✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
_____________________
19 مئی 2024ء کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوئے، ان کا ہیلی کاپٹر آذربائیجان کے سرحد پر واقع شہرجلفا کے قریب گرکر تباہ ہوا، وہ آذر بائیجان کے سرحدی علاقہ میں ایک ڈیم کے افتتاح کے بعد تبریز لوٹ رہے تھے، ان کے ساتھ آٹھ اور ذمہ داروں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا، ان میں وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان، مشرقی آذر بائیجان کے گورنر مالک رحمتی، آیت اللہ خامنہ ای کے ترجمان آیت اللہ آل ہاشم، صدارتی حفاظتی ٹیم کے سربراہ اور دو پائلٹ بھی شامل ہیں، ان کی نماز جنازہ ایران کے مذہبی رہنما، رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے بدھ کے روزپڑھائی، اور آبائی وطن مشہد میں تدفین عمل میں آئی۔ ان کی جگہ نائب صدر محمد مخبر ذر فولی کو عبوری صدر اور علی باری کو قائم مقام وزیر خارجہ بنایا گیا ہے، ایران کے دستور کے مطابق نئے صدر کا انتخاب پچاس دنوں کے اندر ہونا ہے اور ا س کی تاریخ 28/ جون2024ء طے ہو گئی ہے، وہ محمد علی رجائی کے بعد دوسرے صدر ہیں،جو عہدہ پر رہتے ہوئے جاں بحق ہوئے، محمد علی رجائی 1981ء میں ایک بم دھماکہ میں موت کی نیند سو گیے تھے۔
سید ابراہیم رئیس الساداتی عرف ابراہیم رئیسی 14 دسمبر1960ء کو مشہد میں پید اہوئے، والد کا سایہ صرف پانچ سال کی عمر میں اٹھ گیا، ان کے والد کا نام سید حاجی تھا، انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں قم سمنری سے اپنی تعلیم کا باضابطہ آغاز کیا، وہاں سے وہ آیت اللہ بور جور دی اسکول قم گیے، انہوں نے سید حسن بیروجردی، مرتضی مطہری، ابو القاسم خازالی، حسین نوری ہمدانی، علی مشکینی اور مرتضیٰ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا،1988ء میں وہ پراسی کیوشن کمیٹی کے چار ارکان میں سے ایک منتخب ہوئے اور پانچ ہزار سے زائد سیاسی مخالفین کو اجتماعی طور پر پھانسی کی سزا سنائی، جسے روبعمل لایا گیا، مغربی دنیا اسی وجہ سے اس کمیٹی کو ”ڈیتھ کمیٹی“ کہا کرتی تھی، پھانسی دینے کا یہ سلسلہ 19 جولائی1988 سے شروع ہوا اور پانچ ماہ تک جاری رہا، اس کے علاوہ سینکڑوں ملزمین لا پتہ کر دیے گیے، سزا پانے والوں کی تعداد مختلف ذرائع نے الگ الگ مقرر کی ہے، روح اللہ خمینی کے نائب حسین علی مونٹازری نے 2800سے 3800تک بتائی ہے، دیگر ذرائع کے مطابق یہ تعداد تیس ہزار سے متجاوز بتائی جاتی ہے۔ 1989سے 1994 تک انہوں نے تہران کے جج کے طور پر کام کیا، 1994میں وہ جنرل انسپکشن کے سر براہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 2004سے2014 تک وہ مملکت ایران کے ڈپٹی چیف جسٹس بنائے گیے۔2016سے 2019تک وہ آستین قدس رضوی کے کسٹوڈین اور چیر مین کے طور پر کام کیا۔اپنے پیش رو عباس واعظ تالبسی کے انتقال کے بعد 7 مارچ 2016ء کو اس منصب پر فائز ہوئے۔ جنوبی خراسان سے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 2014ء میں وہ ایران کے اٹارنی جنرل مقرر ہوئے، اور 2016ء تک اس عہدہ پر کام کیا۔ 7 مارچ 2019ء سے 1/ جولائی 2021ء تک وہ منصف اعظم ایران (چیف جسٹس) رہے
ابراہیم رئیسی صدارتی امیدوار کے طور پر فروری 2017ء میں سامنے آئے، انہیں پاپولر فرنٹ آف انقلاب فورس (جامنا) نے نامزد کیا تھا، لیکن وہ حسن روحانی سے ہار گئے اس شکست کا ان کو اس قدر صدمہ ہوا کہ انہوں نے حسن روحانی کو صدر منتخب ہونے پر مبارکباد بھی نہیں دی، 2021ءمیں انہوں نے دوبارہ انتخاب میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔
ابراہیم رئیسی کی شادی امام احمد علم الہدیٰ کی بیٹی جمیلہ علم الہدیٰ سے ہوئی تھی علم الہدیٰ مشہد میں امام جمعہ اور شاہد یونیورسیٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھے، پس ماندگان میں دو بیٹی، دو پوتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی کا شمار سخت گیر حکمراں کے طور پر ہوتا تھا، ان کی رائے تھی کہ اسرائیل کے علاوہ سارے مسلم ممالک سے روابط استوار کیے جا سکتے ہیں، چنانچہ انہوں نے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، متحدہ عرب ممالک سے اپنے تعلقات استوار کیے، حالاں کہ سعودی عرب سے تعلقات کا استوار کرنا آسان نہیں تھا،کیوں کہ رئیسی کی حمایت یافتہ حزب اللہ نے سعودی عرب کی کئی مساجد کو نشانہ بنایا تھا، اس کے باوجود رئیسی کی خارجہ پالیسی کامیاب ہوئی اور یہ سب ممالک قریب ہوتے چلے گیے۔
7/ اکتوبر2023ء کوجب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو جن ملکوں نے الفاظ کی حد تک ہی سہی فلسطینیوں کے ساتھ آئے ان میں ترکیہ اور ایران نمایاں تھے، اور جب اسرائیل نے ایران کے سفارت خانے پر حملہ کیا تو ایرانی افواج نے صدر رئیسی کے حکم پر اسرائیل میں گھس کر حملہ کیا، جس کے بعد اسرائیل نے ایران کے اصفہان پر حملہ کر کے پاری برابر کی اور اس کے بعد سے سرد جنگ نے اس کی جگہ لے لی ہے۔
ابراہیم رئیسی نے داخلی طور پر ملکی معیشت کو مضبوط کرنے، اسلامی ثقافت وکلچر کے فروغ پر کام کیا، امریکہ اوریورپ کی پابندیوں کے باوجود وہ یورینیم کی افزائش میں لگا رہا اور باخبر ذرائع کے مطابق ایٹمی طاقت بن گیا، ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت مضبوط ہوئی، دوسری طرف انہوں نے حجاب کو لازم قرار دیا، جس کی وجہ سے آزاد پسند عورتوں کی جانب سے چلائی جانے والی تحریک کا انہیں سامنا کرنا پڑا، اس تحریک میں کئی لوگوں کی جانیں گئیں، لیکن وہ اپنے موقف پر جمے رہے اور مغربی ممالک کے پراکسی واراور عورتوں کی حمایت کے باوجود وہ اس تحریک کو ناکام کر سکے۔
ابراہیم رئیسی رہبر معظم انقلاب کے سر براہ آیت اللہ خامنہ ای کے جانشیں سمجھے جاتے تھے، لیکن ا ن کے دنیا سے چلے جانے کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کے پچپن سالہ بیٹے کو یہ عہدہ مل سکتا ہے، حالاں کہ ایران کا ایک بڑا طبقہ اس عہدہ میں وراثت کی بنیاد پر ان کی مخالفت کرتا رہا ہے، ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ رضا شاہ پہلوی کی موروثی حکومت کا خاتمہ کرکے دوسرے مذہبی عہدہ میں وراثت نہیں جاری کی جا سکتی، واضح ہو کہ ایران کا صدر بھی رہبر معظم انقلاب کے سر براہ آیت اللہ کے حکم کا پابند ہوتا ہے اور سارے معاملات اسی کے چشم وابرو سے طے ہوتے ہیں، اس لیے یہ عہدہ وہاں کے دستور کے اعتبار سے انتہائی اہم ہے۔اور مذہبی نیز سرکاری اور کی باگ ڈور آیت اللہ کے ہاتھ میں ہی ہوا کرتی ہے۔
میری ملاقات ابراہیم رئیسی سے تہران میں ہوئی تھی، ان دنوں وہ ایران کے چیف جسٹس تھے، آیت اللہ خامنہ ای اور صدر حسن روحانی کے بعد اسٹیج پر ان کی کرسی لگی تھی اور اصل پروگرا م ”وحدت امت کانفرنس“ جس کے لیے مجھے مدعو کیا گیا تھا، شرکت کے بعد مصافحہ کا بھی موقع ملا تھا، میں ایران حکومت کا تین روز مہمان تھا، اس سفر میں قاسم رسول الیاس اور ان کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں، ڈاکٹر کلب صادق بھی تشریف لائے تھے اور انہوں نے بڑی محبت کا معاملہ کیا تھا، ایسے انسان کا دنیا سے چلا جاناانتہائی افسوسناک ہے۔ سدا رہے نام اللہ کا۔