Site icon

مظلوم ترین قوم کیلئے اٹھتی ہوئی یہ صدا

ڈاکٹر سید فاضل حسین

✍️ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآباد

________________

25/جون ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کے حامل رہے۔ 1975ء میں اس تاریخ کو اندرا گاندھی نے ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ 1983ء میں اسی تاریخ کو ہندوستان میں کپل دیو کی قیادت میں ورلڈ کپ جیتا اور دنیا کو بتادیا تھا کہ آنے والے برسوں میں ہندوستان کرکٹ کی دنیا پر راج کرے گا۔
حیدرآباد پارلیمانی حلقہ سے پانچویں مرتبہ منتخب ہونے والے بیرسٹر اسدالدین اویسی نے 25/جون 2024ء کو ایوان پارلیمنٹ میں حلف لیتے ہوئے ”جئے فلسطین“ کا نعرہ بلند کیا جس نے نہ صرف ہندوستان میں پوری دنیا کے سیاسی ایوانوں میں ہلچل مچادی ہے۔ بی جے پی‘ سنگھ پریوار کے علاوہ بعض دوسری جماعتوں اور این جی اوز کی جانب سے اگر مذمت اور مخالفت کی جاتی ہے تو کوئی حیرت کی بات نہیں‘ کیوں کہ اسدالدین اویسی کو جئے فلسطین کے نعرہ لگانے سے پہلے ان کی حلف لینے کے لئے آمد سے پہلے ہی فرقہ پرست ارکان نے کچھ ایسے نعرے لگائے جسے سچا مسلمان اپنی زبان سے دہرا بھی نہیں سکتا۔ صدر جمہوریہ سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اسد اویسی کو الیکشن میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ اس کے لئے پارلیمانی قواعد کے مختلف شقوں کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ مرکزی وزیر مسٹر کرن ری۔جیجو نے کہا کہ ہندوستان کی فلسطین یا کسی بھی ملک سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ایوان پارلیمنٹ میں کیا اس قسم کے نعرے لگائے جاسکتے ہیں جس کی بناء پر ارکان کو نااہل قرار دیا جائے‘ اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ اسدالدین اویسی نے اپنے عمل و اقدام کی مدافعت کی ہے۔ انہیں نااہل قرار دیا جائے گا یا نہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ فی الحال وہ ساری دنیا میں فلسطینی کاز کو جرأت اور بے باکی کے ساتھ اپنی ضمیر کی آواز پر ایوان پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لئے ہر اُس شخص کے لئے قابل قدر و احترام بن گئے ہیں جو فلسطین سے ہمدردی رکھتا ہے۔ جو غزہ میں اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام اور نسل کشی کی مذمت کرتا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی سے بی بی سی تک اور نیویارک ٹائمز سے وائر اور پرنٹ تک گزشتہ دو دن سے اسدالدین اویسی کی تائید اور مخالفت میں مواد چھپ رہا ہے یا نشر ہورہا ہے۔ اسد اویسی نے سوشیل میڈیا پر اپنے جذبات کے اظہار کے بجائے ایوان پارلیمنٹ میں اپنے حلف برداری کے موقع پر جس طرح سے نعرہ بلند کرکے جذبات کا اظہار کیا اس پر بھلے ہی تنقید کی جائے، بھلے ہی پارلیمانی اقدار اور اصولوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا جائے‘ مگر یہ ایک سچ ہے کہ حیدرآباد کے ایم پی نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں نعرہ لگاکر ایک طرح سے ہندوستان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں یہ یاد دلایا کہ ہندوستان وہ پہلا غیر عرب ملک ہے جس نے 1974ء میں سب سے پہلے فلسطین کو تسلیم کیا اور یاسر عرفات کے زیر قیادت ’الفتح‘ PLO کو اس کی مستند نمائندہ تنظیم قرار دیا تھا۔ 1988ء میں فلسطینی مملکت تسلیم کرنے والا ملک ہندوستان ہے جس نے 1996ء میں غزہ میں جو اب فلسطینیوں کا مقتل بن چکا ہے‘ وہاں ہندوستان کو پہلا سفارتی دفتر قائم کیا تھا جسے بعد میں رملہ میں منتقل کیا تھا۔ یہ ہندوستان ہی تھا جس نے 1983ء میں اپنی صدارت میں ناوابستہ ممالک کی وزارتی کمیٹی فلسطین کے لئے تشکیل دی تھی۔ اسد اویسی نے اپنے نعرے سے یہ احساس بھی جگایا کہ فلسطین کے لئے گاندھی جی نے کہا تھا ”فلسطین فلسطینیوں کے لئے ایسا ہی ہے جیسا ہندوستان‘ ہندوستانیوں کے لئے“۔ پنڈت نہرو سے لے کر آج تک بھی فلسطین سے تعلقات خراب نہیں ہوئے۔ اگرچہ کہ 1992ء سے جبکہ پی وی نرسمہا راؤ ہندوستان کے وزیر اعظم تھے‘ اسرائیل سے متعلق پالیسی تبدیل کی گئی اور سفارتی تعلقات قائم کئے گئے۔ اس کے باوجود ہندوستان اور فلسطین کے تعلقات دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہتر اور خوشگوار ہے۔ یاسر عرفات ہندوستان میں بھی  اتنے ہی مقبول تھے جتنے کے فلسطین میں۔ وہ اندرا گاندھی کو اپنی بہن کہتے تھے۔ کئی بار انہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ ان کے جانشین محمود عباس نے 7مرتبہ ہندوستان کا دورہ کیا۔ بی جے پی حکومت کے سربراہ ہونے کے باوجود مسٹر مودی نے بھی فلسطین کا دورہ کیا۔ کووڈ19 کے دوران انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کی پیشکش کی۔ 2021ء میں مودی اور فلسطین کے وزیر اعظم ریاض ملک کی ملاقات اور بات چیت ہوئی۔ ہندوستان کی جانب سے ہر سال فلسطین کو مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ فلسطین کی تعمیر اور ترقی اسے عصری سانچے میں ڈھالنے کے لئے ہندوستان کا ہر دور میں تعاون رہا ہے۔ وہاں ٹیکنو پارک اور غزہ میں الازہر یونیورسٹی میں نریندر مودی کا قیام‘ دونوں ممالک کے طلبہ کی تعلیمی دورے کے تبادلہ‘ ہند فلسطین تعلقات کی کڑی رہے۔ اس وقت دنیا ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک طاقتور قائد کے طور پر دیکھتی ہے اور ان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ روس، یوکرین تنازعہ کی یکسوئی میں انہوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ کئی ممالک باہمی اختلافات کے خاتمے میں وہ ثالثی کا رول ادا کرتے رہے ہیں۔ تو ان سے یہ بھی امید کی جاتی رہی کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت، مظالم کے خاتمے کے لئے بھی اپنا رول ادا کریں گے۔
یہ سچ ہے کہ ہند۔اسرائیل کے درمیان جس قدر مستحکم تعلقات ہیں‘ وہ ہند۔فلسطین کے درمیان نہیں۔ کیوں کہ فلسطین ایک کمزور مملکت ہے‘ جس سے رسمی خانہ پری کے طور پر یگانگت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اسرائیل جسے مغربی طاقتوں کی ناجائز اولاد کہا جاتا ہے وہ ایک ایسی طاقت بن چکی ہے جس سے ٹکرانے کی خود کئی نام نہاد سوپر پاورس ہمت نہیں کرتے۔ ہر ایک شعبہ میں اسرائیل کی ترقی مثالی اور قابل رشک ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی، اسپیس ٹکنالوجی، بینکنگ سیکٹر، گولڈ مارکٹ، ایجوکیشن سیکٹر غرض کہ ہر ایک سیکٹر میں اسرائیل کی گرفت مضبوط ہے۔ ہندوستان نے 1992ء میں اپنے تعلقات رسمی طور پر قائم کئے مگر 1950ء میں بمبئی میں اسرائیلی قونصل خانہ قائم ہوچکا تھا۔ جب جب ہندوستان کو کسی بحران کا سامنا ہوا یا کسی شعبہ حیات میں تعاون کی ضرورت محسوس ہوئی اسرائیل نے مدد کی۔ چاہے وہ 1971ء کی ہندپاک جنگ جس میں بنگلہ دیش آزاد ہوا یا پھر 1999ء کی کارگل کی جنگ۔ ان دونوں جنگوں میں اسرائیل نے ہندوستان کی ہر طرح سے مدد کی۔ چاہے وہ ہتھیاروں کی فراہمی ہو یا جاسوسی کا شعبہ۔ اب تو ہند۔اسرائیل تعلقات مثالی ہوچکے ہیں۔ 2022 ء سے ہندوستان اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اسرائیل جتنا ہتھیار تیار کرتا ہے اس کا 42.1% ہندوستان خرید لیتا ہے۔دونوں ممالک کی افواج کے درمیان مشترکہ مشقیں ہوتی رہتی ہیں۔ ویسے ہتھیاروں کی خریداری کا سلسلہ 2005ء سے ہی شروع ہوچکا تھا جب ہندوستان نے 220ملین ڈالرس کے ڈرون، 2.5ملین ڈالرس کے اینٹی ایئرکرافٹ سسٹم اور میزائلس خریدے تھے۔ 2011ء میں 8376 اینٹی ٹینک میزائلس حاصل کئے جس کی لاگت ایک بلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ فالکن آواکس کا بھی ہندوستان بڑا خریدار رہا ہے۔Rediff کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی خفیہ تنظیم ”موساد“ اور ہندوستانی سکریٹ سرویس ”را“ کے درمیان باہمی تعاون کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ 2015ء میں مسٹر مودی نے ترکی کا دورہ کیا تھا تو اس وقت موساد ایجنٹس نے انہیں سیکوریٹی کورفراہم کیا تھا اور M-15 مودی کے طیارہ کی حفاظت کے لئے مامور تھے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا مطلب مغربی طاقتوں سے تعلقات کا استحکام ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ میں جب کبھی اسرائیل کے خلاف قراردادیں منظور کی گئیں ہندوستان غیر حاضر رہا۔ اسرائیل اپنے اصل آقاؤں کے بل بوتے پر جہاں فلسطین پر ناجائز قبضہ کئے ہوئے ہے وہیں اس نے ہر ملک میں حتیٰ کہ عالم عرب میں بھی اپنی بنیادیں مستحکم بنالی ہیں۔ وہ عرب ممالک جو کبھی اسرائیل کے سخت خلاف تھے‘ آج ان سے دوستانہ تعلقات قائم کرچکے ہیں۔ یہ ان کی سیاسی حکمت عملی ہے یا اپنے اقتدار کی بقاء کے لئے منافقت اور قوم سے بغاوت یہ وہی جانتے ہیں۔ عالم عرب کے دروازے یہودیوں کے لئے عام مسلمانوں سے زیادہ کشادہ ہوچکے ہیں۔ چنانچہ اسرائیل سے اگر ہندوستان کے تعلقات مستحکم ترین ہوجاتے ہیں تو اس پر اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اپنے ہی اپنے نہ رہے تو اوروں سے کیا گلہ!
مٹھی بھر یہودیوں کی خودساختہ مملکت اسرائیل کو مغربی ممالک کی ہر طرح سے مدد حاصل ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایک امریکی صدر ہی کیا دنیا کے کسی بھی ملک کے سربراہ کے انتخاب میں اسرائیل اور اس کی تنظیم فری میسن کا اہم رول ہوتا ہے۔خود ہمارے شہر حیدرآباد میں بہت سارے نام نہاد مسلمان اس کے خفیہ ممبر ہیں۔ وہ ان کے باقاعدگی سے منعقد ہونے والی میٹنگس میں شرکت کرتے ہیں بہرحال! امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8بلین ڈالرس فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔ ا بھی حال ہی میں پیپسی بنانے والی کمپنی نے اسرائیل کے لئے ایک ارب ڈالر کی رقم کا عطیہ دیا ہے۔ یوں تو سوشیل میڈیا پر اسرائیلی پراڈکٹس کو بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی جارہی ہے مگر اسرائیل کے کس کس پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے۔ آج اگر اسرائیل کو نشانہ بنانا بھی ہے تو اسی جی پی ایس کا سہارا لینا پڑتاہے جو اسرائیل کی ایجاد کردہ ہے‘ جس کی دنیا اس قدر عادی ہوچکی ہے کہ اس کے بغیر وہ خود کو اپنی گلی بلکہ خود اپنے گھر میں بھی اجنبی محسوس کرتے ہیں۔
آج دنیا کی ہر بڑی کمپنی چاہے وہ فیس بک ہو‘ یا ٹوئیٹر(X)، انٹرنیشنل بینکس، گولڈ مین سیاکس یا فلم کمپنیز یونیورسل پکچرس، کولمبیا پکچرس، 20سنچری فاکس یا پھر میڈیا ہر جگہ انہی کا قبضہ ہے انہی کا راج ہے۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے فلسطین پر قبضہ کررکھا ہے۔ آج غزہ میں چالیس ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ جو زخمی ہیں وہ شاید ہی کبھی اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہونے کے قابل ہوں گے۔ 96%پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ اب تو غزہ کو کربلا بنادیا گیا ہے۔ بجلی کی سربراہی نہیں‘ کھانے پینے کی شئے نہیں۔ان مظلوم عوام کے لئے اسد اویسی نے آواز اٹھائی‘ نعرہ لگایا جو قابل قدر و ستائش ہے۔ آگے کیا ہوگا وہ تو مقدر کا لکھا ہے۔

Exit mobile version