شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
____________________
خبرگرم ہے کہ چندی گڑھ کے ائرپورٹ پر بی جے پی کی نومنتخب ایم پی اداکارہ کنگنارناؤت کے گال پر ایک لیڈی سیکوریٹی کانسٹبل کلویندر کور نے تھپڑّ جڑدیا ۔ لیڈی کانسٹبل کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا ۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے ، لیکن ساتھ ہی عبرت ناک بھی ۔ لیڈی اہلکار مضبوط قد کاٹھی کی تھی ، لہٰذا اس کے تھپڑّ سے کنگنارناؤت کے گال سُرخ ہوگیے ہوں گے ،لیکن ساتھ ہی انہیں یہ سبق بھی مل گیا ہوگا کہ کسی کے خلاف بے تکی باتیں بولنے کا انجام اچھا نہیں ہوتا ۔ سوال یہ ہے کہ لیڈی سیکوریٹی کانسٹبل نے کنگنارناؤت کو تھپڑّ کیوں مارا؟ کیا اسے یہ نہیں پتا تھا کہ کنگنارناؤت اب صرف ایک اداکارہ نہیں رکن پارلیمنٹ بھی ہیں اور وہ بھی بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ اور ان کے سرپر کسی اور کا نہیںجلد ہی تیسری باروزیراعظم بننے والے نریندر مودی کا ہاتھ ہے ؟ کیا لیڈی کانسٹبل کو یہ اندازہ نہیں کہ اس تھپڑّ کی گونج اس کے خلاف کارروائی میں سنائی دے گی ، اسے معطل یا برخاست کیا جاسکتا ہے ؟ یقیناً کوئی ایسا سبب رہا ہوگا جس نے لیڈی کانسٹبل کو اس قدر مشتعل کردیا کہ اس نے احتیاط کا دامن چھوڑ کر کنگنارناؤت پر ہاتھ اٹھا دیا ۔ کلویندر کور کو معطل کردیا گیا ہے ، اور سی آئی ایس ایف افسران کی ایک انکوائری کمیٹی سارے معاملے کی جانچ کے لیے تشکیل کردی گئی ہے ۔ یعنی تھپڑّ جڑنے کے لیے اسے سزا دینے کی کارروائی شروع ہوگئی ہے ۔ بلاشبہہ کلویندر کور کا تھپڑّ مارنا افسوسناک عمل ہے ، لیکن کنگنارناؤت کو جس جملے کے لیے تھپڑّ پڑا ہے ، وہ جملہ بھی انتہائی افسوسناک تھا۔ 2020 میں جب ملک کے کسان احتجاج کررہے تھے تب کسانوں کے احتجاج میں خواتین بھی شامل تھیں ، ان ہی میں کلویندر کور کی بوڑھی ماں بھی تھی۔ کنگنارناؤت نے اس موقع پر ایک ضعیفہ کوشاہین باغ کی دادی ، بلقیس بانو سمجھ کر سوشل میڈیا پر ایک انتہائی غلیظ جملہ پوسٹ کیا تھا ’ یہ 100روپئے میں ملتی ہیں!‘ اُس زمانے میں بھی اس جملے پر بہت ہنگامہ ہوا تھا، لوگوں نے کنگنارناؤت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا اور کنگناکو اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی تھی۔ لیکن کہتے ہیں کہ کبھی کبھی کوئی بات ، کوئی جملہ تیر کی طرح جاکر لگتا ہے ۔ کلویندر کور نے اس جملے کو 2024ء تک اپنے حافظے میں محفوظ رکھا اور اگر خبروں کی مانیں تو اسی جملے کے لیے اس نے کنگنارناؤت کو تھپڑّ جڑا ۔ کسانوں کے احتجاج کو کنگنارناؤت نے دہشت گردی اور خالصتان تحریک سے بھی جوڑا تھا۔ اور اب تھپڑّ کھانے کے بعد انہوں نے پھر کہا ہے کہ پنجاب میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے ۔ یعنی انہیں تھپڑّ پڑا تو سارا پنجاب ان کی نظر میں دہشت گردوں سے متاثر ٹھہرا! کنگنارناؤت کے ایسے ہی بیانات انہیں پریشانی میں ڈالتے ہیں ۔ کنگنارناؤت نے شاہین باغ میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف خواتین کے احتجاج پر بھی بے تکا بیان دیا تھا، اداکارہ ارمیلا ماتونڈکر کو ’پورن اسٹار‘ کہا تھا ، ممبئی شہر کے خلاف منفی بیان دیا تھا ، جس پر شیوسینا پرمکھ ادھوٹھاکرے اور سنجے راؤت سے ان کی نوک جھونک ہوئی تھی، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی پر ’ نفرت پھیلانے‘ کا الزام عائد کیا تھا ۔ ان کا ایک غلیظ بیان یہ بھی تھا کہ ملک 2014 میں حقیقی طور پر آزاد ہوا ہے ۔ انہوں نے 1947ء میں ملی آزادی کو ’ بھیک‘ میں ملی آزادی کہا تھا ، جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا کیونکہ اس جملے کا مطلب تھا کہ پنڈت نہرو ، مہاتما گاندھی ، بھگت سنگھ وغیرہ وغیرہ سب نے بھیک مانگ کر آزادی لی تھی اور حقیقی آزادی 2014ء میں مودی نے دلوائی ! کنگنارناؤت کو اب اس تھپڑّ کے بعد اپنی زبان پر قابو رکھنا سیکھ لینا چاہئے۔ کیونکہ بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی کہہ دینے کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نہیں نکلتا ۔