✍️مسعودجاوید
___________________
چند روز قبل دہلی کی صد فیصد مسلم باشندوں والی کالونی میں خودکشی کے دو دل خراش معاملے سامنے آئے ہیں جن کی وجوہات بقول ہمسایوں کے، معاشی تنگی بتائی گئی ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیاہے کہ ان دو میں سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص تھا جس کے سات بھائی ہیں ! خودکشی کرنے والے کی بیوی ہاسٹل کے لڑکوں کے لئے ٹفن سروس ( کھانا بنانے اور پہنچانے کا کام کرتی ہے۔ شوہر بے روزگار تھا!
اس علاقے میں تقریبًا تین ہزار این جی اوز ہیں ! بڑی ملی جماعتوں کے ہیڈ کوارٹر ہیں ! بہت ساری عالیشان عمارتوں والی مسجدیں ہیں ! اس کے باوجود خودکشی ، جو کہ حرام ہے ، کا اقدام ہو اور وہ بھی خالص مسلم آبادی والی کالونیوں میں! ہم سب افراد اور جماعتوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیئے ۔
خود کشی کی منجملہ وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہر شخص کا اپنے آپ سے اور اپنی بہتر زندگی سے مطلب رکھنا ہے ۔ اسلام کے انسانی پہلوؤں کے تعلق سے قرآن کریم میں صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئے تین باتوں پر بطور خاص زور دیا گیا ہے :
١– صلہ رحمی: ذرا تصور کریں کہ جس کے سات بھائی ہوں اس کے ایک بھائی نے موقع واردات پر صحافی( یو ٹیوبر ) A N Shibli کو بتایا کہ اس کا مرنے والے سے رابطہ نہیں تھا اس لئے کہ اس کے متوفی بھائی کے پاس موبائل فون نہیں تھا! ایک شہر کے ایک علاقے میں رہنے والے کا یہ جواب کوئی بھی ذی شعور انسان قبول کرے گا!
زکوٰۃ جو اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے اور جس کے مستحق غریب، فقیر مسکین وغیرہ ہیں اس تعلق سے بھی اسلام کی تعلیم ہے کہ سب سے پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کو زکوٰۃ کی رقم دو اس کا دوہرا اجر ملے گا ایک زکوٰۃ کی ادائیگی کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔
٢– پڑوسیوں کے حقوق ۔ پڑوسیوں کی خبر گیری پر اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم اتنی تاکید کرتے تھے کہ صحابہ کرام کو کبھی کبھی گمان ہوتا تھا کہ میراث میں ورثہ کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کا بھی حق شاید مقرر ہونے والا ہے۔
پڑوسیوں کی خبر گیری کر کے آپ نہ صرف دین کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں بلکہ دنیوی اعتبار سے بھی اس کے بہت سے فوائد ہیں۔
بظاہر بہت سے سفید پوش عزت نفس کے مارے شدید مالی بحران سے جھوجھتے ہوئے بھی کسی سے اپنی حالت بیان نہیں کرتے کسی کے آگے دست سوال نہیں بڑھاتے اور ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں اور شاذ و نادر ہی سہی خودکشی تک کی نوبت آجاتی ہے۔
ایسے لوگوں کے حالات کا جاننا اور ان کے مسائل کا ہر ممکن حل نکالنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے۔ ہم ایسے لوگوں کی کونسلنگ کرائیں اور ان کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق مناسب روزگار یا نوکری دلانے کی کوشش کریں ۔ کم از کم ان کی کہیں سفارش کر دیں۔ ان کی رہنمائی کریں تاکہ جہاں وہ فٹ ہو سکتے ہیں وہاں وہ محنت مزدوری کر سکیں۔
دوسری بات یہ کہ بے روزگاری نوجوانوں کو منشیات کی طرف دھکیل رہے ہیں اور نشہ کی ایسی لت ہوتی ہے کہ پہلے اپنے گھر کی چیزیں بیچ کر اور پھر پڑوسیوں کے گھروں سے برتن اور دیگر گھریلو سامان جو ہاتھ لگے بیچ کر نشہ آور اشیاء خریدتے ہیں ۔ پھر یہی ڈراپ آؤٹ بے روزگار اوباش لڑکے کالونیوں میں ایسی غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہیں کہ خواتیں ؛ بہن بیٹیوں کو راستے سے گزرنے میں خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
اپنے مکانوں/ فلیٹوں میں، اردگرد کے حالات اور پڑوس ، کالونی ،اسٹریٹ اور لین کی نقل وحرکت سے بے خبر رہنا آپ کے محفوظ ہونے کی ضمانت نہیں ہے۔ معاشرہ نام ہے ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہونے کا اور وقت ضرورت کام آنے کا۔
٣– یتیموں کے سروں پر دست شفقت:
قرآن مجید جگہ جگہ اس کی تاکید کی گئی ہے لیکن افسوس نہ جانے کس نے عوام میں یہ بات پھیلا دی کہ باپ کی زندگی میں اگر بیٹے کا انتقال ہو جائے تو اس کے بجے میراث سے محروم ہو جاتے ہیں ! ۔ دراصل مفاد پرستوں نے محجوب کو محروم کر دیا ۔ باپ کی زندگی میں بیٹے کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کی بیوہ اور یتیم بچوں کی کفالت دادا کے ذمے ہے اور دادا کے انتقال کے بعد چچا کے ذمے۔ اسی یتیم کے مال کو خرد برد کرنے پر وعید آئی ہے۔
بیوہ کے تعلق سے اسلامی تعلیم یہی ہے کہ عدت پوری ہونے کے بعد اس کی دوسری شادی کر دی جائے۔ اسلام میں مجرد زندگی سے منع کیا گیا ہے اسی لئے عیسائیوں کے پادریوں اور ننوں یا ہندوؤں کے برہمچاریوں اور داسیوں کے نظام کے برعکس مسلم پیر فقیر بزرگ عالم دین فقیہ کوئی بھی ہو اسے مجرد یعنی غیر شادی شدہ زندگی اور عزلت یعنی گوشہ نشینی کی زندگی کی اجازت نہیں ہے اس لئے کہ جنسی خواہشات ایک فطری ضرورت ہے اگر حلال طریقے سے اس ضرورت کو پورا نہیں کیا گیا تو اعلانیہ یا پس پردہ وہ حرام طریقے سے پورا کرے گا ۔ گرجا گھروں اور مندروں سے ایسی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں ۔ الحمدللہ مسلمانون میں کوئی دھرم گرو یا پجاری نہیں ہوتے جن کی آشیرواد لینے عورتیں اور جوان لڑکیاں پہنچتی ہیں اسی طرح مسلمانوں میں کوئی پادری پوپ نہیں ہوتے جن کے سامنے عیسائی عورت، مرد اور نوجوان لڑکے لڑکیاں اعتراف گناہ کرتے ہیں ۔
چاہے وہ پادری ہو یا پجاری ، جنسی خواہشات اور ضرورت ہر ایک کی ہوتی ہے۔ حیوان ہونے یعنی زندہ ہونے کی اس نشانی کو حیوانی جبلت کہتے ہیں ۔ یہ انسان حیوان چرند پرند سب میں پائی جاتی ہے اور بسا اوقات وہ روحانی جبلت پر حاوی ہو جاتی ہے نتیجہ سیکس اسکینڈل!
اسی حیوانی جبلت کو کنٹرول کرنے کے لئے دین اسلام مجرد زندگی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
سوسائٹی میں مالی اعتبار سے حاجت مند افراد اور نفسیاتی طور پر کونسلنگ کے ضرورت مند اشخاص کی نشاندہی کیسے کی جائے ؟
اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من دلَّ على خير، فله أجر فاعله” ۔ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ کے اندر کسی کو مدد کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو آپ کسی اور کی طرف رہنمائی کر دیں۔ ایسے میں رہنمائی کرنے والے کی وہی حیثیت ہوگی جو دینے والے کی ہوگی اور دینے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی.
آج کے بھاگ دوڑ کی زندگی اور پیشہ ورانہ فقیروں اور فراڈ چندہ خوروں کے دور میں اپنے صدقات و خیرات کو صحیح جگہ یعنی حقیقی مستحق تک پہنچانا مشکل ترین کام ہے۔ لیکن اگر ہم شہر والوں، محلہ والوں اور کم ازکم دس گھر آگے دس گھر پیچھے دس گھر دائیں اور دس گھر بائیں پڑوسیوں کے احوال سے باخبر ہوں گے تو نشاندہی کرنا مشکل نہیں ہوگا۔
اخلاقی طور پر خود کشی کرنے والے شخص کے مجرم چار ہیں :
١- رفاہی ریاست
٢- ملی تنظیمیں
٣- خونی رشتے دار
٤- پڑوسی