✍️ شاہد عادل قاسمی
______________________
سہہ روزہ تہوار پر میرا پنج روزہ ڈیرا آبائ گاؤں میں رہا،میرا گاؤں نہ تو بڑی زمین داروں کی بستی ہے اور نہ ہی زیادہ مفلوک الحال عوام الناس کا قریہ ے،بل کہ میڈیم پریوار پر مشتمل میرا گاؤں اوبر کھابر اور کمر توڑبوڑھی سڑک کے دونوں سائیڈ اپنی گنجان آبادی لیے کسی فرشتہ شکل انسان کی آمد کا منتظر ہے ،جو اس کے رنگ ریکھا کو سنوار سکے اور دائمی نہ ہی سہی عارضی میک اپ سے اس کے عاشقوں کا من موہ سکے،خیر میرا تو پیدائشی گاؤں ہے ،اس کے حسن ونکھار اور دیدہ زیبی سے بھلا مجھے کیا بیر البتہ اس کے خدوخال پر فیس کریم کے بہ جاۓ کیچر پاؤڈر اور میل کچیل سے دل میرا دکھی ضرور ہے،گاؤن کی اس بدقسمتی پر میرا ذہن تخیلاتی سفر پر گامزن تھا کہ ایک خوب صورت جماعت پر نظر پڑی،سوٹ بوٹ اور مغربی کلچرل والی ہاؤ بھاؤ سے مجھے محسوس ہواکہ اس مٹی کی شکتی اس بے باک اور طمطراق صفت کی ولادت سے شاید عاجز ہے ،بھلا یہ پیداوار کہاں کی ہوسکتی ہے؟تفتیش پر مجھے اپنے آپ کو دقیانوسی مزاج سمجھنے میں دیر نہیں لگی،اکسیویں صدی میں اٹھارویں صدی کی سوچ بھلا کیسے معنی خیز یا مفید ثابت ہوسکتی ہے؟
چچا آپ نہیں پہچانے میں تو فلاں کی بیٹی ہوں اور یہ جو سر ہیں بہت دور کے ہیں ،بینک چلاتے ہیں اور ساموہک لون تفسیم کرتے ہیں ،طالب کو بن طلب جواب ملا، ،پینٹ اورپاجامہ سے دور لنگی اور تہبند میں پوری زندگی گزارکر دوسال قبل قبرگاہ میں آرام کرنے والے کی بچی کو جینس ٹوپ اور اجنبی مرد وہ بھی ہم ذات نہ ہم برادر ،دھرلے سے ایک ساتھ ایک بائک پر بیٹھ کر نظروں کے سامنے سے ایسے گزر گئی جیسے کہیں کوئ قلع فتح کرنے کا ارادہ ہو، اس بے جوڑ سنگم اور بے میل راہ کو کیا نام دیا جاۓ طے کرنا شاید کوئ مشکل امر نہیں ،اگر اس کو آوارگی اور بے راہ روی بھی کہہ دیا جاۓ تو شاید کوئ مبالغہ نہہں،جہاں ایک بیٹی کو باپ سے پردہ،ایک بہن کو بھائ سے پردہ کا حکم ہےجہاں ایک بیٹی کے گھر داخلہ کے واسطے باپ کے لئے اجازت اور جہاں ایک بھائ کو بہن کے گھر میں انٹری کےلئے اجازت درکار ہواکرتی ہے وہاں بھلا کون اس کی اجازت دے گا یا کون اسے درست سمجھے گا جو اس ماڈرن پردورہ نے ایک غیر کے ساتھ رشتہ استوار کررکھا ہے؟گاؤں کی ایک کافی کمزور فیمیلی کی بچی جو اعلی تعلیم یافتہ ہے اور نہ ہی کسی بڑے منصب پر کوئ فائز ہے بھلا وہ اس چکاچوند دنیا کی دل دادہ آخر کیسے ہوگئ ؟حسن صورت کا اگرکمال ہے تو حسن سیرت سے کیا زمانے کے پیچ وخم سے مقابلہ کر لے گی،کیا زمانے کے طعن وتشنیع سے نبردآزماہوجاۓ گی،کیا زمانے کی طلب پر چل کر کام یاب ہوجاۓ گی یا بغاوت کرکے اپنی جان جان آفرین کے حوالہ کر جاۓ گی۔
انھیں سوچ میں مجھے غوطہ خوری کرنا پڑا،خدشات اور وساوس سے بھی دماغی کےچولہے پھٹنے لگے،ان دونوں کی بے باکی اور اختلاط سے بوڑھے نس بھی پھر پھرانے لگے،دولت کی بھوک ہے یا بڑا انسان بننے کی للک ہے یہ سوچتے ہوۓ مجھے ان کے کاموں کا جائزہ لینا چاہئیے ،گاؤن میں عورتوں کی ایک ٹولی بنائ جاتی ہے،ضرورت کے نام پر انھیں لون دیا جاتا ہے،پھر ہفتہ واری ان لون دھاریوں سے متعینہ رقوم واپس لی جاتی ہیں، لمبی رقم لیتے وقت بڑی راحت اور خوشی ہوتی ہے،ہفتہ دو ہفتہ ادائیگی بھی آسان لگتی ہے،لیکن قسطوں کا یہ سلسلہ جب آگے بڑھتا ہے تو پاؤں کے رگ ڈھیلے اور ہاتھوں کی کلائیاں دکھنے لگتی ہیں،روزگار ہے اور نہ ہی کوئ ملازمت،تجارت ہے اور نہ کوئ بزنیس ،قسطوں کی ادائیگی کبھی بہانے،کبھی حیلے اور کبھی گھر چھوڑ جانے کی نوبت پر آجاتی ہے،ٹائ بیلٹ اور سوٹ بوٹ میں ملبوس انسان کے سخت تقاضے پر زمین گروہی نہیں رکھی جاتی ہے بل کہ بک بھی جاتی ہے ،انسانیت کراہ اٹھتی ہے جب اس کی ادائیگی کے پاداش میں عفت وعصمت کی بھی بولیاں لگ جاتی ہیں،گھر گھر ہستی میں لگنے والی صنف نازک جب گھر بار کے اخراجات اپنے ہاتھوں لیں گی ،جب مردوں کے مد مقابل اپنے کو سردار سمجھیں گی، جب عورتیں مغربی روایت کی پاس داری کریں گی ،جب عورتیں خواہشات کی تکمیل کے لیے آزاد ہوجائیں گی اور جب عورتیں اسلامی تعلیمات اور ہدایات کے باغی ہوجائیں گی تو حالات ایسے ہی سرزد ہوں گے
ان عورتوں کے اہل خانہ جب آج ایسے ہی چپی اورسکوت سادھےرہیں گے تو تباہیاں یوں ہی آپ کا استقبال کریں گی ،پانی جب سر سے اوپر ہوجاۓ گا تب آپ کی کوئ سنے گا اور نہ ہی آپ کے پہلو میں کوئ باوفا بیٹھے گا ,معاشرے کا ہی نہیں گھر گھر کا یہ ناسور مرض اور لالچی سسٹم کافی ترقی کے راہ پر چل چکا ہے ،سودی کاروبار سے گھر آباد ہوا ہے اور نہ ہی کوئ خاندان مستقل بسا ہے، اس مہلک مرض سے نسلیں برباد ہوئیں ہیں اس لیے عہد کیجئے اور اس وبا سے گھر کو پاک وصاف کیجئے۔