✍️ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
zafardarik85@gmail.com
________________
تبصرہ نگاری نہایت دلچسپ اور اہم فن ہے ۔ تبصرے متنوع مسائل پر کیے جاتے ہیں ۔ مثلا سیاسی ،سماجی ، ملکی ، قانونی احوال و واقعات وغیرہ وغیرہ ۔ لہٰذا اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تبصرے کا مفہوم و معنی سمجھ لیا جائے ۔ چنانچہ
رئیس احمد صمدانی تبصرے کا مفہوم اس طرح پیش کرتے ہیں:
"تبصرے میں کتاب کے مندرجات اور اسلوب بیان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مواد کے مثبت و منفی پہلوؤں کو اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔ تبصرہ قاری کو کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اس کی بنیاد پر قاری اس دستاویز یا کتاب کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کے قابل ہوجاتاہے”
اسی طرح کلیم الدین احمد نے تبصرہ کا تصور درج ذیل الفاظ میں پیش کیا ہے:
” کسی تصنیف ، کلام یا واقعہ کے متعلق سرسری طور پر بحث ومباحثہ کے لیے جب رائے کا اظہار کیا جاتا ہے تو اسے تبصرہ کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد کسی کتاب کے جو ہر کا پتہ لگانا اور اسے اجمال یا تفصیل کے ساتھ پیش کرنا اور جو کچھ کہا جائے اس سے کتاب کی اہم ترین خصوصیتیں واضح ہوجائیں۔”
متذکرہ اقتباسات کی روشنی میں یہ بات کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تبصرہ کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ سماج و معاشرے اور اہل علم و ادب کو کسی کتاب کی بابت معلومات فراہم کی جائیں ۔ اس کتاب کی خصوصیت اور اس کے مضامین و مباحث سے یا موضوع سے متعارف پوری دیانت و سنجیدگی سے کرایا جائے ۔ اس سے یقیناً معاشرے میں علمی روایت مستحکم ہوتی ہے جو ہمارے سماج کی یکجہتی اور امن و امان میں مثبت رول ادا کرتی ہے ۔ اس لیے تبصرہ کتابوں پر کیا جائے یا کسی اور مسئلہ پر، معاشرتی تعمیر و ترقی کے لیے تبصرہ کا حقائق پر مبنی ہونا ضروری ہے ۔ واضح رہے کہ کتابوں پر تبصرے کی روایت تقریبآ تمام زبانوں میں پائی جاتی ہے ۔ انگریزی میں۱۸۰۲ میں Edinburg Review and Critical Journal کا اجراء عمل میں آیا جس میں تنقیدی مضامین کے ساتھ معیاری تبصروں کو بھی جگہ دی گئی۔
اگر ہم عربی زبان میں تبصرہ نگاری کی تاریخ و روایت پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس موضوع پر ماہرین نے کئی اہم کتابیں تصنیف کی ہیں ۔
اس ضمن میں سب سے پہلا نام محمد بن اسحاق بن ندیم (م995ء) کا ملتا ہے ۔ اس نے ” الفہرست” کے نام سے ایک اہم ترین اور جامع ترین کتاب تصنیف کی ۔اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ ظہور ِ اسلام کے بعد ابتدائی چار صدیوں میں مسلمانوں نے عربی زبان میں جن علوم و فنون پر کتابیں لکھیں اور جو ادب شعر و نثر میں تخلیق کیا ان کو ابن ندیم نے موضوع وار درج کیا ہے۔ مصنفین کے حالات کے ساتھ ان کی کتابوں کے نام درج کیے ہیں۔ بعض اہم قلمی کتابوں کی مختلف نقول علما کے ذاتی کتب خانوں میں موجود تھیں جن کی ابن ندیم نے کتابیاتی تفصیل بھی دی ہے۔ "الفہرست "میں جن موضوعات اور علوم و فنون پر کتابوں اور مصنفین کے ناموں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی مختصر تفصیل اس طرح ہے:
ابن ندیم نے کتاب کو دس بڑے ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ جن کا نام اس نے مقالات رکھا ہے۔ ہر مقالہ متعدد فصول یا فنون پر مشتمل ہے اور فنون کی کل تعداد بتیس ہے۔ مقالات کی فہرست درج ذیل ہے۔
اللغات والكتب المقدسہ وعلوم القرآن۔اللغہ والنحو۔الأخبار والأنساب۔الشعر۔علم الكلام۔الحديث والفقہ۔الفلسفات۔الأسماء والخرافات۔الاعتقادات۔الكيمياء أو الصنعہ۔ عربی زبان و ادب میں ابن ندیم کی یہ پہلی کتاب ہے جو تبصرہ نگاری کے اسلوب و آداب سے بحث کرتی ہے اور آج کے تبصرہ نگاروں کو نشان راہ متعین کرتی ہے ۔
اسی طرح عربی زبان میں میں تبصرہ نگاری کے عنوان پر ایک اور اہم کتاب ” کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون” ہے ۔ اس کتاب کو مصطفیٰ آفندی معروف بہ حاجی خلیفہ ( 1067ھ) نے لکھا ہے ۔ اس کتاب کے اندر کم و بیش پندرہ ہزار کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے ۔ اثناء تعارف کتابوں پر نہایت وقیع تبصرے بھی ملتے ہیں ۔ اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ پڑھنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے ۔ علامہ حسین نبہانی کی "التذكار الجامع للآثار”علامہ اسماعیل پاشا کی ” ایضاح المکنون فی الذیل علی کشف الظنون ” شیخ جمیل ابن مصطفیٰ ابن محمد حافظ کی ” السر المصون ذیل علی کشف الظنون ” وغیرہ بھی فن تبصرہ نگاری پر بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔ شیخ یوسف سر کیس کی معروف کتاب” معجم المطبوعات العربیہ والمعربہ ” فن تبصرہ نگاری پر بڑی معنی خیز مانی جاتی ہے ۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ متذکرہ کتابوں میں تبصرہ نگاری پر جو اصولی اور بنیادی مباحث یا کتاب پر تعارف و تبصرہ کا جو طریقہ ملتا ہے وہ ہر ایک تبصرہ نگار کو اختیار کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی کتاب کا حق ادا ہوسکے نیز معاشرے اور علمی حلقوں میں اس کتاب کا درست پیغام پہنچ سکے ۔
فارسی زبان میں بھی فن تبصرہ نگاری پر کتابیں تصنیف ہوئی ہیں ۔ کئی بڑے بڑے فضلاء اور ادیبوں نے فارسی زبان میں تبصرہ نگاری پر تصنیفی و تحقیقی کارنامے انجام دییے ہیں ۔ مغلیہ دور اقتدار کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں بڑے بڑے ارباب علم و ادب اور صاحب قدرت ادیب و نقاد گزرے ہیں ۔ انہیں میں اکبر کے دور اقتدار کا ماہر ادیب اور زبان و قلم کا بے تاج بادشاہ ابو الفضل کا نام تاریخ میں جلی حروف سے لکھا جاتاہے ، ابو الفضل کے بھائی ابو الفیض فیضی فیاضی بہت معروف ادیب اور انشاء پرداز تھا ۔ اس کی زبان و بیان پر قدرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے عربی زبان میں قرآن مجید کی غیر منقوط تفسیر ” سواطع الالہام” کے نام سے تصنیف کی ہے۔ ابو الفضل فارسی زبان کے اچھے ادیب اور صاحب طرز محقق مانے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ انہیں کی ایک کتاب "کشکول” کے نام سے ہے ۔ یہ کتاب ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو ابوالفضل نے پڑھیں اور ان کے مباحث پسند آئے ان کو اس نے کشکول کے نام سے ترتیب دیا تھا۔ فارسی زبان میں تبصرہ نگاری پر ابو الفضل کی کتاب” کشکول” کے اندر اہم مباحث ملتے ہیں ۔ ابو الفضل کی دوسری کتاب فن تبصرہ نگاری پر "مکاتبات علامی” ہے ۔ اس کتاب کو ترتیب تو ابوالفضل کے بھانجے عبدالصمد بن افضل نے دیا تھا، لیکن یہ ان مکاتیب کا مجموعہ ہے جو ابو الفضل نے لکھے تھے۔ اس کو تین جلدوں میں ترتیب دیا گیا ہے اس کی تفصیل محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ” دربار اکبری” میں لکھی ہے:
اول دفتر ( پہلی جلد )میں مراسلے ہیں جو بادشاہ کی طرف سے سلاطین ایران و توران کے لیے لکھے تھے اور وہ فرمان ہیں جو امرائے دولت کے لیے جاری ہوئے تھے۔
دفتر دوم ( جلد دوم )میں وہ خطوط اور مراسلے ہیں جو امراء اور احباب واقربا کے نام لکھے ہیں۔ ان کے مطالب اور قسم کے ہیں ۔
دفتر سوم ( تیسری جلد) میں اپنی بعض کتابوں کے دیباچہ، بعض مصنفین سلف کی کتابوں میں سے کسی کتاب کو دیکھا ہے اسے دیکھ کر جو خیال گزرا ہے انہیں کی تصویر نثر کے رنگ میں کھینچ دی ہے ۔ گویا ” مکاتبات حضرمی” کی تیسری جلد میں ابو الفضل نے فن تبصرہ نگاری پر دلچسپ گفتگو کی ہے ۔
اُردو زبان میں بھی تبصرہ نگاری پر بڑا اہم قابل قدر کام ہوا ہے ۔ تحریک سر سید سے وابستہ کئی ماہرین نے تبصرے کیے ہیں جو آج بھی مطبوعہ ہیں ۔خود سرسید احمد خاں نے کتاب’نجم الامثال‘ پر تبصرہ کیا ہے اور وہ تبصرے کے اہم شرائط پر گفتگو کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
” اگر ہم ان تمام باتوں کو راستی کے ساتھ بیان نہ کریں جو اس کتاب میں ہیں تو ہم صرف ایک مداح ہوںگے اوراس کے حسن و قبح کی نظر کرنے والے نہ ہوں گے۔ اس لیے ہم اس بات کو بیان کیے بغیر نہ رہ سکتے۔”
سرسید کے رفقاء میں تبصرہ نگاری کے فن پر مہدی افادی نے بھی گفتگو کی ہے۔ ’ تمدن عرب پر مہدی افادی کا تحریر کردہ مضمون 1899میں رسالہ ریاض الاخبار میں شائع ہوا تھا جو تبصرہ کی اہم کڑی ہے ۔
سرسید تحریک سے وابستہ ایک اور قابل قدر ادیب الطاف حسین حالی نے بھی تبصرہ نگاری پر بحث کی ہے۔ الطاف حسین حالی نے علامہ شبلی نعمانی کی کتاب’سیرت النعمان‘ پر تبصرہ لکھا۔ یہ ریویو 1892کے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہوا۔ تحریک سر سید کے علاوہ فن تبصرہ نگاری میں ایک نمایاں نام مولانا ابوالکلام آزاد کا آتا ہے ۔ انہوں نے ماہنامہ ” صدق” میں ایک کالم "تنقید” کے لیے مختص کیا تھا ۔ اس کالم کے تحت اہل علم کو نئی کتابوں سے روشناس کرایا جاتا تھا ۔
فن تبصرہ نگاری کا سلسلہ اب بھی پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے ۔ رسائل و جرائد اور یومیہ اخبارات میں کتابوں پر تبصرے شائع کیے جاتے ہیں ۔ روزنامہ انقلاب دہلی ، روزنامہ راشٹریہ سہارا اُردو دہلی وغیرہ وغیرہ میں ہفتہ میں ایک دن نئی کتابوں پر تبصرے شائع کیے جاتے ہیں ۔
کتاب پر تبصرہ کرنا اچھی بات ہے اس سے علم میں اضافہ ہوتا ہے ۔ علمی و تحقیقی فکر پروان چڑھتی ہے،اور یہ سچ ہے کہ جو معاشرہ فکری و تحقیقی فکر و نظر کا حامل ہوگا اس کے اندر توازن ہوگا ، تحمل و بردباری ہوگی سب سے بڑی بات ایسا سماج پرامن رہتا ہے ۔ البتہ کسی کتاب پر تبصرہ کرنے سے قبل تبصرہ نویس کوچاہیے کہ وہ کتاب کو پوری طرح پڑھے ، اس کے بعد مصنف کے متعلق معلومات حاصل کرے اس کا علمی پس منظر بھی مبصر کو معلوم ہونا چاہیے ۔
تبصرہ نگاری کے لیے ضروری یہ بھی ہے کہ تبصرہ نویس موضوع سے بھی واقف ہو ، کتاب پر تبصرہ تو کررہاہے لیکن جس موضوع پر کتاب ہے اس کے متعلق تبصرہ نگار کو معلومات نہیں ہے، ایسی صورت میں کوئی بھی تبصرہ نگار زیر تبصرہ کتاب کا حق ادا نہیں کر پائے گا ۔
تبصرہ نگار کو موضوع کی عصری معنویت و جامعیت پر بھی گفتگو کرنی چاہیے ، کتاب کی عصری اہمیت کو اجاگر کرنے سے نہ صرف اس کتاب کی عظمت میں چار چناد لگیں گے بلکہ تبصرہ نگار کی اہمیت میں اضافہ ہوگا ۔ چوتھی چیز تبصرہ نگاری کے لیے متوازن سوچ کا پایا جانا ہے ۔ یعنی اگر مبصر متوازن نہیں ہے بلکہ کسی خاص نظریہ کو سامنے رکھ کر کتاب پڑھ رہا یا اس پر تبصرہ کررہاہے ہے تو وہ اچھا اور غیر جانب دار تبصرہ نہیں کرسکتا ہے ۔ آج ہمارے معاشرے میں تبصرہ کے نام پر بیشتر مضامین و مقالات اور تبصروں میں کہیں نہ کہیں جانبداری اور تعلقات نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج کتابوں پر تبصرے تو کثرت سے ہورہے ہیں لیکن جن کتابوں پر تبصرہ کیا جاتاہے ان کی سچی اور حقیقی تصویر عوام کے سامنے نہیں آتی ہے ۔ تبصرہ نگاری، مضمون نویسی کی ایک ایسی صنف ہے جو بنیادی طور پر اپنے آپ میں امانت و سنجیدگی تحقیقی و مثبت تنقیدی رویوں کی متقاضی ہے ۔ کتاب پر تبصرہ تو کردیا مگر اس میں پائی جانے والی خوبی یا خامی کا ذکر نہیں کیا گیا،تصور کیجیے ایسا تبصرہ حق بجانب ہوگا ؟ خود تبصرہ نگار ایسے تبصرے سے مطمئن ہوپائے گا ؟
یاد رکھیے! تبصرہ نگاری ایک طرح کی گواہی ہے اگر گواہی کسی کے متعلق غلط دی تو اس کے متعلق اسلامی تعلیمات میں جو ہدایات ملتی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں ۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی کتاب پر تبصرہ کرنے سے قبل اس کا مطالعہ نہایت سنجیدگی سے کرنا اور اس کے مباحث کو بلا کسی جانبداری یا مسلکی و فکری دباؤ کے ساتھ پڑھنا اور انہیں عوام کے سامنے پیش کرنا لازمی ہے، تبھی جاکر کسی بھی کتاب پر شایان شان تبصرہ ترتیب دیا جاسکتا ہے ۔
کسی بھی کتاب پر تبصرہ نگاری کے لیے بنیادی طور پر سوچ کا بڑا عمل دخل ہے ۔ سوچ اگر حق بجانب ہے تو تبصرہ بھی درست نتائج پر مبنی ہوگا اور اگر سوچ میں کسی بھی طرح کا تعصب یا تنگ نظری ہے ، یا پھر مسلکی ترجیحات ہیں تو یقین جانیے ایسا شخص کبھی بھی اپنے نظریہ اور موقف کے علاوہ کسی دوسرے موقف کی اچھی کتاب پر بھی درست تبصرہ نہیں کر پائے گا ۔ لہٰذا کتاب پر تبصرہ کرنے کے لیے معتدل سوچ اور متوازن نظریہ کا حامل ہونا ضروری ہے ۔