ کی تحریر کو عزت دی گئی.میں نے جب بھی کوئی نیوز بھیجی تو آپ نے شائع کیا.پھر اچانک آپ کی بدائی وہاں سے بھی ہوگئی پھر غالبا آپ عوامی نیوز کے ایڈیٹر بنے اور وہاں سے نکل کر تصدیق سے جڑے ہیں.
اخبار میں کام کرنے والے اپنے قلم کی دھار کبھی کبھی نہیں سنبھال پاتے تو مالک کا نقصان ہوجاتا ہے.
آپ جیسے بےباک صحافی کا ایک مقام ہے اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے لوگوں کی کردار کشی کرنا آپ کو زیب نہیں دیتا..حق گوئی اور کردار کشی میں بہت بڑا فرق ہے.آپ کی پہلی رپورٹ تلخ ہوتے ہوئے بھی چل سکتی تھی لیکن بار بار ایک ہی خبر الگ الگ طریقے پیلنا کردار کشی ہی کہلائے گی.
پروفیسر اعجاز علی ارشد میرے دوستوں میں ضرور ہیں لیکن اکادمی کے دوران بہت مسائل پر ان سے مجھے اختلاف ہوا مجھے چپ اسلئے رہنا پڑا کہ عہدے کے لحاظ سے مجھ سے بڑے تھے، لیکن دل میں کوئی بات نہیں رکھی. وہ بہت دنوں سے پٹنہ سے باہر ہیں اس لئے ملاقات بھی نہیں ہوئی وہ جواب دینے سے رہے.مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ لاکھوں روپیہ ہضم کرنے کا الزام لگاتے وقت اسلم جاوداں سے ہی پوجھ لیتے کہ اردو ڈائرکٹریٹ نے مصنفوں کو کتنی رقم دی ہے کہ وہ اس پورے پروجکٹ کا حصہ رہے ہیں اور محترم کریمی صاحب کے دست خاص بھی رہے ہیں.آخر میں ایک بات یاد آ گئی کسی نے لکھا تھا کہ لاکھ اختلاف کے باوجود اپنے گھر کے شیر کو کبھی مت مارو ورنہ ارد گرد کے کتے تمیں نوچ ڈالینگے. آپ کو ہمیشہ چھوٹا بھائی سمجھتا رہا ہوں گوکہ آپ سے دوبرس بڑا ہوں آئندہ بھی یہ رشتہ بنا رہے گا۔
ہم اپنی بات کہ گئے دل کو سکون مل گیا
سخن شناس لفظ کا مزاج بھانپتے رہیں
کہیں کوئی تلخی ہوگئی ہو تو معذرت قبول فرمائیں.