Site icon

مولانا محی الدین ساتن پوری: ایک بافیض عالم دین

✍️ محمدقمرعالم ندوی

استاد مدرسہ احمدیہ ابابکرپور،ضلع ویشالی

______________________

ریاست بہار کا ایک اہم شہر"حاجی پور”ہے۔ کہاجاتا ہے  کہ اس شہر کو جناب الحاج محمد الیاس نے بسایا تھا،تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی شہر حاجی پور مدارس و خانقاہ اور اہل دل کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا،لیکن جب ظالم حکمرانوں کا اس ملک  ہندوستان پر مکمل تسلط ہو گیا تو دیگر مقامات کی طرح شہر حاجی پور بھی اس سے محفوظ نہ رہا، مسلمانوں کے دینی حالات خراب ہونے لگے اور اسلامی تعلیمات سے دوری عام ہونے لگی،مولانا طاہر حسین انصاری لکھتے ہیں:
        "آج جب کہ ہر قوم اپنے مذہبی اشاعت میں سرگرداں اور کلچر کی حفاظت میں پریشان نظر آتی ہے،مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علاقہ میں سب ڈویژن حاجی پور کی مسلم آبادی میں اکثر و بیشتر اسلامی تعلیمات سے بالکل نابلد ہیں،جس کی وجہ نہ صرف یہ ہے کہ ان اطراف میں اسلامی درسگاہیں نہیں ہیں،بلکہ غریب و نادار مسلمان کے بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کا بہتر انتظام بھی نہیں ہے”۔
              انہیں حالات میں اللہ نے اصلاح قوم ملت کے لیے ایک عظیم مصلح،جید عالم دین،شعلہ بیاں مقرر،مفسر قران،ماہر علم الفرائض کو یہاں بھیج دیا،جن کو دنیا "حضرت مولانا محی الدین ساتن پوری ثم حاجی پوری” کے نام سے جانتی ہے۔
           مولانا کی پیدائش دو اکتوبر 1912 کو ضلع سمستی پور کی مشہور بستی "ساتن پور”میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی،اعلی تعلیم کے لیے مشہور زمانہ مدرسہ عزیزیہ بہار شریف تشریف لے گئے اور مشہور علماء کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا،اس طرح 1932ء میں مولانا کے سر پر دستار فضیلت باندھی گئی۔
     فراغت کے بعد مولانا نے تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ اسلامیہ شاہ پور بگہونی ضلع سمستی پور سے کیا۔
        اسی دوران مولانا نے تین شادیاں کیں، جن میں پہلی شادی "ساتن پور” میں ہوئی،ان سے ایک لڑکی رابطہ خاتون تولد ہوئی،ان کے انتقال کے بعد دوسری شادی ایلوتھ بکھری ضلع سمستی پور میں ہوئی،جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی،ان کے انتقال کے بعد آپ نے تیسری شادی شہر حاجی پور کے محلہ مقصود پور نون گولہ کے معزز گھرانہ جناب محمد حنیف کی دختر نیک اختر بی بی آمنہ خاتون سے کی۔
     شادی کے بعد مولانا کی آمد و رفت حاجی پور سے کافی بڑھ گئی اور آپ کا فیض جاری و ساری ہونے لگا، جگہ جگہ میلاد کی مجلسوں اور جمعہ کے خطبوں میں مولانا کو بلایا جانے لگا۔
ایک بار کا واقعہ ہے، "مولاناساتن پوری”اپنے سالہ جناب مقبول احمد صاحب کی معیت میں شہر حاجی پور کے ایک پنچایت میں شریک ہوئے اور ایک گوشے میں خاموش بیٹھے رہے، پنچائت کافی بحث و مباحثہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ لڑکا لڑکی کو طلاق دے دے،اور لڑکے پر زور دیا گیا کہ آپ لڑکی کو طلاق دے دیجئے پھر تو مولانا کی عالمانہ بصیرت بیدار ہو گئی اور موصوف نے اپنی خاموشی کا بندھن توڑتے ہوئے مجمع سے دو چند باتیں کرنے کی اجازت چاہی اور ایک مختصر سی بصیرت افروز تقریر کی،اپ نے فرمایا:
"شریعت پسندو! تمہارے نبی کی شریعت اتصال چاہتی ہے،انفصال نہیں اور طلاق انضمام کے بندھنوں کے لیے مقراض ہے،سنو!جب اتصال کے سارے راستے مسدود ہو جاتے ہیں تو بدرجئہ مجبوری ابغض المباحات طلاق پر عمل کیا جاتا ہے۔لہذا عجلت کے طلاق دلوانے سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے جبکہ اس پنچائت میں اتصال اور میل ملاپ کی کوشش تو دور کی بات،یہ بھی نہیں سمجھایا گیا کیا خود بنفس نفیس لڑکی طلاق یا خلع چاہتی ہے یا نہیں یا لڑکی کے خویش و اقارب کے کہنے پر ہی طلاق دلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے،مولانا کی مدلل اور پرمغز تقریر کی تلوار نے اہل مجمع کی آنکھوں پر پڑے دبیز پردے کو چاک کر ڈالا اور لوگ لڑکی کو بلا کر حالات سے اگاہ ہونے پر راضی ہو گئے پھر لڑکی پردے کا لحاظ کرتے ہوئے بلوائی گئی، مولانا نے کہا: پوچھا جائے اگر لڑکی طلاق چاہتی ہے تو طلاق دلوا دی جائے ورنہ اسی مجمع سے لڑکی لڑکے کے حوالے کر دیا جائے،پوچھا گیا کیا،تم طلاق چاہتی ہو اور اپنے شوہر کے گھر جانا نہیں چاہتی ہو، یہ سننا تھا کہ زوجین بے اختیار ہو گئے اور بے ساختہ دونوں کے دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، اہل مجمع نے سمجھ لیا کہ طلاق کا مطالبہ لڑکی کی جانب سے نہیں اس کے اقارب کی جانب سے ہو رہا تھا،پھر لڑکی لڑکا کے حوالے کر دی گئی جو بعد میں صاحب اولاد ہو کر اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں تک رشتہ ازدواج میں منسلک رہے،اس طرح مولانا کے مدبرانہ فیصلے سے ایک گھر اجڑتے اجڑتے بچ گیا”۔
           مذکورہ فیصلے اور مدبرانہ،واعظانہ صلاحیت اور قضیے کے حل کے ذریعے مولانا کی شہرت اور مقولیت عوام میں روز بروز برڑھنے لگی اور لوگوں کا اصرار ہوا کہ آپ شہر حاجی پوری میں ہی رہیں،آپ نے زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھا اور یہاں کی سکونت پر راضی ہوگئے۔اولا مولانا نے حاجی پور کے محلہ نون گولا ایس ڈی او روڈ میں کرائے کا مکان لیا،پھر دھیرے دھیرے اس مکان کو خرید لیا اور باضابطہ سکونت اختیار کر لی،اس طرح مولانا مرحوم ساتن پوری سے حاجی پوری ہو گئے۔
          مولانا نے قیام حاجی پور کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ لوگوں کو جمع کیا،علم کی اہمیت پر پرمغز تقریر کی اور پھر ایک مدرسہ کے قیام کا فیصلہ لیا،مدرسہ قائم ہوا اور "اصلاح المسلمین” نام رکھاگیا،مولانا نے عوام و خواص کی اصلاح میں پوری توانائی اور قوت صرف کر دی،آپ صدرمدرس مقرر ہوئے،تعلیمی سلسلہ شروع ہو گیا،آپ نے محنت کی،مشقت اٹھائی،ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا،تعلیمی بیداری مہم چلائی اور مدرسہ کی ترقی اور قوم و ملت کے فلاح و کامرانی کے لیے تقریریں اور تحریریں دونوں طرح سےکدو کاوش کرتے رہیے،مولانا کی ایک تحریر پیش خدمت ہے۔
              "مدرسہ اصلاح المسلمین حاجی پور’ کے علمی خدمات آپ پر ظاہر ہیں،یہ مدرسہ نہایت ہی استقلال و خاموشی کے ساتھ اپنے فرائض مذہبی کی انجام دہی میں مصروف ہے،مکروہات زمانہ سے یہ مدرسہ بھی محفوظ نہیں ہے،اس کی مالی حالت بھی کمزور ہے،یں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس علمی درسگاہ کو نقصان پہنچے اور بعد میں مسلمانوں کو اپنی غفلت پر افسوس کرنا پڑے۔لہذا آپ کے اخلاق کریمانہ سے قوی امید ہے کہ مدرسہ کی امداد میں کافی حصہ لے کر نیز اپنے حلقہ اثر میں کوشش بلیغ فرما کر شکر گزار بنائیں گے”۔
       یہ وہ دور ہے جب ہمارا ملک ہندوستان غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہو کر 15 اگست 1947 کو مکمل طور پر آزاد ہو گیا اور پورے بہار میں کم و بیش 500 مکاتب "بی ایم سی مکتب” کے نام سے قائم ہوئے،اور یہ مدرسہ اصلاح المسلمین بھی بی ایم سی مکتب میں تبدیل ہو گیا،مولانا مرحوم اسی مکتب میں بحیثیت صدرمدرس تدریسی خدمات انجام دیتے رہے،مولانا پوری طرح چاق و چوبند اور اپنے مشن کی تکمیل میں سرگرداں تھے کہ دوران ملازمت اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے20 دسمبر 1965 کو مالک حقیقی کا بلاوا آگیا اور آپ  نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا،یہ خبر بجلی بن کر گری،لوگوں کا تانتا بندھ گیا،ہر طرف سناٹا چھاگیا،لوگ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کر رہے تھے،پسماندگان سے اپنی ہمدردی کا اظہار کر رہے تھے،جنازہ تیار ہوا، چوک جامع مسجد حاجی پور کے امام و خطیب مولانا عبدالمنان قاسمی دربھنگوی نے نماز جنازہ پڑھائی،اس طرح "مولانا” شہزاد پور اندرقلعہ،حاجی پور کے گور غریباں میں ہمیشہ کے لیے سو گئے۔ آپ سے فیض پانے والے طلباء میں اکثر و بیشتر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے،ان میں چند شاگردوں کے نام ذیل میں درج ہیں کیے جا رہے ہیں۔۔ پروفیسر غلام غوث ایم ایل سی،سکندر حیات سابق پیش کار ضلع جج،فرمان انصاری، معین الدین انصاری،محمود عالم سردار نون گولہ،نسیم الدین احمد صدیق ایڈوکیٹ،حیدر علی سابق چیئرمین نگر پریشد حاجی پور، الحاج محمد شمش الدین نون گولہ،انور الحسن وسطوی،مولوی رمضان علی نون گولہ،نعمت اللہ انصاری مقصود پورہ۔
مولانا مرحوم وقت کے بڑے پابند تھے، آپ کے رفیق کار اور معاون مدرس جناب مولوی رمضان علی صاحب کا بیان ہے۔ 
       "موصوف اپنی ڈیوٹی اتنی لگن اور دلچسپی سے کیا کرتے تھے کہ وقت سے پہلے ہی ساڑھے نو بجے اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو جایا کرتے اور اسکول کھلنے کے وقت تک قرآن پاک کی تعلیم دیتے اور مجھ کو اکثر ہی سمجھایا کرتے کہ قوم کے بچوں کا پورا پورا خیال رکھیے گا کیونکہ آدمی دنیا والوں کی آنکھ میں دھول جھونک سکتا ہے لیکن اوپر والے خدائے ذوالجلال کی نگاہوں سے خود کو بچا نہیں سکتا”۔
   ودیالے اور نرکچھک حاجی پور، مظفر پور نے مولانا کی سروس بک پر تحریر کرتے ہوئے لکھا:
۔      "مولوی شری محی الدین ایک بہت ہی نیک اور ایماندار شکچھک ہیں اور ان کی شرافت اعلی درجے کی ہے”۔
    مذکورہ شواہد اس پردال ہیں کہ مولانا نہایت محنت کش،وقت کے پابند،قوم و ملت کی تئیں ہمدرد،مخلص،منکسر المزاج، بافیض عالم دین، اور اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے۔
      آپ کے ایک مشہور شاگرد مجاہد اردو جناب انوار الحسن وسطوی لکھتے ہیں۔
   "مولانا محی الدین صاحب ایک باصلاحیت عالم دین اور شعلہ بیان مقرر تھے،ان کی تقریر اصلاحی نوعیت کی ہوتی تھی، مسلکی اور اختلافی باتوں سے گریز کرتے تھے، ان خوبیوں کی بنا پر ان کی تقریر ہر خاص و عام میں پسند کی جاتی تھی، شہرحاجی پور کے علاوہ گرد و نواح اور دیہی علاقوں میں بھی اکثر تقریری پروگرام میں مدعو کیے جاتے تھے،ایک اچھے اور مصلح پسند مقرر کی حیثیت سے مولانا پورے علاقے اور جوار میں مشہور و مقبول ہو گئے تھے،حاجی پور کی مسجدوں میں انہیں اکثر جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرنے کا موقع ملتا تھا،عمرکے اخیر حصے میں جامع مسجد پوکھرا حاجی پور میں جمعہ کی امامت فرمانے لگے تھے” 

مولانا مرحوم شہر حاجی پور کے علاوہ علاقے کا بھی دورہ کیا کرتے تھے،اس وقت کے اہل دل علماء و مشائخ سے تعلق رکھتے تھے،ان کے یہاں جا کر حالات پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے،استاذ محترم مخدومی و مربی حضرت مولانا سید مظاہرعالم قمر شمسی سابق پرنسپل مدرسہ احمدیہ ابابکرپور ضلع ویشالی اپنے مضمون "مولانا محی الدین ساتن پوری: ایک گوہر نایاب” میں تحریر فرماتے ہیں۔
۔         "ایک بار میں نے والد محترم سے پوچھنے کی ہمت کی کہ یہ کون آدمی ہین؟ جو برابر آپ سے ملنے آتے ہیں۔والد مرحوم نے بتایا کہ یہ مولانا محی الدین ساتن پوری ہیں،یہ ایک مستند اور باصلاحیت عالم،قوم و ملت کے ہمدرد،متحرک و فعال،اعلی درجے کے خطیب اور مقرر،متقی اور پرہیزگار آدمی ہیں۔
(بحوالہ روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ)
    مولانا کے شاگردوں میں انسان تو انسان جنات بھی ہوا کرتے تھے،مولانا کے نواسی داماد مولانا طاہر حسین انصاری اپنے مضمون "مولانا محی الدین مرحوم ساتن پوری ثم حاجی پوری”میں رقم طراز ہیں۔
           جناب ماسٹر محی الدین احمد چک پھول نے اپنے دادا مرحوم کے حوالہ سے بیان کیا کہ دادا موصوف کہا کرتے تھے ایک مکان کی عمارت بار بار بنانے کے بعد خود بخود منہدم ہو جایا کرتی تھی لوگ مولانا سے ملے،مولانا نے اس گھر کا حصار کر دیا،بادہ رات میں مولانا کو ان کی چارپائی کے ساتھ جناتوں نے بحالت خواب اٹھا کر ایک تالاب کے کنارے پہنچا دیا،مولانا نیم خوابی کی حالت میں آئے تو سنتے ہیں کہ کوئی کہہ رہا ہے۔”انہیں چھوڑ دو، ہمارے ساتھ کچھ بھی کیے عالم دین تو ہیں قابل قدر ہیں اس نے کہا میں تکلیف نہ پہنچاؤ جانے دو استاد ہیں،اس طرح جب پوری طرح بیدار ہونے کے بعد جناتوں نے دلاسا دیا،گھبرائیے نہیں ہم لوگ آپ کا کچھ بھی نقصان نہیں کریں گے،ہم لوگ اس زمین پر بستے ہیں،جہاں آپ نے ہم لوگوں کو جانے سے روکا ہے،ہمارے لیے کوئی سبیل پیدا کر دیجیے،آخر کار مولانا نے گھر والوں کو نقصان نہ پہنچانے کا وعدہ لے کر زمین پر واقع ایک درخت گلابی کو بچا کر مکان بنانے کا اشارہ دیا پھر مکان اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔
    اللہ نے مولانا مرحوم کو روحانی و معنوی اولاد کے علاوہ حقیقی اولاد سے بھی نوازا جن میں تین صاحبزادے ماسٹر محمد امین الدین انصاری،ماسٹر الحاج محمد منیر الدین انصاری،ماسٹر محمد عظیم الدین انصاری اور چار صاحبزادیاں رابعہ خاتون (زوجہ منشی غلام رسول رح)،فاطمہ خاتون( زوجہ ماسٹر اختر حسین رح)،صابرہ خاتون( زوجہ مولوی علی احمد رح)،طاہرہ خاتون (زوجہ حافظ محمد مرتضے انصاری) ہوئیں،ساری اولاد ماشاءاللہ مہذب اور نیک سیرت ہیں۔
     میری نظر میں مولانا مرحوم کے ایک صاحبزادہ ماسٹر محمد عظیم الدین انصاری والد کے نقش قدم پر ہیں کچھ زیادہ ہی ہیں ضلع ویشالی کے ہر ملی و فلاحی اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور آگے آگے نظر آتے ہیں،خواہ کیسی،بھی کتنی بھی مشقت اٹھانی پڑے دور دور تک سائیکل ہی کی سواری کر لیتے ہیں کار خیر میں کسی لومت لائم کی فکر نہیں کرتے،صبر و تحمل کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
اللہ تعالی "مولانا ساتن پوری” کو کروٹ کروٹ سکون نصیب فرمائے اور ہم سبھوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین یا رب العالمین

Exit mobile version