Site icon

ماب لنچنگ اور جمعیۃ کی انقلابی تجویز

✍️ شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز

________________

جمعیۃ علماء ہند کے منتظمہ کے اجلاس میں ، وہ تجویز جِسے ’ انقلابی ‘ کہا جا رہا تھا ، نامنظور ہوگئی ۔ اور یہ اچھا ہی ہوا ۔ تجویز ، جماعت کے کسی کلیدی عہدے پر عہدیداران کے مدتِ کار کو ، دو ٹرم تک محدود کرنے کی تھی ۔ یعنی اگر کوئی شخص صدر ، جنرل سکریٹری یا کسی اور عہدے پر دو ٹرم ( آٹھ سال ) تک بنا رہتا ہے ، تو آئندہ وہ انتخابی عمل میں حصہ نہ لے سکے ، اس کی جگہ کوئی اور آ جائے ۔ تجویز یقیناً ’ انقلابی ‘ تھی ، لیکن یہ تجویز منظور ہونے پر ، کئی طرح کے شَر بھی کھڑے کر سکتی تھی ، اور جماعت کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے ، تربیت یافتہ سہی مگر ناتجربہ کاروں کو سامنے لا سکتی تھی ؛ شَر بھی جماعت کے لیے فتنے کے دروازے کھولتا ، اور ناتجربہ کاری بھی جماعت کا کوئی بھلا نہ کر پاتی ۔ ہاں ، مگر چند اور تجاویز تھیں ، جو مظور بھی کی گئیں ، ان کے لیے جماعت کے ذمے داران ، بالخصوص مولانا سیّد محمود مدنی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ ایک ایسی ہی تجویز ’ ماب لنچنگ ‘ کے ضمن میں تھی ۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد ’ ماب لنچنگ ‘ کے کئی واقعات ہوئے ہیں ، مار پیٹ کے واقعات بھی ہوئے ہیں ، نام پوچھ کر لوگوں پر تشدد کیا گیا ہے ۔ یہ ’ ماب لنچنگ ‘ اور تشدد کے واقعات میری نظر میں ’ اسپانسرڈ ‘ ہیں ! مطلب یہ کہ یہ ’ کروائے ‘ جا رہے ہیں ، پیسے اور لالچ دے کر ، اور جذبات بھڑکا کر ۔ ’ اسپانسرڈ ‘ کرنے والے وہ فرقہ پرست سیاسی عناصر ہیں جو اس الیکشن میں اپنے بَل بوتے پر حکومت نہیں بنا سکے ۔ بی جے پی تشدد کرنے والوں کو گزشتہ دس سالوں کے دوران ’ پروٹیکٹ ‘ ( حفاظت ) کرتی رہی ہے ، اور اب بھی کر رہی ہے ۔ یو پی میں سب سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں ، لیکن یوگی حکومت نے نہ کوئی کارروائی کی ہے نہ ہی امید ہے کہ وہ کارروائی کرے گی ۔ تشدد ’ اسپانسرڈ ‘ کیا جا رہا ہے تاکہ اُن سیاسی جماعتوں کو ، جو جیت کر آئی ہیں ، بدنام کیا جا سکے ، اور انہیں ووٹ دینے والوں کو ڈرایا جا سکے ۔ سماج وادی کے امیدوار جہاں سے جیتے ہیں ، وہ علاقے نشانے پر ہیں ۔ ان حالات میں جمعیۃ علماء ہند نے تجویز منظور کی ہے کہ ’’ ہم ’ گراؤنڈ زیرو ‘ پر جائیں ، اور منظم جدوجہد کریں ۔‘‘ مولانا محمود مدنی نے ’ ماب لنچنگ ‘ کو ہندوستان کی بدترین وبا قرار دیا ہے ، اور اپنے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ہر ضؒلع میں ان واقعات کو مرتب کریں ۔ سوال یہ ہے کہ منظم جدوجہد کیسے کی جائے اور اس کی شکل کیا ہو ؟ اس پر جماعت کو غور کرنا ہوگا ، اور دوسروں کو ، بشمول برادرانِ وطن ، اپنے ساتھ جدوجہد میں شامل کرنا ہوگا ۔ ایک درخواست ہے ؛ جمیعۃ علماء ہند کیوں نہ ’ ماب لنچنگ ‘ کی تجویز کو ’ انقلابی ‘ رنگ دے دے ، کچھ ایسا کرے کہ ساری دنیا اس ’ اسپانسرڈ ‘ تشدد پر توجہ دینے پر مجبور ہوجائے ، کوئی امن ریلی ، کوئی بڑا قانونی اقدام ، سیاست دانوں کے گھروں کے باہر مظاہرے ، حکمراں جماعت کے بھی اور اپوزیشن کے بھی ، کیونکہ اپوزیشن کے لیڈران ابھی ’ ماب لنچنگ ‘ پر جاگے نہیں ہیں ۔ اب جمعیۃ کو متحد ہوکر آگے بڑھنا ہی پڑے گا ، بصورت دیگر یہ تجویز بھی ماضی کی متعدد تجاویز کی طرح فائلوں میں گرد کھاتی پڑی رہے گی ۔

Exit mobile version