موجودہ کرپٹ تعلیمی نظام کی موجودگی میں ہم وشو گرو نہیں بن سکتے
✍️ عبد الغفار صدیقی
__________________
فرد، سماج اور ملک کی ترقی کا انحصارتعلیم پر ہے۔ جن ممالک کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں،ان میں سے بیشتر کی تعلیمی شرح 80فیصد سے زائد ہے۔جاپان،جرمنی اوریوکے کی شرح تعلیم 99 فیصد ہے۔آج کے دور میں تعلیم کی اہمیت و افادیت اور ضرورت پر گفتگو کرنا لاحاصل ہے اس لیے کہ کوئی مجنوں اور دیوانہ ہی اس کے مفید ہونے سے انکار کرسکتا ہے۔ان پڑھ، غریب، مزدور یہاں تک کہ بے سہارا ومعذور افراد بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے کماحقہ فکرمند نہ سہی لیکن خواہاں ضرور ہوتے ہیں۔
قانون بنانے والے بھلے ہی ناخواندہ ہوں لیکن کسی ملک کا نظام چلانے اور قانون نافذ کرنے کے لیے چپراسی سے لے کر حاکم تک تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور اہل ملک کے مستقبل کا دارومدار انھیں حکام پر ہوتا ہے۔مگر المیہ یہ ہے کہ بیشتر ممالک میں سیاست دانوں کے لیے کسی تعلیمی سند کی ضرورت نہیں ہے،جب کہ سیاست دان ہی اصلاً ملک کو چلاتے ہیں۔بھارتی جمہوری نظام میں ہر شعبہ زندگی کے لیے ایک وزیر ہوتا ہے۔لیکن اس وزیر کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے۔بہار کی وزیر اعلیٰ محترمہ رابڑی دیوی صرف آٹھویں پاس تھیں اور ریاست کی تین بار وزیر اعلیٰ رہیں،محترمہ اسمرتی ایرانی بارہویں پاس تھیں اور کیبنٹ منسٹر کے ساتھ کئی شعبوں کی وزیر رہیں۔وزراء کے ماتحت جو عملہ کام کرتا ہے اس میں سکریٹری سطح کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اپنے سے کم تعلیم یافتہ افراد کے ماتحت کام کرتے ہیں۔بھارتی سیاست میں جملہ اختیارات حکومت اور اس کے وزراء کے پاس ہوتے ہیں۔یہاں تک حکومت چاہے تو سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی بدل سکتی ہے ہماری 76سالہ سیاسی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب اعلیٰ تعلیم یافتہ عملہ ایک ناتجربہ کار اور کم تعلیم یافتہ شخص کے ماتحت کام کرے گا تو کس طرح کے نتائج برآمد ہوں گے؟
صرف اسی پر اکتفا نہیں کہ وزیر محترم کی تعلیمی صلاحیت کم ہے وہ اپنی سیاسی جماعت کی پالیسی اور فیصلوں کے بھی پابند ہیں۔ہر وزیر حلف لیتے وقت بھارتی آئین کے تحفظ،اس کی سالمیت و بقا کا حلف اٹھاتا ہے لیکن عملاً وہ اپنی جماعت کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ بھارتی سیاست میں عصبیت کا زہر ابتداء سے ہی سرایت کرگیا تھا۔مہاتما گاندھی کی جان اسی عصبیت نے لے لی تھی۔ہمارے سیاسی کلچر میں سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں نمائندوں کو کھڑا کرتے وقت ملک کے مفاد،آئین کی سالمیت اور عوام کی فلاح و بہبود کا خیال نہیں رکھتیں،بلکہ اس بات کو پیش نظر رکھتی ہیں کہ کس حلقہ انتخاب میں کس ذات اور مذہب کی اکثریت ہے اور ذات پات کے کس ضرب و تقسیم کے مطابق جیت حاصل کی جاسکتی ہے۔رفتہ رفتہ عوام کا مزاج بھی اسی طرح کا بنادیا گیا ہے کہ وہ بھی ووٹ دیتے وقت ذات اورمذہب دیکھتی ہے،اسی لیے اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ الیکشن میں فتح و شکست کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذات و مذہب اور ووٹوں کی خریدو فروخت کی صلاحیت کی بنیادپر ہوتی ہے۔اس ساری بحث کا حاصل یہ باور کرانا ہے کہ آج ملک کی حالت جو ناگفتہ بہ ہے اس میں سب سے بڑا عنصر یہ ہے کہ ملک کے مقتدر گروہ کے لیے کسی تعلیمی صلاحیت کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- امہات القدس: دفتر ہستی میں ہے زریں۔۔۔۔
- شعب ابی طالب کا پیغام
- مصنوعی ذہانت: اکیسویں صدی کا سب سے بڑا انقلاب
اب ایک دوسرے پہلو سے غور کیجیے۔ اب تک ہمارے تعلیمی نظام میں ”پیپر لیک“ یا نقل کا معاملہ شاذ و نادر ہی تھا۔حالانکہ ابتدائی درجات میں امتحانات میں نقل کا سلسلہ بہت قدیم ہے،آج بھی پرائمری سے لے ڈگری کالجز تک اور پروفیشنل کورسیز کے امتحانات میں نقل عام ہے،بلکہ کالج انتظامیہ نقل فراہم کرتی ہے،یہاں تک کہ بلیک بورڈ پر جوابات لکھ دیے جاتے ہیں یا زبانی املا کرائے جاتے ہیں۔اس معاملہ میں پہلے بہار بدنام تھا آج پورا ملک بدنام ہے۔اس سے آگے بڑھ کر پیپر لیک کا معاملہ ہے،یعنی امتحانات سے قبل ہی پیسے لے کر یا سیاسی اثرو رسوخ کی بنا پر امتحانی پرچہ فراہم کردیا جاتا ہے۔گزشتہ دس سال میں ایسے ایک دو نہیں بلکہ درجنوں واقعات ہوئے ہیں۔زیادہ تر سرکاری بھرتیوں کو اسی بنا پر رد بھی کیا گیا ہے۔تازہ معاملہ NEETکا ہے۔تعلیم کے اس خوفناک منظر نامہ کے پس منظر میں کیسا بھارت پوشیدہ ہے آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔یعنی اب سے دس سال پہلے تک صرف یہ تھا کہ وزراء کم تعلیم یافتہ ہوتے تھے۔ان کے ماتحت عملہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتا تھا جو اپنی محنت اور میرٹ کی بنیاد پر تقرر پاتا تھا۔اب یہ ہوگا کہ ماتحت عملہ بھی اصلاً بے صلاحیت ہوگا اگرچہ اس کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہوں گی۔ قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کا نظام کیسے ہاتھوں میں ہوگا اور اس کے کس قدر بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔
ملک کے تعلیمی نظام میں نجکاری کے سبب پیسوں کا دخل پہلے سے ہی بہت بڑھ گیا ہے۔میڈیکل کالجوں میں PAYMENT SEATکی خاطر خواہ تعدا د ہے۔منابھائی کا کلچر بھی جاری ہے جہاں کوئی دوسرا شخص امتحان دیتا ہے۔اس پرمستزاد یہ کہ اب پیپر لیک ہونے لگے یا پیپر بیچے جانے لگے۔تب آپ اندازہ لگائیے کہ ملک کو کیسے ڈاکٹر فراہم ہوں گے۔جو لوگ لاکھوں اور کروڑوں روپے دے کر ایم بی بی ایس بنیں گے وہ کس قسم کے ڈاکٹر ہوں گے؟نہ تو ان کے اندر بیماری کا علاج کرنے کی صلاحیت ہوگی اور نہ ان کے اخلاق میں مریض سے ہمدردی ہوگی۔ہسپتالوں میں آئے دن اجتماعی اموات کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔مریض کی موت واقع ہوجانے کے بعد بھی اسے وینٹی لیٹر پر رکھ کر زندوں کی کھال کھینچی جاتی ہے۔لاش تک کا سودا کیا جاتا ہے۔یہ کرپشن صرف میڈیکل کے شعبہ تک ہی محدود ہی نہیں،بلکہ تمام شعبوں میں ہے۔بی ایڈ اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی گھر بیٹھے اور بنا پڑھے حاصل کی جاسکتی ہیں۔اساتذہ کے تقرر میں رشوت خوری عروج پر ہے۔یہ ساری خرابیاں صرف اس بنا پر ہیں کہ حکومت چلانے والے افراد متعصب،مفاد پرست اور کم تعلیم یافتہ ہیں۔
قارئین کو یقیناً یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اب مدارس کی ڈگریاں بھی بیچی جارہی ہیں۔یہ بات میں صرف گمان کی بنا پر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس کا عملاً تجربہ کرچکا ہوں۔ایک بار ایک مفتی صاحب سے ملاقات ہوئی،ان کے جانے کے بعد میں نے اپنے ایک عالم دوست سے کہا:۔”کاش ہم بھی مفتی ہوتے۔“ اس نے کہا:۔”اس میں کاش کی کیابات ہے؟آپ پانچ ہزار روپے خرچ کیجیے اور مفتی بن جائیے۔“ میں سمجھا کہ وہ مذاق کررہے ہیں اس لیے کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مفتی کی سند بھی فرضی مل سکتی ہے۔اب تک میرے کان سرکاری نظام تعلیم میں کرپشن کی آوازوں سے ہی مانوس تھے۔ایسا پہلی بار ہورہا تھا کہ کوئی عالم مجھ سے کہہ رہا تھاکہ پانچ ہزار میں مفتی کی سند مل سکتی ہے۔خیر میں نے کہا:۔”لائیے مجھے دلوائیے۔“ اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ میرے ہاتھوں میں افتاء کی سند تھی۔اس کا تذکرہ میں نے ایک دیگر مفتی سے کردیا وہ فرمانے لگے:۔”آپ نے بلا وجہ زیادہ رقم خرچ کی،یہ تو پندرہ سو روپے میں بھی مل سکتی تھی۔“میں نے اس مدرسہ کا منہ نہیں دیکھا اور مدسہ ہٰذا نے میرا منہ نہیں دیکھا اور میں مفتی بن گیا۔اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ جس سند کا آغاز ہی اللہ کی حمدو ثنا سے ہورہا ہو،جس پر کلمہ شہادت درج ہو،جس سند کی بنیاد پر دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جانا ہے۔اس کو فروخت کیا جارہا ہے۔سوچیے ہماری دینی بے راہ روی کا ذمہ دار کون ہے؟
ہمارا پرائمری اور ثانوی تعلیمی نظام تو گزشتہ چالیس سال سے چوپٹ ہے،اس کے بعد ہائی اسکول اور انٹر میڈئیٹ کے نظام میں خرابیاں آئیں،اب گریجویٹ میں کھلے عام نقل کی سہولت فراہم کی جارہی ہے (ایک دو فیصد کالج اس سے مشتثنیٰ ہوسکتے ہیں)،پروفیشنل کورسیز کی ڈگریاں فروخت ہورہی ہیں،بھرتیوں میں گھوٹالہ ہورہا ہے،آئے دن پیپر لیک کے معاملے سامنے آرہے ہیں۔اقلیتوں کے تعلیمی حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔اخلاقی تعلیم کو نصاب تعلیم سے باہر کردیا گیا ہے۔سرکاری اسکولوں میں وقت پر نہ کتابیں میسر ہیں نہ اساتذہ،ایسے حالات میں ملک کو ترقی یافتہ بنانے کا خواب دیکھنا دن میں سپنے دیکھنے کے سوا کیا ہے؟
تعلیمی نظام میں درآئی ان خرابیوں کے اثرات پوری زندگی پر پڑرہے ہیں اور آئندہ بھی پڑیں گے۔ایک غریب کا بچہ اپنے خاندان کی جانیں جوکھم ڈال کر،اپنا سب کچھ داؤں پر لگا کر اس کے ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھتا ہے مگر جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ ”کچھ بااثر لوگوں نے پیپر خرید لیا ہے تو اس کی حالت کیا ہوتی ہوگی؟کیا وہ زہر کھاکر اپنی جان نہیں دے گا جیسا کہ کچھ لوگ کرتے ہیں۔نہ اچھے ڈاکٹر میسر ہوں گے نہ اساتذہ،نہ ایماندار کلرک ملیں گے نہ آفیسرز،وزراء کو اچھے قلم دان ملیں گے مگر ان کو باصلاحیت سکریٹری نہیں ملیں گے۔ابھی تو یہ خرابیاں کم ہیں تب یہ حال ہے کہ بہار میں ہر دوسرے دن ایک پل جل سمادھی لے رہا ہے،ائر پورٹ کی تازہ چھتیں زمین پر سجدہ ریز ہیں،ذرا تصور کیجیے اگر یہ کرپشن اسی طرح بڑھتا رہا تو ملک کا کیا ہوگا؟کیا موجودہ تعلیمی نظام کے رہتے ہوئے ہم وشو گرو بن سکتے ہیں،ہاں کرپشن میں یہ مقام ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔
میری حکومت اور اس کے ذمہ داروں اور اپوزیشن لیڈروں سے درمندانہ گزارش ہے کہ خدا کے واسطے ملک کے مستقبل پر سیاسی روٹیاں نہ سیکیں،بلکہ سنجیدگی کے ساتھ ٹھوس اقدامات کریں۔اپوزیش اگر یہ سوچتی ہے کہ اس کے دور اقتدار میں ایسا نہیں ہوا تو اس کی بھول ہے۔ملک میں ابتدائی تعلیمی نظام کو چوپٹ کرنے میں اس کا اہم رول ہے۔ملک میں کرپشن کی ذمہ دار وہ بھی ہیں۔لیکن ماضی کے زخموں کو نہ کریدیے،حال کی بیماریوں کا علاج کیجیے تاکہ مستقبل صحت مند ہوسکے۔