ماضی کے مسلمان وزراء کے احسانات ہی قوم پر کافی ہیں
✍️ عبدالغفارصدیقی
________________
موجودہ مرکزی میں حکومت میں کسی مسلم چہرے یا مسلمانوں جیسے نام والے شخص کو وزیر نہیں بنایا گیا ہے۔جب کہ سکھ کمیونٹی سے دو اور عیسائی کمیونٹی سے ایک وزیر بنایا گیا ہے۔سکھ ملک کی آبادی کا ڈیڑھ فیصد اور عیسائی دو فیصد ہیں۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق مسلمان ملک کا تقریباًپندرہ فیصد ہیں۔ ملک کی آزادی میں ان کا کردار 85فیصد ہے۔ملک کے لیے قربانی دینے والوں میں ان کی شرح سو فیصد ہے۔
اس کے برعکس آج تک ملک کے راز بیچنے والے غیر مسلم ہی رہے۔مہاتما گاندھی سے لے کر راجیو گاندھی تک کو مارنے والوں میں کوئی مسلمان نہیں تھا۔اس کے باوجود مسلمانوں پر ملک سے بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے۔ہزاروں نوجوانوں کو ملک سے غداری کے جرم میں ہر حکومت میں قید وبند کی آزمائشوں سے گزارا گیا،ان کی عمر عزیز کے بیش قیمتی سال جیل میں گزر گئے،آج بھی خالدعمر،شرجیل امام جیسے قابل نوجوان جیل میں بند ہیں۔حالانکہ ملک دشمنی اور دیش دروہ کا الزام کسی پر ثابت نہیں ہوا۔ بڑی تعداد میں ایسے نوجوان اپنی جوانی گنوا کر باعزت بری کیے گئے۔جنھیں سزائے موت بھی دی گئیں توشہادتوں اور آئین و قانون کے مطابق نہیں بلکہ اکثریت کے سینوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔اس ملک کو مسلمانوں نے آثار قدیمہ کے نام پر وہ شاندار عمارات و مقبرے دیے جن سے اربوں روپے کی آمدنی حکومت کو ہوتی ہے۔لیکن افسوس ان کے ہاتھ ذلت و رسوائی ہی آئی۔بقول علامہ محمداقبالؒ:
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں مسلمانوں کو نمائندگی کیوں نہیں دی گئی؟اس کا ایک سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں کا کوئی مسلم امیدوار کامیاب ہی نہیں ہواہے۔اس لیے کہ این ڈی اے کی جماعتوں نے خاطر خواہ تعداد میں مسلم امیدوار میدان میں نہیں اتارے تھے۔ بی جے پی نے صرف ایک مسلم امیدوار کھڑا کیا تھا اور بہار میں اس کی معاون جماعت جے ڈی یو نے صرف دو امیدوار کھڑے کیے تھے۔حکمراں جماعت چاہتی تو بغیر جیت حاصل کیے بھی کسی مسلم چہرے کو وزارت کا تاج پہناسکتی تھی۔آج کل اس کے پاس کئی نامور مسلمان موجود بھی ہیں۔دوسرا جواب یہ ہے کہ حکمراں جماعت کی پوری انتخابی مہم مسلم مخالفت پر مرکوز تھی۔محترم وزیر اعظم جی بھر کر مسلمانوں کے بارے قابل اعتراض باتیں ارشاد فرمارہے تھے۔ایسے میں وہ کسی مسلم کو اپنی کیبنٹ میں کیوں کر شامل کرسکتے تھے۔تیسری بات یہ ہے کہ پوری انتخابی مہم میں مسلمان انڈیا الائنس کے ساتھ نظر آئے۔جس نے بی جے پی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔اس جرم کی سزا ان کو ملنی ہی چاہئے تھی۔حالانکہ بی جے پی کو پنجاب میں سکھوں نے ووٹ نہیں کیااور وہاں اس کی ایک بھی سیٹ نہیں آئی۔لیکن سکھ کسی نہ کسی معنی میں ہندو ہی ہیں حالانکہ سکھ قیادت اس کا انکار کرتی ہے اور سنگھ کا خیال ہے کہ سکھ کمیونٹی ایک دن ہندووں میں ضم ہوجائے گی۔اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ہندوفاشزم کی راہ میں حقیقی سد راہ مسلمان ہیں۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے آج تک جن نام نہاد مسلمانوں کو وزیر بنایا وہ مسلمانوں میں کوئی اثر قائم نہیں کرسکے اور بی جے پی کے لیے راستا ہموار نہیں کرسکے۔اس لیے اس نے سوچا کہ کسی مسلم نام کا بوجھ کیوں ڈھویا جائے۔
اب دوسرا سوال ان دانشوروں سے ہے جو کسی مسلم وزیر کے نہ ہونے پر ماتم منا رہے ہیں۔جس وقت سے نئی حکومت نے حلف اٹھایا ہے اسی وقت سے سوشل اور پرنٹ میڈیا پر یہ واویلا مچا ہوا ہے کہ اس بار کوئی بھی مسلم وزیر نہیں ہے اور یہ آزاد بھارت میں پہلی بار ہوا ہے۔ حالانکہ جانکار بتاتے ہیں کہ گزشتہ حکومت کے بھی آخر کے تین سالوں میں کوئی مسلمان وزیر نہیں تھا۔مختار عباس نقوی آخری مسلم وزیر تھے۔امور حج بھی محترمہ اسمرتی ایرانی انجام دے رہی تھیں۔میرا سوال یہ کہ اگر کوئی مسلم وزیر نہیں بنایا گیا ہے تو حکومت نے کونسا بڑا جرم کرلیا ہے؟اگر بنا دیتے تو کیا انقلاب آجاتا؟مسلم قوم پرماضی کے مسلم وزراء کے احسانات ہی کافی ہیں۔ان کے عظیم کارناموں سے ہماری تاریخ اغیار کی آنکھوں کو خیرہ کررہی ہے۔انھوں نے ہی مسلمانوں کے لیے اتنا کچھ کردیا ہے کہ اب کسی مسلم وزیر کی حاجت نہیں رہی۔آزاد بھارت میں مولانا ابوالکلام آزاد سے لے کر مختار عباس نقوی تک درجنوں مسلمان مختلف حکومتوں میں وزارتوں کے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ کانگریس کے دور حکومت میں، غلام نبی آزاد،سی کے جعفر شریف،احمد پٹیل،عبدالرحمان انتولے،سی ایم ابراہیم چوٹی کے مسلم رہنما تھے اور وزیر بھی بنائے جاتے رہے،ان کے علاوہ امیر الہند، ناخدائے ملت،مسیحائے دوجہاں حضرت مولاناسید محمد اسعد مدنی ؒ بھی ایوان کے معزز رکن رہے ہیں۔ان رہنماؤں اور بزرگوں نے مسلمانوں کے لئے اگر کچھ ٹھوس اقدامات کیے ہوتے اورمرض کا کچھ علاج کیا ہوتا تو آج مسلم قوم کی حالت ناگفتہ نہیں ہوتی۔ اگر آپ مولانا ابوالکلام آزاد کو الگ کردیں تو باقی نے ایسا کیا کیا ہے کہ مسلم وزیرکی تمنائیں لبوں پررقص کناں ہیں۔ایک صحافی نے مسلم وزراء کی یادوں کے حوالہ سے اپنے خیالات قلم بند کیے ہیں مگر اس صحافی کی تمام یادیں صرف دستر خوان سے وابستہ ہیں۔
مسلم وزیروں میں سے کس نے کوئی اسکول کالج اور یونیورسٹی قائم کی، کس نے مسلم علاقوں میں سرکاری ہاسپٹل قائم کرائے،کس نے سرکاری اسکولوں میں اردو اساتذہ کی بھرتی کرائی،کس نے روزگار فراہم کیے۔ان وزراء کی موجود گی میں بابری مسجد شہید کی گئی،کسی نے استعفیٰ نہیں دیا۔ان کی موجود گی میں اردو کا جنازہ اٹھا کسی نے فاتحہ کے دوبول بھی نہیں پڑھے،حج کی سبسڈی ختم ہوئی،طلاق بل پاس ہوا،کشمیر کی صورت حال تبدیل ہوگئی،ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں ٹھونسا گیا،سینکڑوں کی لنچنگ ہوگئی،آخر اس وقت کی حکومت میں موجود مسلم وزیروں نے کیا قربانی دی۔کہتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب مسلم ارکان پارلیمنٹ سے استعفوں کا مطالبہ کیا گیا تو انھوں نے صاف فرمادیا کہ ہم کانگریس کے نمائندے ہیں مسلمانوں کے نہیں۔آخراس صورت حال میں مسلم وزیر کے نہ ہونے کا ماتم کیوں منایا جائے؟
اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں کو ہم مسلمان سمجھ رہے ہیں کیا وہ واقعی اسلام کے خیر خواہ ہیں۔کیا انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے واقعی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ایوانوں میں پہنچنے والے بیشتروہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے سیاہ کارناموں کو سفید کھادی کے اندر چھپایا ہے۔مجھے ان میں سے بعض کے ذاتی طور پر نیک اور بااخلاق ہونے میں کوئی شک نہیں۔لیکن کیا وہ اسلام کی بقا،اس کی توسیع،مسلمانوں کے تحفظ اور ان کی ترقی کا بھی کوئی منصوبہ رکھتے تھے،مجھے اس باب میں یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔
قابل غور یہ بھی ہے کہ کتنے لوگ ہیں جنھیں کسی مسلم وزیر یا ممبر پارلیمنٹ سے کام پڑتا ہے؟گنتی کے چند افراد اور وہ بھی سماج کے مافیا لوگ۔ کسی کوزمین پر قبضہ کرنا ہے،کسی کو پیٹرول پمپ کا لائسنس درکار ہے،کسی کو قاتل کی جیل سے رہائی مطلوب ہے۔یعنی یہ وزراء اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر کام بھی ان لوگوں کے آتے ہیں جو سماج میں کرپشن اوربدعنوانی کے ٹھیکیدار ہیں۔نیک،شریف اور سماج کا صالح طبقہ ان کو دور سے ہی سلام کرلیتا ہے۔ عام عوام کواس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی مسلم وزیر ہے یا نہیں۔
کسی مسلم وزیر کا مطالبہ یا گلہ وہ بھی اس حکومت سے جو اسلام اور مسلمانوں کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی مطالبہ کرنے والوں کی دانشمندی پر سوالیہ نشان ہے۔جس کا خواب مسلم مکت بھارت ہو وہ کسی مسلم وزیرکو کیسے گوارہ کرسکتی ہے،اب یہ نہ فرمائیے گاکہ محترم عارف محمد خاں کو اسی نے گورنر بنائے رکھا ہے،اسی نے اٹل بہاری باجپئی کے دور حکومت میں اے پی جے عبدالکلام کو صدر مملکت بنایا تھا،آج بھی اس کے پاس ڈاکٹر طارق منصور،عبداللہ کٹی اور ظفر اسلام جیسے لوگ موجود ہیں،اب قارئین خود سمجھ سکتے ہیں کہ مذکورہ افراد کس قسم کے مسلمان ہیں۔
مسلم وزیر کا مطالبہ یا شکوہ اس لیے بھی مناسب نہیں کہ اس بیانیہ سے غیر مسلموں کو یہ پیغام جائے گا کہ مسلمانوں کو صرف اپنے مسلمان وزیر پر ہی اعتماد اور بھروسہ ہے۔حالانکہ یہ بات بالکل درست نہیں ہے۔تجربہ بتاتا ہے کہ مسلمان وزراء مسلمانوں کا کام کرنے سے گھبراتے ہیں اور غیر مسلم وزراء و ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں سوائے دیویش چندر جیسے دوچار سرپھروں کے۔
جہاں تک سکھ اور عیسائیوں کی بات ہے تو اول الذکر بہت منظم قوم ہے۔سکھوں نے ملک میں خود کو جس طرح منظم کیا ہے اور اپنے قومی مسائل خود حل کیے ہیں ماضی قریب میں کسی قوم نے نہیں کیے۔اس کا اپنا پورا ایک نظام ہے۔ان کے اسکولوں اور ان کے اسپتالوں سے ایک خلقت فائدہ اٹھا رہی ہے۔ان کا کوئی فرد بھیک مانگتا ہوا نہیں ملے گا۔وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور روزگار کے لیے بے مثال قربانیاں دیتے ہیں۔رہے عیسائی تو بین الاقوامی دباؤ اورمسلمانوں کو الگ اتھلگ کرنے کے منصوبہ کے تحت ان کو نمائندگی دیناحیرت کی بات نہیں ہے۔
میری رائے ہے کہ امت مسلمہ کو گلہ،شکوے اور مطالبوں کی سیاست سے اوپر اٹھنا چاہئے۔اس کے پاس سرمائے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی منظم گروہ سچے خیر خواہانہ جذبہ کے ساتھ ان کے وسائل کو مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کرے،مگر مسلمانوں کو تو اختلاف کی بریانی اور انتشار کے قورمہ میں مزہ آتا ہے۔خبر ہے کہ مسلم مجلس مشاورت پھر تقسیم ہوگئی ہے۔
متحد ہوتو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہوتو مرو شور مچاتے کیوں ہو