✍️ ظفر امام، کھجور باڑی
______________________
ہماری سُرجا پوری زبان میں ایک کہاوت ہے کہ ”دو چیزیں سب سے زیادہ طمع انگیز اور مَن موہ ہوا کرتی ہیں، ایک آم اور دوسری مچھلی “بہت حد تک بات بھی درست ہے کہ جب آپ کسی آم سے لدے باغیچے کی چھاؤں سے گزریں یا مچھلیوں کی قُلانچیں بھرتی تالاب کے کناروں سے،آپ یک بیک پا بہ زمین ہوجائیں گے اور اس وقت تک وہاں سے ٹلنا نہیں چاہیں گے جب تک کہ دل بھر کر اس خوش نما منظر سے اپنی آنکھوں کو نور اور دل کو سُرور نہ بخش دیں،مچھلی کی کہانی بر طرف،وہ پھر کبھی،آج تو یہاں زرد پیلے اور کھٹے میٹھےآموں کا کچھ تذکرہ ہوگا۔
آم کے ساتھ کا یہ معاملہ عمر کے ہر دوراہے پر انسان کے ساتھ چِپکا رہتا ہے،مگر آم پر جو رشتہ سب سے زیادہ جَچتا اور پھَبتا ہے وہ بچپنے کا رشتہ ہے،آج جب کہ بچپنے نے عمر سے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے اور بَچپنا نہ جانے کہاں کھو گیا ہے،مگر جب بھی آم کی گھنیری چھاؤں سے گزر ہوتا ہے تو وہاں سُہانے بَچپن کی موہنی یادیں رَچی بَسی معلوم ہوتی ہیں، یوں احساس ہونے لگتا ہے جیسے عمرِ مُستعار کا ایک بیش بہا خزانہ یہاں آم کی چھتنار چھاؤں تلے مدفون ہو،اور تصور میں پلک جھپکتے ہی دور بہت دور پہونچ جاتا ہوں،جب ہمارا روز و شب آم کی چھاؤں تلے ہنڈولے جھولتے اور گاچھ ڈول (یہ ایک قسم کا نہایت دلچسپ اور دلآویز کھیل ہوتا ہے) کھیلتے گزرا کرتا تھا۔
یادوں کا کارواں کچھ دیر کے لئے اس گُم گشتہ منزل پر پہونچا دیتا ہے جب ہم دنیا کے ہرجھنجھٹوں سے فارغ آزادانہ زندگی گزارا کرتے تھے،نہ اسبابِ دنیا کا کوئی غم تھا نہ سامانِ عقبیٰ کی کوئی فکر،اگر کسی چیز کی فکر لاحق تھی تو وہ نِت نئی چیزوں سے اپنے پیٹ کو ایندھن بہم پہونچانے کی فکر تھی،پیٹ کی آگ بجھ گئی دنیا جہان کی دولت مل گئی۔
بچپنے کے اس دور میں جب برسات کے موسم کی آمد آمد ہوتی،کالی گھنیری گھٹائیں سایہ تنتیں،موروں کے رقص اور پرندوں کی موسیقی سے جنگل گونج اور اس کے ساتھ ہی آموں کے درختوں پر بَور لگنے لگتے تو بَور دیکھتے ہی ہماری بانچھیں مسکا اٹھتیں،دل کے کنول کھِل اٹھتے،پھر جب رَفتہ رَفتہ بَور کا زمانہ گزر جاتا اور بَور درختوں کو کَیریوں کی سوغات تھما کر رُخصت ہوجاتے تو اسی دَم سے نَٹ کھَٹ اور شریف الطبع بچوں کا میلہ آم کی چھاؤں تَلے لگنے لگ جاتا، ہم کہاں کے شریف اور صوفی منش تھے،ہم بھی اپنے ہم عمروں کے ساتھ اس میلے میں شریک ہوکر اس میں رونق افزونی کا سامان پیدا کرتے،اور وہاں جاکر خوب قہقہوں کی محفل سجاتے۔
چونکہ بچپنے کی عمر عموماً شرارت سے لَیس ہوا کرتی ہے، اس میلے میں جو بچے شریف مزاج ہوتے وہ تو تماشائی بنے کھڑے رہتے مگر جو ذرا شریر طبیعت کے ہوتے وہ کیریوں پر سے ہی چاند ماری کا عمل شروع کردیتے،جہاں مالی یا باغباں کو ذرہ برابر بھی غفلت میں دیکھتے فورا سے پیشتر ہی درخت پر ڈھیلا چلا دیتے،پھر اس دودھ ٹپکاتے معصوم سی کیری سے اپنے شکم کی ضیافت کرتے،میلے کے اس منظر پر اس وقت مزید دلفریبی و دل نوازی کی چادر تَن جاتی جب اُفق پر کالی گھٹائیں نمودار ہوتیں،ماحول میں تیرگی رقص کناں ہوتی،اور اس کے ساتھ ہی جب تیز ہوائیں چلنے لگتیں تو میلے میں موجود سارے بچے لَے سے لَے ملا کر کوئی لوک گیت الاپنے لگ جاتے،یہ لَوک گیت لَوریوں کی مانند ہوا کرتے جیسے آموں کو ہواؤں کے زور سے گرنے پر بہلایا اور پھُسلایا جا رہا ہو،وہ منظر بھی قابل دید ہوتا جب کوئی آم ڈنڈی سے ٹوٹ کر زمین پر گرتا،ادھر آم ٹپ سے گرتا ادھر جھٹ سے کئی پنجے اس کی گردن پر جا پڑتے،اور بسا اوقات اس چھینا جھپٹی میں تو تو میں میں ہوجاتی بلکہ کبھی نوبت کُشتم کُشتا اور دست و گریبانی تک جا پہنچتی،مگر ہائے رے بچپنا کہ چند لمحوں کے بعد ہی سارے گلے شکوے منظر نامے سے غائب ہوجاتے اور پھر وہی اکھٹے اس چُنے ہوئے آم سے لطف اندوز ہونے اور چُہل بازی کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔
واقعی آم خدائے واہب کی طرف سے ایک ایسا کشش آفریں اور حلاوت انگیز تحفہ ہے کہ جس کی چاہت سے کسی بھی عمر کا آدمی دست بردار نہیں ہوسکتا،آم کے موسم میں دیگر قدرتی پھَل جیسے امرود،جامن،کٹہل،آڑو،ناشپاتی اور چکوترا بھی ڈالیوں پر جھولتے اور اٹکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں،مگر اس موسم میں ان پھلوں میں جو مرکزیت اور تاجوری آم کو حاصل ہوتی ہے اسے دیکھ کر بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ” آم ویسے ہی پھَلوں کا راجا ہے جیسے پھولوں میں گُلاب“۔
اس کرۂ ارض پر دسہری،سرولی،سُرجاپوری، بمبئی سفیدہ، سندھڑی، سہارنی، سیندوریا، فجری،مالدا اور لنگڑا جیسے مختلف قسموں کے آم کی کاشت پچھلے چھ ہزار سالوں سے مسلسل کی جا رہی ہے،تب سے لیکر آج تک اس کی حلاوت و مٹھاس میں کوئی کمی نہیں آئی،دنیا بھر کے لوگ پورے سال آم کے موسم کا شدت سے انتظار کرتے ہیں،اور اس کا موسم آتے ہی مَن بھر کر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
رسیلے اور اَدھ کچرے آم مزہ دینے کے ساتھ صحت کے لئے بھی کافی مفید ہوتے ہیں،یہ دماغ کو تازگی،مسامات کو صفائی، حسن کو دوبالگی، جسم کو توانائی،روح کو سُرور،صحت کو تندرستی اور ہاضمہ کو قوی کرتے ہیں،کچے آم عام طور پر کھٹے ہوتے ہیں،اس لئے وہ پختہ آموں کی بہ نسبت کم کھائے جاتے ہیں،مگر کچے آموں کا اچار بنا کر لوگ مرتبانوں میں بھر لیتے ہیں اور موقع بہ موقع اس سے لذت اٹھاتے ہیں،کبھی کچے آموں کی چٹنی بناکر کھاتے ہیں،غرض یہ کہ آم سے اپنے کام و دہن کو لذت آشنا کرنے کے لئے اس کے دیوانوں اور متوالوں نے کئی طریقے ایجاد کردئے ہیں اور ہر طریقہ اپنی جگہ روح افزاء اور لطف آفرین ہے۔
مگر افسوس کہ گزرتے زمانے کے ساتھ پرانے طریقے اور قدیم ریت سماج سے عنقاء ہوتی جا رہی ہے،نئی پَود نے ان ریتوں کو بھلانا شروع کردیا ہے جو کبھی ان کے پُرکھوں کی زندگی کا لازمہ حصہ ہوا کرتی تھیں،ابھی نئی پَود مشینری چیزوں کی دلدادہ بن گئی ہے،انہیں اصلی کی جگہ نقلی چیزیں زیادہ بھانے لگی ہیں، تغافل شعاری ان میں اتنی گھر کر گئی ہے کہ انہیں کچھ بنانے کا من ہی نہیں کرتا،آج آم کا موسم آتا تو ضرور ہے مگر وہ گہما گہمی نظر نہیں آتی جو کبھی ہوا کرتی تھی،ورنہ ایک زمانہ تھا اور وہ زمانہ ابھی زیادہ دور نہیں پہونچا کہ آم کے موسم میں ہر طرف آم ہی کی بُو باس رَچی معلوم ہوتی تھی،اچار کے لئے کاٹے گئے آم کی خوشبوؤں سے گھر آنگن مہکے رہتے تھے اور ہر طرف آم ہی کے چرچے ہوتے تھے۔
زمانہ بتدریج مہنگائی کے آسمان کو چھوتا چلا جا رہا ہے،اور ادھر لوگوں کے اندر سے ایثار و وفاداری بھی اٹھتی چلی جا رہی ہے،متاعِ دنیا کی حرص و ہوس نے انہیں اپنی ذات تک محدود کردیا ہے،پڑوسیوں کا خیال ان کے دلوں سے نکلتا جا رہا ہے،جس کی وجہ سے خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ خدا کے اس اَنمول عطیے سے صحیح طور پر لطف نہیں اٹھا پاتے،ورنہ ایک زمانہ تھا جب رشتوں میں پاس تھا،ایثار و خلوص کا دور دورہ تھا،لوگ اپنے سے زیادہ غیروں کو ترجیح دیا کرتے تھے تو غریبوں کا کام بآسانی بن جایا کرتا تھا،اور گھر بیٹھے انہیں بھی وافر مقدار میں آم مل جایا کرتے تھے۔
مگر اس بات سے بھی مجالِ انکار نہیں کہ آج بھی کچھ ایسے زندہ دل لوگ سماج اور معاشرے میں موجود ہیں جو خود غرضی اور مفاد پرستی کے اس بھیانک طوفان میں بھی ایثار و وفا کا چراغ جلائے ہوئے ہیں،اور انہیں اس وقت تک چین میسر نہیں ہوتا جب تک کہ وہ غریبوں اور حاجت مندوں کو اپنی چیزوں میں شریک نہیں کرلیتے،انہی کے دَم قدم سے یہ جہاں روشن اور منور ہے۔
الغرض سب موسموں میں سب سے زیادہ سُہانا اور دل رُبا موسم آم کا ہوا کرتا ہے،اس موسم میں آم کے سوا اور کسی عنوان پر بات کرنا بالکل ناروا ہے،اور یہ ناروائی اس وقت افزوں تر ہوجاتی ہے جب آم کے موسم میں آپ کسی کے یہاں جائیں اور ان کے لئے بطور تحفہ آپ آم کی جگہ امرود لے جائیں۔