✍️مفتی ناصرالدین مظاہری
________________
ویسے تو کسی کےمنہ کے پاس منہ لے جا کر بات کرنا ہی خلاف ادب و تہذیب ہے، آپ بھلے ہی اپنے منہ کی بدبو کو محسوس نہ کرسکتے ہوں لیکن کسی اور سے پوچھ کر دیکھئے ساری خوش فہمی دور ہوجائے گی۔اوپر سے صاحبان حقہ و پان کا بیان اف بقول عبدالرحمن احسان دہلوی:
بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب
یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا
میں خود اپنے ساتھ بیتے واقعات لکھنا شروع کروں تو مضمون طویل ہوجائے گا،آپ کو بھی کسی نہ کسی موقع پر سابقہ اور واسطہ ضرور پڑا ہوگا، میرے ایک استاذ تھے وہ پان کے شوقین تھے، دوران تدریس پان کھا لیتے تھے اور درسی تقریر کرتے رہتے تھے، ان کے زیر درس جو کتاب تھی وہ گل و گلزار تھی، صفحات پر جگہ جگہ پان کے سرخ دھبے نظر آتے تھے۔ بارہا ایسا ہوا کہ میری ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوگئی جو پان یا گٹکھا کھائے ہوئے تھا، ایسے لوگ جب بات کرتے ہیں تو عموما اپنا منہ تھوڑا سا اوپر کرکے بات کرتے ہیں تاکہ ان کے منہ میں پان کی پیک موجود رہے، دوران گفتگو اس بندے کےمنہ سے اچھل اچھل کر پان پڑیا کے ننھے ننھے قطرے اور ذرات میرے چہرہ اور میرے کپڑوں پر اپنے وجود باجود کے نقش و نقوش چھوڑ رہے تھے، میں چونکہ الحمدللہ ان چیزوں کا شوق نہیں رکھتا اس لئے طبیعت میں تکدر پیدا ہوتا رہا، یقین جانیں کئی مرتبہ کرتا بدلنا پڑچکا ہے کیونکہ اب پہننے کے لائق نہیں رہا تھا۔ میر تقی میر کہتے ہیں:
جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر
کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر
پان میں گٹکھے اور حقہ جیسی بدبو بھی نہیں ہوتی ہے لیکن تعجب ہوتا ہے کہ گٹکھا کھا کر یا حقہ پی کر لوگ بے تکلف مسجد پہنچ کر نماز میں شامل ہوجاتے ہیں حالانکہ جب تازہ پیاز اور لہسن کھا کر مسجد میں آنے سےمنع فرمایا گیا ہے تو حقہ اور گھٹکھا بھی اپنی بدبو کی وجہ سے اسی زمرے میں شامل ہے۔ سنا ہے کہ بہت سے لوگ تو پان کھا کر سو بھی جاتے ہیں، منہ صاف کرنے کی بھی توفیق نہیں ملتی ہے۔
ویسے قرآن کریم میں ایک آیت ہے "لاتلقوا بایدیکم الی التھلکۃ” اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو، اس حکم کی روشنی میں ہمیں اس پہلو پر ضرور دھیان دینا چاہئے کہ پڑیا، گٹکھا وغیرہ کھانے سے انسانی صحت پر کوئى منفی اثرات تو نہیں پڑتے ہیں اگر پڑتے ہیں جیسا کہ تمام ہی حکماء اور ڈاکٹر بتاتے ہیں تو علماء کرام سے پوچھنا چاہئے کہ یہ چیز حکم خداوندی کی مخالفت میں شمار ہوتی ہے یا نہیں۔
بے شمار واقعات ایسے پیش آتے رہتے ہیں کہ گٹکھے میں کبھی چھپکلی کا سر ملا، کبھی اس کی دم ملی، کبھی کچھ اور چیز ملی جو انسانی صحت کے لئے زہر ہے پھر بھی لوگ مانتے نہیں ہیں، تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ گٹکھے میں بعض ایسی چیزیں ملائی جاتی ہیں جو منہ کے اندر کچھ ایسے زخم بنادیتی ہیں جو رفتہ رفتہ لاعلاج بیماری میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
میں ایک دکان پر کھڑا تھا، وہ چھالی کاٹ رہا تھا، بعض چھالیاں بہت ہی خراب نکل رہی تھیں جن کو وہ ایک طرف ڈال رہا تھا میں نے کہا کہ اس طرح تو تمہارا نقصان ہوجائے گا، کہنے لگا نشہ والی چیزوں میں کسی کو کبھی نقصان نہیں ہوتا پھر خود ہی اس نے بتایا کہ ہمارے پاس گٹکھا کمپنی والے لوگ آتے ہیں ساری سڑی گلی چھالیاں خرید کرلے جاتے ہیں اور وہ ان کو پڑیا وغیرہ کے مسالے میں ملا دیتے ہیں، پڑیا والے لوگ اگر مسالہ دیکھ کر کھائیں تو آدھی سے زیادہ چھالیاں خراب نکلیں گی لیکن وہ تو پڑیا کھولتے ہی منہ میں ہیں۔
ایک بزرگ پان کے شوقین تھے، اگالدان بھی رکھتے تھے، اگالدان میں ان کی پورے دن یا کئی دن کی محنت اور پان کی محبت جمع رہتی تھی، ہم جیسے بے پان والے ان کے پاس سانس لینے میں بھی دقت محسوس کرتے تھے کیونکہ پان کی "خوشبو” پورے کمرے میں رچی بسی رہتی تھی۔
پان تو ہمارے استاذ حضرت مفتی مظفرحسین بھی کھاتے تھے لیکن مجال ہے پان کا اثر ان کے ہونٹوں یا ان کے کپڑوں تک پہنچے، درس ترمذی سے پہلے منہ کو خوب صاف کرتے تھے، بہت سے لوگ تو پان کھا کر تقریر بھی کرلیتے ہیں، ایک صاحب تو منہ میں پان رکھے رکھے چائے نوشی بھی کرلیتے تھے۔
میں کوئی عدم جواز کا فتوی نہیں دے رہا بس عرض یہ کرنا ہے کہ گٹکھا اور پان آپ کھاتے ہیں تو اسکا نقصان صرف آپ ہی اٹھائیں دوسروں کی تکلیف کا باعث تو نہ بنیں۔