اسلام میں مزدوروں کے حقوق

✍️محمد شہبازعالم مصباحی

اسسٹنٹ پروفیسر،سیتل کوچی کالج
سیتل کوچی،کوچ بہار، مغربی بنگال

______________________

مزدور – انسانی معاشرہ کا ایک حساس، ذمہ دار اور محنت کش طبقہ جسے اگر ظاہری اسباب کے طور پر دنیاوی حسن کا تخلیق کار اور نظام دنیا کے اعتدال کا حقیقی سبب قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ دنیا میں تعمیر کا کوئی ایساپہلو یا حسن و جمال کا کوئی ایسا منظر نہ ہوگا، جس میں ان کے دستِ صنعت کی جلوہ گری نہ ہو۔ دور نہیں ’’جنت نشان ہندوستان‘‘ ہی کی سرزمین پر حسن و جمال کا شاہکار نمونہ ’’تاج محل‘‘ انہی کے جذبۂ تعمیر کی تسکین ہے، سرخ و آہنی پتھروں کی فصیل سے بنا ’’لال قلعہ‘‘ انہی کے ہنر و کاری گری کا ایک خوبصورت اظہار ہے، دنیا کے ساتوں عجائب، جو اپنے روز ایجاد ہی سے تعجب بھری داستانیں بیان کر رہے ہیں، یہ انہی کی کوششوں کے تراشیدہ ہیں۔ غرض فرش زمین پر جو کچھ دلکشی و دلربائی اور رعنائی و زیبائی ہے، سب میں، ان کی محنت و مشقت کی حصہ داری ہے اور ان کی تراش خراش سے نکھرا ہر منظر اتنا پرکشش و متناسب لگتا ہے کہ بقول شاعر :
دامن دل می کشد کہ جاایں جا است
اس صد ہزار رنگ عالم اسباب میں مزدوروں کا رنگ سببیت صرف اتناہی نہیں ہے کہ اسے پھیکا قرار دیا جائے، بلکہ یہ نہایت ہی گہرا ہے، کیوں کہ ان کے احسانات تو گھنیرے بادلوںکی شکل میں ہر فرد انسانی ، حیوان، جنگل و بیان اور بنجر زمین پر برسے ہیں اور برس رہے ہیں۔ یہ ہری بھری اور لہلہاتی فصلیں، بود وباش کے لیے یہ شاندار مکانات اور فلک بوس عمارتیں، یہ برق رفتار دنیا اور جانب منزل بحسن و خوبی رواں زندگی کے دیگر شعبے، یہ کشادہ اور لمبی سڑکیں، ضروریات زندگی سے بھرے یہ بارونق بازاریں اور یہ خوبصورت و تراشیدہ باغات و جنگلات سب کے سب، مزدوروں کے رہین منت ہیں۔
لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جو طبقہ انسانی معاشرے کے لیے اتنا نفع رساں رہا ہے، اسے ہمیشہ ظلم و ستم اور جارحیت و سفاکیت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شداد، نمرود اور فرعون کا زمانۂ حکومت تو مزدوروں کے استحصال کا وہ سیاہ دور ہے، جس کی مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ یونہی ساہوکاروں، زمین داروں اور سرمایہ داروں نے بھی اپنے اپنے دور میں ایسے بے شمار لوگوں کو اپنی زر پسندی و نفع اندوزی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا ہے، جن کا کل سرمایۂ حیات ان کی محنت و مزدوری تھا۔
اسلام کی آمد سے پہلے سرزمین عرب میں بھی محنت کش اور مزدور افراد کو سماج و معاشرے میںکوئی مقام حاصل نہ تھا، اہل عرب بالخصوص اہل مکہ کے یہاں، محنت و مزدوری کرناباعث ننگ و عار سمجھا جاتا تھا۔ اہل مکہ مزدورں کی خدمتوں سے فائدہ اٹھانے کے باوجود انہیں ہمیشہ ذلت و حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھتے تھے اور اپنی نفر ت و حقارت کا اظہار کرنے کے لیے محنت و مشقت کے کاموں اور پیشوں کے لیے مھنۃ،مھین اور مبتذل جیسے لفظوں کا بکثرت استعمال کرتے تھے ۱؎ اور اس غرور و جاہلیت میں مبتلا تھے کہ شرف و عظمت کے مستحق، صرف وہی ہیں، جو اجرت و معاوضہ دے کر دوسروں سے کام لیتے ہیں اور خود کچھ نہیںکرتے۔
محنت کش افراد سے اہل مکہ کے تعصب و نفرت کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ شمیم طارق کی کتاب ’’شرف محنت و کفالت‘‘ میں ہے۔
’’جنگ بدر میں معاذ بن عمرو بن جموح اور معوذ بن عفراء نے اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل کو قتل کرنے کے ارادے سے بری طرح زخمی کر دیا تھا اور وہ زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا، مگر دوسروں کو خبر نہیں تھی کہ وہ کس حال میں ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسے تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھے تو وہ اس حال میں ملا کہ بس سانس چل رہی تھی۔
آپ نے اس کی گردن پر پاؤں رکھ کر، سر کاٹنے کے لیے اس کی داڑھی پکڑی ہی تھی کہ اس نے بڑی حسرت سے پکارا کہ ’’اے کاش! مجھے کسانوں کے علاوہ کسی اور نے قتل کیا ہوتا؟‘‘
اور پھر عبد اللہ بن مسعود کو مخاطب کرکے جن کا پاؤں اس کی گردن پر تھا، کہا کہ ’’او بکری کے چرواہے! تو بڑی اونچی اور مشکل جگہ چڑھ گیا ہے‘‘
یعنی ابو جہل، نسبی و نسلی غرور جس کی گھٹی میں پلا ہوا تھا، آخری ہچکی کے وقت بھی موت کا نہیں بلکہ اس بات کا افسوس کر رہا تھا کہ اس کو قتل کرنے والے اس کے ہم رتبہ نہیں ہیں، کیوں کہ معاذ و معوذ کا تعلق انصار مدینہ سے تھا جو زراعت پیشہ تھے اور عبد اللہ بن مسعود مکہ میں بکریاں چراتے تھے‘‘
اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دنیا کارگاہ فکر و عمل ہے، جس میں جمود و تعطل کو بالائے طاق رکھ کر، جائز حرکت و عمل کے ذریعہ پاکیزہ سامانِ رزق اور سامانِ آخرت اکٹھا کرنا اسلام کی نگاہ میں محبوب و مطلوب ہے، اس لیے یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ عمل کے خوگر مزدوروں کو اسلام کے دامن رحمت میں جگہ نہ ملتی اور ان کی قدر افزائی نہ کی جاتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے اپنی تبلیغ کے روزِ آغاز ہی سے محنت کش مزدوروں اور غریبوں کو گلے لگایا اور ان کے کاموں اور پیشوں کو قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھ کر ان کی ہمت و حوصلہ افزائی کی ۲؎ اور سماج و معاشرے میں ا ن کو عزت و عظمت کا مقام دلایاجس کی وجہ سے ان کے خلاف نفرت و تعصب کے بادل چھٹے اور ان کو امن و سکون کی ایسی پربہار زندگی نصیب ہوئی کہ دوسرے بھی ان کا ہم پیشہ ہونے پر فخر کرنے لگے۔
قرآن حکیم نے متعدد جگہوں پر محنت شعار افراد کو صبر و شکر کی تعلیم دے کر ان کی خاطر خواہ دل جوئی کی ہے اور ان کے وظیفوں کی اہمیت و افادیت کو اپنے حکیمانہ و حاکمانہ اندازِ بیان میں خوب اجاگر کیا ہے۔ چنانچہ سورہ نحل میں ایک تمثیلی پیرایۂ اظہار میں خلق خدا کے لیے نفع رساں اور نفع رسانی کی صفت سے محروم اشخاص کے فرق مراتب کو بیان کر نے میں بشمول اور دوسری حکمتوں کے، جفا کش افراد کی دلجوئی کا پہلو بھی مضمر ہے۔ یونہی سورۂ جمعہ میں فریضۂ جمعہ کی ادائیگی اور تلاش رزق کی خاطر زمین کی وسعتوں میں پھیلنے کا ایک ساتھ بیان، محنت و مشقت کے کاموں کی قدر و منزلت کا ایک اشارتی اظہار اور نفرت و حقارت کے بجائے ان کی اہمیت و افادیت کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا ایک خوبصورت حکم ہے۔
مزدوروں کی مدح سرائی اور حرکت و عمل کی ترغیب و تحریص میں رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لبہائے مبارک یوں گل افشاں ہوئے ہیں:
1 بہترین کمائی مزدور کی کمائی ہے بشرطیکہ وہ بھلائی اور خیر خواہی کے ساتھ کام والے کا کام انجام دے۔ (مجمع الزوائد للھیتمی، ۴ / ۹۸)
1 اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر تم نے کبھی کوئی کھانا نہیں کھایا ہوگا۔ (صحیح بخاری، ۳ / ۹)
1 جس شخص نے اس حال میں رات بسر کی کہ وہ رزق حلال کی تلاش میں تھک گیا تھا تو اس نے بخشش و مغفرت سے مالا مال ہوکر رات گزاری۔ (فتح الباری، ۴/۷۳)
1 کوئی مسلمان جب کوئی چیز کاشت کرتا ہے یا کوئی پودا لگاتا ہے اور پھر اس میں کوئی پرندہ، انسان یا چوپایہ کچھ کھاتا ہے تو وہ اس مسلمان کی طرف سے صدقہ ہوجاتا ہے۔ (صحیح مسلم، ۲/ ۱۱۸۸)
1 راہ خدا میں جہاد کے بعد، میرے نزدیک موت کے لیے، سب سے اچھا وقت وہ ہے جب میں اللہ کا فضل یعنی رزق و روزی تلاش کر رہا ہوں اور اس کے بعد آپ نے سورہ مزمل کی ۲۰ویں آیت تلاوت فرمائی۔ (الدرالمنثور، ۸ /۳۳۲)
1 اللہ رب العزت اس بندۂ مومن کو عزیز رکھتا ہے، جو کسی پیشہ کے ذریعہ اپنی روزی کماتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ۱/۷۵)
اب آئیے مزدورں کے بارے میں اسلام کے عطا کردہ حقوق و ہدایات کا ایک مختصر سا مطالعہ کریں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس مظلوم طبقۂ انسانیت پر، یہ ابر رحمت، کس طرح اور کتنا برسا ہے۔


برابری کا حق: اسلام کی نگاہ میں مزدور و مالک، امیر و غریب اور چھوٹے بڑے کی کوئی تفریق نہیں ہے، بلکہ ہر فرد انسانی رنگ و نسل، پیشہ و حرفت، زبان و علاقائیت اور قومیت و وطنیت کی تفریق کے بغیر، قانونی اور معاشرتی دونوں اعتبار سے، دوسرے انسانوں کے مساوی اور برابر ہے خواہ وہ اونچے سے اونچے خاندان اور برادری ہی کے کیوں نہ ہوں کیوں کہ اسلام کے نزدیک معیار فضیلت خاندان اور برادری کا تفوق اور برتری نہیں ہے، بلکہ فضیلت و شرافت کا معیار تقویٰ اور خشیتِ الٰہی ہے، جسے ہر شخص اپنے ارادہ و اختیار سے حاصل کر سکتا ہے اور اس کے بلند سے بلند درجے پر فائز ہوکر اسلام کی نظروں میں سرخرو بن سکتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
اے لوگو! ہم نے تم کو پیدا کیا ہے ایک مرد اور ایک عورت سے اور بنا دیا ہے تم کو مختلف قومیں اور قبیلے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔ (سورہ حجرات- ۱۳)
اس آیت کی تفہیم میں نہایت ہی شاندار تفسیر امام فخرالدین رازی شافعی (آمد: ۵۴۴ھج، رخصت: ۶۰۶ھج) نے کی ہے۔ رقم طراز ہیں:
’’وہ امور جن کی بدولت لوگ دنیا میں ایک دوسرے پر فخر جتاتے ہیں گو کہ بے شمار ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم ترین چیز خاندان اور نسب ہے۔اس لیے کہ مال تو کبھی کبھی محتاج کو بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ تو اب، جو شخص اس کی وجہ سے فخر جتاتا تھا، اس کا یہ فخر جتانا باطل ہوجائے گا۔ اسی طرح حسن اور سن و سال وغیرہ یہ چیزیں بھی ایسی ہیں جو بالکل عارضی اور غیر مستقل ہیں۔ اس کے برعکس خاندان اور نسب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دائمی ہے اور مستقل طور پر رہنے والا ہے۔ نیز یہ کسی دوسرے شخص کے لیے جسے وہ حاصل نہ ہو، اس کا حصول ممکن نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس کا ذکر کیا ہے اور خوف خدا کے بالمقابل اس کے اعتبار کو باطل قرار دیا ہے تاکہ اس سے افتخار و عدم مساوات کے دوسرے عوامل کا بطلان بدرجۂ اولیٰ معلوم ہوجائے۔‘‘ (تفسیر کبیر، ۷/ ۵۸۱)
قرآن کریم کی اور آیتوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کسی اعتبار سے بھی مزدوروں، کمزوروں اور مظلوموں کو ذلیل و حقیر نہیں سمجھتا ہے، بلکہ اس کی نگاہ میںپوری انسانی برادری ایک کنبہ اور خاندان ہے اور مزدور، غریب اور کمزور بھی یکساں مقام و مرتبہ کے ساتھ اس کے اعضا و افراد ہیں۔ قرآن کریم کی نظروں میں بلاکسی تفریق و امتیاز کے
1 پوری نوع انسانیت یکساں شرف و منزلت کی حامل ہے۔ (اسراء، ۶۲)
1 تمام انسان ایک آدم اور حوّا کی اولاد ہیں۔ (سورہ نساء، ۱)
1 سب کا مادۂ تخلیق ایک ہے۔ (سورۂ غافرہ، ۴۰/۶۷)
1 تمام انسانوں کی تخلیق بلا کسی تفریق کے اچھی شکل و صورت میں ہوئی ہے۔ (سورہ تین)
1 علمی و فکری قوتیں تمام نوع انسانی کو نوع انسانی ہونے کے سبب حاصل ہیں۔ (البقرہ، ۳۱- ۳۲)


مزدوروں کے ساتھ حسن سلوک: اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حیثیت سے اس قابل ہو جائے کہ وہ اجرت و معاوضہ دے کر دوسروں سے خدمت لے سکے، تو اسے خود نمائی کے نشے میں چور ہوکر اپنے خدمتگاروں اور مزدوروں کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی طرح کا امتیازی سلوک روا رکھنا چاہیے ، بلکہ ان کے ساتھ محبت، ہمدردی، تعاون اور دستگیری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے طبائع انسانی کے پیش نظر انسانوں کو الگ الگ صلاحیتوں اور خصوصیتوں کا مالک بنایا ہے، تاکہ لوگ ایک دوسرے سے خدمت لے کر اپنی زندگی کے بوجھ کو ہلکا کر سکیں اور زندگی کا یہ کارواں باہمی جذبۂ تعاون سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے۔ ورنہ اس کے برعکس اگر تمام لوگ یکساں صلاحیت کے مالک ہوتے تو کوئی کسی کی نہیں سنتا اور یہ نظام زندگی پورے طور پر ٹھٹھر کر رہ جاتا۔
قرآن کریم میں ہے: اور ان میں بعض کو بعض پر درجوں بلند کیا ہے، تاکہ بعض، بعض کو اپنا خادم بنائے اور تیرے رب کی یہ رحمت زیادہ بہتر ہے اس سے جو یہ سمیٹتے ہیں۔ (زخرف ، ۳۲)
مزدوروں کے ساتھ حسن سلوک کے سلسلے میں اسلام نے اخوت اور بھائی چارے کے تصور پر بھی بہت زیادہ زور دیا ہے کہ مزدور کوئی کم تر انسان نہیں، بلکہ تمہارے بھائی ہیں، جو حالات کی مجبوری کے تحت تمہارے زیر دست ہیں، پر جس طرح تم اپنے بھائی کے لیے محبت و اخوت اور نصرت و تعاون کا جو جذبہ رکھتے ہو، وہی مزدوروں کے ساتھ بھی روا رکھو۔ جو خود کھاؤ انہیں بھی کھلاؤ، بھاری کاموں میں ان کی مدد کرو، گفتگو اور کاموں کے بتانے میں نرمی و خوش کلامی کا طرز اپناؤ اور ان کی خدمتوں کے اعتراف میں ان کا شکریہ بجا لاؤ۔
حضرت ابو ذر کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بلا شبہ تمہارے بھائی تمہارے غلام ہیں، اللہ نے ان کو تمہارے زیر دست کر رکھا ہے، پس جس کسی کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے وہ کھلائے ، جو خود کھاتا ہے اور وہ پہنائے، جو خود پہنتا ہے۔ان پر کام کا اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ اسے وہ اٹھا نہ سکیں۔ اگر ان کی طاقت سے زیادہ ان کو کام دو تو اس کے پورا کرنے میں ان کی مدد کرو۔ (صحیح بخاری، کتاب العتق)
ایک دوسری روایت میں ہے: تمہارے یہ غلام تمہارے بھائی ہیں، تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ ان کی مدد لو اس کام میں جو تم نہ کر سکو اور ان کی مدد کرو ان کاموں میں جنہیں وہ نہ کر سکیں۔ (الادب المفرد مع فضل اللہ الصمد، ۱/۲۸۴)
انسان کے جذبۂ شکر کو مہمیز کرتے ہوئے رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
جس نے لوگوںکا شکریہ ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ (بحوالہ موسوعہ اطراف الحدیث النبوی الشریف، ۹/۵۴۸)
اسلام کا ماننا ہے کہ مزدور حالات کے مجبور ہوتے ہیں، اس لیے اگر کام کے دوران ان سے کوئی خطا سرزد ہوجائے تو ان کو غیر ضروری سرزنش کرکے ان کی دل شکنی نہیںکرنی چاہیے، بلکہ عفو و درگذر سے کام لینا چاہیے اور اس سلسلے میں پوری فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! میرا نوکر بار بار غلطیاں کرتا ہے، کیا میں ان کی سرزنش کرسکتا ہوں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم روزانہ ستر مرتبہ اپنے خدمت گاروں کو معاف کریں۔ (ابوداؤد ، ۵/۳۶۳)
درج بالا احادیث میں تمام باتیں غلاموں سے متعلق ہیں، جو اپنے زمانے کے نہایت ہی مخلص خدمت گزار تھے، لیکن منطقی طور پر یہ باتیں مزدوروں پر بھی منطبق ہوتی ہیں، کیوں کہ ان دنوں خدمت اور نفع رسانی کے اکثر امور انہیں سے منسلک ہیں۔
استطاعت سے زیادہ کام لینے کی ممانعت : اسلام، دین ودنیا ہر دو کے معاملے میں ، اس بات کا روا دار ہے کہ کسی شخص کو اس کی طاقت وصلاحیت سے زیادہ کی تکلیف دے کر، اس کی قوت وطاقت کا بے جا استعمال نہ کیا جائے کہ یہ ظلم ہے جس کی اسلامی نظام فکر میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشا دہے :
1 اللہ تعالیٰ کسی جاندار پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ (البقرہ ، ۲/۲۸۶)
1 اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتاہے ، سختی وتنگی نہیں چاہتا ۔ (البقرہ ،۲/۱۸۵)
1 اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ بے جا سختیوں او ر رکاوٹوں کی جگہ ، تمہارے لیے نرمی اور آسانی ہواور (واقعہ یہ ہے کہ)انسان (طبیعت کا)کمزور پیدا کیا گیاہے ۔ (النساء،۴/۲۸)
اسلام کے اس تصور اعتدال وتوازن سے بخوبی واضح ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے زیر دست مزدور پر اس کی قوت وصلاحیت سے زیادہ اور مزاج وطبیعت کے خلاف کام کا بوجھ لاددے جس سے اس کا ذہنی و روحانی ارتقاء اور جسمانی قوت وصلاحیت پورے طورپر متاثر ہو ، تو یہ قطعاً درست نہ ہوگا بلکہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہوگی جس کا اسلام کسی اعتبار سے بھی قائل نہیں ہے۔ اس بارے میں اسلام کا خصوصی حکم وارد ہے ۔
آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
کسی شخص پر اس کی قوت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو یعنی اتنا کام نہ لو جس کا وہ متحمل نہ ہو ۔ (مسلم ، ۲/۱۲۸۳-۱۲۸۴)
عہد خلافت میں اس با ت کی پوری نگرانی کی جاتی تھی کہ کسی غلام کی طاقت وقوت کا استحصال نہ ہوپائے۔چنانچہ وار د ہے کہ :
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہر سنیچر کو یہ جاننے کے لیے نواح مدینہ کے گائوں کا دورہ کیا کرتے تھے کہ کسی غلام سے اس کی قوت و استطاعت سے زیادہ کام تو نہیں لیا جارہاہے ؟اور اگر کوئی ایسی مثال سامنے آتی تو آپ غلام کو جبر سے رہائی دلاتے تھے ۔ (الموطاء للامام مالک)


مرضی کے خلاف کام لینا جائز نہیں: آج کے اس متمدن اور حقوق انسانی سے باخبر دور میں بھی برہمنی نظام کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے سماجوں میں ظلم وستم کے چند ٹھیکیدار مزدوروں سے ان کے مزاج ومرضی کے خلاف کام لیتے ہیں اور اسے اپنا ’’خدائی حق ‘‘سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا یہ تصور ہے کہ مزدور شودر ہیں جو صرف ان کی خدمت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں ۔ ۳؎ یونہی کارخانوں ، فیکٹریوں اور دیگر فرموں میں مالک حضرات ملازموں کو کام کی تکمیل اور دوسرے حیلے بہانوں سے روک لیتے ہیں اور اس میں ان کی مرضی و منظوری کا کچھ بھی خیال نہیں کرتے ۔اسلام اس عمل کو سختی سے منع کرتاہے اور ہر شخص کی عزت نفس اور مرضی ورضا مندی کے پاس ولحاظ کا حکم دیتاہے ۔
عرب میں رواج تھا کہ زر پسند لوگ دولت سمیٹنے کی غر ض سے اپنی لونڈیوں سے ان کی مرضی کے برخلاف بزور پیشہ کراتے تھے ۔۴؎ اسلام نے اسکے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور اس کو سختی سے ممنوع قرار دیا۔قرآن میں ہے :
اور اپنی لونڈیوں پر بدکا ری کے لیے زبردستی نہ کرو جب کہ وہ پاک باز رہنا چاہیں ۔ تاکہ تم چند روزہ دنیاوی زندگی کا مال کمائو ۔اورجو کوئی ان پر زبر دستی کرے تو اللہ ان کی اس بے بسی کے پیچھے بخشنے والا ، رحم کر نے والا ہے ۔ (نور -۳۳)
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مجبور و بے بس مزدور اپنی غربت و افلاس سے عاجز آ کر ،استطاعت سے زیادہ کاموں کی ذمہ داری قبو ل کرلیتا ہے اور اس میں اپنے مزاج و مرضی کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا -بظاہر یہ مالک و مزدور کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے ، لیکن اسلام اس معاہدۂ غیرمرضیہ کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔
اسلامی رہنما حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(آمد: ۴؍ شوال ۱۱۱۴ھج، رخصت: ۳۰؍ محرم ۱۱۷۶ھج) کا فیصلہ ہے کہ :
’’بلا شبہ مفلس اپنے افلاس کی وجہ سے خود پر ایسی ذمہ داریاں عائد کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ، جن کا پورا کرنا اس کی قدرت سے باہر ہوتا ہے اور اس کی وہ رضا مندی،حقیقی رضا مندی نہیں ہوتی ۔تو اس قسم کے تمام معاملات رضا مندی کے معاملات نہیں کہے جا سکتے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ، ص:۳۲۵)
مزدوروں کاحق محنت :مزدوری ، مزدور کے پسینے کی کمائی ہے ، جو نہایت ہی پاکیزہ اور اسلام کی نگاہ میں بہت ہی اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، اسلام نے مزدور کے کام پر، لگنے سے پہلے، اس کے تعین کا حکم دیا ہے تاکہ عدم تعین کی وجہ سے بعد میں کسی طرح کا نزاع واقع ہونے سے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ پیدا نہ ہوسکے ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :
جو کوئی کسی مزدور کو مزدوری پررکھے تو چاہیے کہ اس کی مزدوری کو پیشگی بتادے ۔ (مسند احمد،۳/۵۹)
امام نسائی نے حماد کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ان سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو کسی کو کھانے کی چیز پر مزدور رکھے ،اس کے جواب میں انہو ں نے فرمایا کہ :
نہیں ،جب تک کہ تم کھانے کی چیز کا تعین نہ کردو۔ (نسائی جلد ۲)
انہی احادیث وآثار کی بناپر فقہاء نے صراحت کی ہے کہ جب تک کام اور مزدوری دونوں کا تعین نہ کردیا جائے اس وقت تک عقد اجارہ (مزدور رکھنے کا عقد )درست ہی نہ ہوگا ۔
ہدایہ میں ہے :
اور عقد اجارہ صحیح نہ ہوگا یہاں تک کہ کام اور مزدوری دونوں معلوم اورمتعین ہوں۔ (ہدایہ ،۳/۲۷۷)


مزدوروں کا حق محنت کیا ہو؟ اس کو اسلام نے کسی ٹھوس اصول سے متعین نہیں کیا ہے ، بلکہ اسے عرف اوررسم ورواج اور فریقین کے باہمی منصفانہ مشورہ پر چھوڑ دیاہے ،لیکن اس بات کی تاکید کی ہے کہ وہ حق محنت اتنا ضرور ہو کہ جس سے مزدور اپنی زندگی کے ضروری سامانوں کا بہ آسانی حصول اور اپنے اہل وعیال کی تربیت وکفالت مناسب انداز سے کرسکے اور اس میں اسے کوئی دشواری پیش نہ آئے ۔ اس سلسلے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے :
مزدوروں کو معروف کے مطابق مناسب غذا اور لباس دیاجائے اوران پر کام کا اتنا ہی بوجھ لادا جائے جتنا وہ برداشت کرسکیں۔ (مسلم،۲/۱۲۸۳-۱۲۸۴)
مزدوروں کے حق محنت کی ادائیگی کے بارے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری ،پسینہ خشک ہو نے سے پہلے ، دے دی جائے اور اس میں کسی طرح کا ٹال مٹول یا خواہ مخواہ کی تاخیر نہ کی جائے جس کی وجہ سے اس کی کام سے بچی قیمتی ساعتیں بھی حق محنت کے انتظار میں نذر ہوجائیں اوراسے اپنے اہل وعیال کے سنگ رہ کر زندگی کی الجھنوں کو فراموش کر کے چند ساعتوں کی مسرت کا موقع بھی نصیب نہ ہوسکے ۔
رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
مزدور کو اس کی مزدوری دے دو اس سے پہلے کہ اس کا پسینہ خشک ہو۔ (ابن ماجہ، ۲/۸۱۷)
چونکہ مزدور کا حق محنت ہی اس کی کل کائنات ہوتی ہے اس لیے اسلام کی تعلیم ہے کہ مزدور کو اس کے کام کے معیار ومقدار اور محنت کے مطابق پوری پوری اجرت دی جائے اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ کی جائے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو اس کی مزدوری کم نہیں دی۔ (بخاری ۳/۵۴)
اسلام اس بات کو اخلاقی فریضہ قرار دیتاہے کہ انسان، مزدور کو اس کا واجبی حقِ محنت دینے کے ساتھ ساتھ حسب استطاعت پوری فراخ دلی سے عطا و بخشش سے بھی نوازے کہ یہ اس کی خدمتوں کی اہمیت کے اعتراف اور اسے اپنی قدر و منزلت محسوس کرانے کا ایک بہترین عملی طریقہ ہے۔
اس سلسلے میں آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ ایک واقعہ پیش نظر ہے، جس میں آپ نے، ایک غار میں پھنس جانے والے تین اشخاص کے اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا کرنے والوں میں اس شخص کو مثالی آجر اور اس کے طرز عمل کو پسندیدہ طرز عمل قرار دیا ہے جس نے چاول کے عوض محنت و خدمت کرنے والے مزدور کو اس کے حصے کے چاول سے کی گئی زراعت و تجات میں کمایا ہوا سارا مال و متاع بھی دے دیا تھا۔ (بخاری ، ۳؍۵۱)


مزدوروں کے استحصال کا انسداد: اسلام کا مقصود لوگوں کو قانون کی زنجیروں میں جکڑ کرکے حق کا پابند بنانا نہیں ہے بلکہ ان کے اندر ایک ایسا اخلاقی حس بیدار کرنا ہے جس کی وجہ سے وہ از خود حق و باطل کی تمیز کرکے حق کو اپنا شیوۂ زندگی بنائیں۔ اس احساس کو بیدار کرنے میں اسلامی تصور آخرت کا بڑا کلیدی کردا ر رہاہے، کیونکہ یہ تصور ایک جانب طریق حق کی پیروی کے صلے میں ابدی نعمتوں کے حصول کا مژدۂ جاں فزاا سناتا ہے تو دوسری جانب طریق باطل کے اتباع میں خوفناک سزاؤں اور عتابوں کی خبر۔ اب اس کے بعد وہ کوئی احمق ہی ہوسکتا ہے کہ وہ اتباع حق کے تمام مواقع ملنے کے باوجود باطل سے چمٹا رہے اور ابدی سرفرازیوں کے حصول سے محروم رہے۔
اسلام نے ظلم و ستم، استحصال اور جبر و تشدد کے انسداد کے لیے بھی اولاً تصور آخرت کے سہارے ظالم کے اخلاقی حس کو بیدار کیا ہے اور پھر آخری مرحلے میں مظلوم و معاشرہ کو اس کے خلاف آواز بلند کرنے اور اسلامی ریاست کو اس کی گرفت کرنے کا حکم دیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے:
مزدوروں پر ہونے والے ظلم و ستم کی بعض صورتوں کی بیخ کنی تو درج بالا دفعات و تحفظات ہی سے ہوجاتی ہے، لیکن اس کے باوجود، اسلام نے ظلم و ستم کے خوگروں کو محنت کشوں یا کسی بھی کمزور طبقۂ انسانیت پر کسی طرح کا چھوٹا بڑا ظلم کرنے سے مزید بایں طور روکا ہے کہ انہیں اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے کاموں کی خبر نہیں ہے بلکہ وہ ان کے پل پل کے عمل سے باخبر ہے جس کے مطابق وہ آخرت میں فیصلہ بھی فرمانے والا ہے۔ لہٰذا ظلم و ستم کے عادی اپنی سیاہ حرکتوں سے باز آئیں اور اپنے دلوں میں خوف خدا پیدا کریں۔
قرآن کریم میں ہے کہ:
اور ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کے عمل سے بے خبر ہے۔ (سورۂ ابراہیم ۴۲۶)
آقائے دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک حدیث قدسی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کر رکھا ہے۔ اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے۔ تو تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ (مسند احمد، ۵؍۱۶۰)
چند زرپسند اور غریبوں کا خون چوسنے والے لوگ مزدوروں کا استحصال بایں طور کرتے ہیں کہ ان سے پوری تندہی اور رغبت و خواہش کے ساتھ خدمت لینے کے بعد انہیں ان کا واجب الاداء حق محنت و خدمت نہیں دیتے۔ یہ اسلام کے نزدیک ظلم و ستم اور پستی و دناء ت کی قبیح ترین صورت ہے، کیونکہ یہ ایک شخص کے ایک واحد نقد حیات کو چھین کر، اسے بے سروسامان اور بے آسرا بنانا ہے۔ اس سلسلے میں علامہ ابن خلدون(المتوفی ۸۰۸ھ) کے مقدمہ کا ایک طویل اقتباس نذر قارئین ہے:
’’سب سے زیادہ بدترین ظلم جو آبادی کو تباہی و بربادی کی گود میں پہنچانے والا ہے وہ یہ ہے کہ رعایا سے زبردستی کام لیا جائے اور ان پر مختلف ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جائے، اس لیے کہ کام بھی دراصل دولت (Property) کے قبیل سے ہے جیسا کہ ہم آگے ’’باب الرزق‘‘ میں اس کی تفصیل بیان کریںگے۔ اس لیے کہ روزی اور کمائی دراصل اہل آبادی کے کام کا ثمرہ ہے۔ پس ان کی محنت اور ان کا عمل خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو یہی دراصل ان کی دولت اور کمائی ہے، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی دوسری کمائی ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ عام رعایا جو آبادی میں کام کرتی ہے اس کی روزی اور اس کی کمائی دراصل اس کا یہی کام اور محنت ہے۔ پس جب ان سے غیر موزوں طریقے سے کام لیا جائے گا اور اپنی روزی کے سلسلے میں انہیں صرف بیگار بناکے رکھا جائے گا تو ان کی کمائی ختم ہوجائے گی بالفاظ دیگر ان کے کام کی قیمت غصب ہوکے رہ جائے گی، جب کہ یہی چیز ان کا واحد سرمایہ ہے تو ان پر ضرر لاحق ہوگا۔ اور ان کی روزی کا بڑا حصہ زیاں کا شکا ہوکر رہ جائے گا۔ بڑا حصہ کیا یہی چیز تو دراصل ان کی کل روزی ہوتی ہے۔ اور اگر ظلم و استحصال کی یہ چکی ان پر برابر چلتی رہے تو یہ چیز ان کے عزائم کو مردہ کردیتی ہے اور وہ پورے طور پر ہمت شکستہ ہوجاتے ہیں۔ پھر یہی چیز آبادی کی تباہی اور اس کی بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون، ص: ۲۵۳)
اسلام نے اس استحصالی ذہن کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تصور آخرت کا سہارا لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ روز آخرت ایسے ظالموں کی طرف نظر عتاب فرمائے گا اور ان کا بھر پور محاسبہ کرے گا۔ ہاں اگر یہ ظالم اپنے ظلم و ستم سے توبہ کرکے عدل و انصاف کی راہ اختیار کرلیں تو البتہ وہ رحمت الٰہی و فضل خداوندی کے مستحق بن سکتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے :
اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنایا ہے اور بعض کو بعض پر درجات کے لحاظ سے بڑھایا ہے تاکہ تم کو آزمائے اس میں جو اس نے تم کو دیا ہے ۔تیرا رب جلد عذاب دینے والا اوربخشنے والا، رحم کر نے والاہے۔ (انعام،۱۶۶)
ایک حدیث قدسی میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل کر تے ہیں :
قیامت کے دن تین آدمی میری نظر عتاب کے سامنے ہوں گے ۔ ایک وہ جو میرے نام پر کسی سے کوئی عہد کرے پھر بے وفائی کر جائے ۔دوسرا وہ جو کسی آزاد انسان کو بیچے اور اس کی رقم کھاجائے۔تیسرا وہ جو کسی مزدور کو مزدوری پر رکھے اور اس سے پور اپور اکام لے لیکن اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری ،۳/۵۰)
اگر کسی مزدور پر حدسے زیادہ ظلم ہو نے لگے اور ظالم خوف خد اسے بالکل عاری ہو اور وہ کسی طرح سے اپنی حرکتوں سے باز نہ آرہاہوتو ایسی صورت میں ظلم کے انسداد کے لیے اسلام نے مظلوم کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آواز اٹھائے ، خلق خدا کو اس سے باخبر کرے اور عدالت سے رجوع کرے ۔
قرآن کریم میں ہے :
اللہ تعالیٰ بری بات کے اظہار واعلان کو پسند نہیں کرتا البتہ جس پر ظلم ہواہے (اسے ا س کا حق ہے) (النساء، ۱۴۸ )
ایسے نازک موقع پر معاشرہ کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ ظالم کی مدد کرکے اسے خود سر نہ بنائے ، بلکہ مظلوم کا تعاون اور اس کی آواز میں آواز ملاکر، ظلم کاخاتمہ کرے ۔
حدیث میں ہے :
جو شخص کسی ظالم کے ساتھ یہ جانتے ہوئے کہ وہ ظالم ہے ، اسے تقویت پہنچانے کے لیے چلے تو وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
ظالم کو کیفر کردار تک پہونچانے کے لیے مظلوم اور معاشرہ کی صدائے احتجاج کے ساتھ اسلام نے اسلامی ریاست کو بھی اس کا پابند بنایا ہے کہ وہ ظالم کی گرفت کر ے اور مظلوم کو اس کا واجبی حق دلائے چنانچہ ماوردی نے اس سلسلہ میں حکومت کی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ :
محتسب کو چاہیے کہ اگر ملازم مزدوروں ا و ر عورتوں پر زیادتی ہو تو اس کے مالکوں سے باز پرس کرے اور حکم دے کہ ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیں ،
(الاحکام السلطانیہ للماوردی ، ص :۲۴۴)
مز دورومالک کے بارے میں اسلامی عدالت کی منصف مزاجی کی ایک جھلک ملاحظہ کریں کہ کبھی کبھی ایسا ہوتاہے کہ مزدور تفویض کی گئی ذمہ داریوں کو نہایت دلچسپی ، صلاحیت اور امانت داری سے انجام دیتاہے لیکن مالک اس پر کسی سامان کے نقصان کا بے بنیاد الزام لگاکر اس سے تاوان طلب کر تاہے اوراس طرح اس کا حق محنت غصب کر جاتاہے ۔ اس بدترین ظلم کے انسداد کے لیے اسلامی عدالت نے قسم کے ساتھ مزدورہی کے قول کو معتبر مانا ہے جب تک کہ اس کے خلاف گواہ موجود نہ ہو ں یا اس کی صلاحیت وامانت داری میں کوئی سقم نظر نہ آئے۔
المحلیٰ میں ہے :
اجیر مشترک (مشترک کا روبار کر نے والا)یا اجیر خاص(معاوضہ لے کر اپنی خدمت کسی کے لیے وقف کر دینے والا)اس پرمال میں نقصان ہو جانے یا ہلاک ہو جانے سے کوئی تاوان نہیں آتا تاوقتیکہ اس کا ارادی قصور یا ضائع کر دینا ثابت نہ ہو اور ان تمام امور میں جب تک اس کے خلاف گواہ موجود نہ ہوں ، اجیر ہی کا قول معتبر ہے قسم کے ساتھ۔ (المحلٰی ، ۸/۲۰۸)
ضعیف مزدوروں کا معاشی تحفظ: اسلام کا مطلوب ومقصود حرکت وعمل کی ترغیب وتحریص اور جمود وتعطل سے اجتناب ہے ، لیکن اپنے عادلانہ مزاج کے پیش نظر ، عمل کا مطالبہ صرف ان لوگوں سے کرتاہے جو اس کی قوت وصلاحیت رکھتے ہوں ، البتہ جو قوت وصلاحیت سے عاری ہوں جیسے ذہنی یا جسمانی طور پر معذورہوں ، بیمار یا آفت رسیدہ ہوں تو ان سے عمل کا مطالبہ کر کے ’’تکلیف مالا یطاق ‘‘کو جواز نہیں فراہم کرتا ۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے معاش کا مسئلہ کیسے حل ہو ؟ تو اس کے لیے اسلام نے زکوٰۃ کا نظام مقرر کیا ہے ، جس میں ، فقراء ومساکین کے ذیل میں ، ایسے لوگوں کی حصہ داری کو تسلیم کرکے ان کو پورے طورپر معاشی تحفظ فراہم کیاہے ۔اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لیے قرآن میں مصارف زکوٰۃ کے بارے میں وارد آیتوں کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔


مزدوروں کے پسماندگان کی مالی اعانت: اسلام نے صرف کام کر نے والے زندہ مزدوروں ہی کے حقوق کی پاسداری نہیں کی ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ان کے پسماندگان کی امداد واعانت کی صورت نکال کر کے ان کی بھر پور عزت افزائی کی ہے ۔ یہ ایک ایسا وصف ہے جس میں اسلام کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے ۔
مزدوروں کے پسماندگان کی مالی اعانت کے حوالے سے اسلام میں طریقہ یہ ہے کہ اگر مزدور نے اپنے پیچھے اتنا ترکہ چھوڑا ہے کہ جس سے اس کے پسماندگان کی کفالت ہوسکے یا ان میں کوئی ایسا بچہ ہو جو کام کی عمر کو پہنچ گیا ہو ، تب تو وہ امداد واعانت نہیں پائیں گے ، کیونکہ اسلام حتی الامکان دست طلب دراز کر نے سے دور رہنے کی تعلیم دیتاہے ۔البتہ اگر صورت حال ایسی نہ ہو بلکہ وہ بالکل بے سرو سامان اور بے یار و مدد گار ہوںتو ایسی صورت میں اسلامی ریاست سے امداد واعانت پانے کا پورا حق رکھتے ہیں ۔اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف اور واضح ارشاد ہے :
جو شخص مرنے کے بعد مال وجائیداد چھوڑ جاتاہے وہ سب اس کے وارثوں کا ہے لیکن جو شخص اپنے بعد زیر کفالت پسماندگان یا وابستگان کو چھوڑ جا تاہے تو ان کی اعانت ونگہداشت بیت المال کے ذمہ ہے ۔ (کتاب الخراج ، ص :۱۲۶)
یہ ہیں وہ حقوق جو اسلام نے پوری کشادہ دلی کے ساتھ مزدوروں کو عطا کیے ہیں، جن کی پاسداری میں، مزدوروں کو معاشرۂ انسانی میں عزت کا مقام ومرتبہ ملنا یقینی ہے۔آج کے اس اخلاق بیزار دور میں خصوصاً یورپ میں ان حقوق کو رواج دینے کی ازحد ضرورت ہے جہاں ادنیٰ اعلیٰ ، گورے کالے اور شاہ نسل و غلام نسل کی جھوٹی تفریقات وامتیازات آج بھی موجود ہیں ۔اگر انسانی حقوق کے مغربی علمبرداران ، انسانی حقوق کے تئیں صحیح معنوں میں مخلص ہیں تو وہ اسلام کے نام پر نہ سہی ، حقوق انسانی ہی کے نام پر ، اسلام کے بیان کر دہ حقوق انسانی کو مانیں جو ہر طبقۂ انسانی کو درج بالا نوعیت ہی کی طرح محیط ہیں اور صرف نظریاتی طورپر ہی نہیں ، بلکہ عملی طورپر بھی ، ان کو رواج دے کرسماج اور معاشرے میں کمزوروں ، مزدوروں ، مظلوموں اور غریبوں کو عزت وعظمت کا مقام دلائیں۔

حوالہ جات:
۱؎ لسان العرب، ۱۷/ ۳۱۳ – ۳۱۴، دار صادر- بیروت
۲؎ السنن الکبریٰ، ۶ / ۱۲۱، الاجارات، دارالقیمہ – بھیونڈی
۳؎ منو سمرتی ادھیائے، ۱/۹۱ بحوالہ اسلام کا تصور مساوات، ص: ۳۰
۴؎ الکشاف للزمخشری، ۲/ ۹۵۲
شرف محنت و کفالت، شمیم طارق
مجمع الزوائد للھیتمی، ۴ / ۹۸
صحیح بخاری، ۳ / ۹
فتح الباری، ۴/۷۳
صحیح مسلم، ۲/ ۱۱۸۸
الدرالمنثور، ۸ /۳۳۲
الجامع الصغیر للسیوطی، ۱/۷۵
تفسیر کبیر، ۷/ ۵۸۱
الادب المفرد مع فضل اللہ الصمد، ۱/۲۸۴)
موسوعہ اطراف الحدیث النبوی الشریف، ۹/۵۴۸
ابوداؤد ، ۵/۳۶۳
الموطاء للامام مالک
حجۃ اللہ البالغہ، ص:۳۲۵
مسند احمد،۳/۵۹
ہدایہ ،۳/۲۷۷
ابن ماجہ، ۲/۸۱۷
مقدمہ ابن خلدون، ص: ۲۵۳
الاحکام السلطانیہ للماوردی ، ص :۲۴۴
المحلٰی ، ۸/۲۰۸
کتاب الخراج ،ص :۱۲۶

Exit mobile version