Site icon

قومی الیکشن کمیشن کو احتساب کرنا چاہئیے

✍️ جاوید جمال الدین

_______________

ہندوستان کے گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے ملک کے سیاسی حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے اور حزب اختلاف کے حوصلے بلند ہیں ،لیکن انتخابی مہم کے دوران جس طرح اپوزیشن لیڈران کی پگڑیاں اچھالی گئیں ہیں اور اشتعال انگیزی کرتے ہوئے ایک مخصوص فرقے یعنی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور جس طرح انہیں ملک کا دشمن نمبر اول قرار دینے کی کوشش بی جے پی کے لیڈران نے کی اس فہرست میں وزیراعظم نریندر مودی سرفہرات کہے جاسکتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو بُرا بھلا کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے،بلکہ ان سے حوصلہ پاکر چھٹ بھیا لیڈروں نے بھی انتخابی مہم میں کیا کچھ نہیں کہا اور بلکل حمام میں سب ننگے ہوگئے۔الیکشن کمشنر نے وزیراعظم نریندر مو اور وزیر داخلہ امت شاہ سمیت متعدد لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ،البتہ توازن برقرار رکھنے کے لیے بی جے پی اور کانگریس صدور کو مکتوب دے کر متنبہ کردیا۔حیدرآباد کی خاتون امیدوار اور امراوتی کی نونیت رانا کے انداز کو بھی معمولی انداز میں لیا گیا ۔فرقہ وارانہ تقاریر کرنے والوں کو کمیشن نے چھوا بھی نہیں اور تین بندروں کی طرح آنکھیں ،کانا اور منہ بند کرکے بیٹھا رہا۔چند ایک معمولی کارروائی کی گئی لیکن آٹے میں نمک کے برابرہیں اور مذکورہ سوالات اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل الیکشن کمیشن کے کام کاج کاجائزہ لیتے ہیں۔
جمہورت کی سب سے بڑی خوبیوں میں ایک انتخابات کا ایک طے شدہ پر وقت پر بار بار ہونا ہے۔ صاف ستھرا الیکشن جمہوری طرز حکومت کا ایک ناگزیز حصہ ہے اور اور دستور کا ایک بنیادی ڈھانچہ بھی۔ الیکشن کمیشن ریاست میں انتخابات کی زمہ دار و نگہبان ہے۔ ہر انتخابات میں یہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے طرز عمل کا ماڈل کوڈ جاری کرتا ہے تاکہ انتخابات صاف و شفاف طریقے سے اختتام پزیر ہو۔ کمیشن نے سب سے پہلے سنہ 1971 ء میں 5واں لوک سبھا انتخابات میں طرز عمل کا ماڈل کوڈ جاری کیا اور اس کے بعد وقتا فوقتا اس مین ترمیم ہوتی رہی۔ حالانکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ذریعے الیکشن کمیشن کے قوانین کی خلاف ورزی بھی ہوتی رہی اور اپنے عہدے اور حکومت کی مشینری کے غلط اور ناجائز استعمال کی شکایات بھی موصول ہوئیں۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کے کوڈ کسی خاص قوانین کی بنیاد پر نہیں ہیں لیکن اطمینان بخش ضرور ہیں۔ اس کے قوانین دراصل ضابطہ اخلاق کی پابندیاں ہیں۔ البتہ قانونی بنیاد کی عدم موجودگی الیشکن کمیشن کو کوڈ کے نفاذ سے نہیں روکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو رجسٹر کرنے کا قانون سنہ 1989 میں نافذ ہوا اور متعدد قومی، صوبائی اور علاقائی جماعتیں رجسٹر ہوئیں۔ سیاسی جماعتوں کو نشان فراہم کرنے کا اختیاد الیشن کمیشن کو ہوتا ہے۔کمیشن ہی قومی، صوبائی و علاقائی جماعتوں کو شناخت دیتا ہے ۔ اور انتخابی خرچوں پر حد متعین کرتا ہے۔ نامزدگی کا پرچہ بھروانا، انتخاب کی تاریخوں کا اعلان کرنا، الیکٹرورل رول کی تیاری، ووٹروں کی فہرست تیار کرنا، وغیرہ سب کمیشن کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کمیشن دو جماعتوں کو یکساں نشان نہیں دے سکتی گرچہ کہ وہ دونوں الگ الگ صوبوں سے ہوں۔
ویکیپیڈیا کے مطابق الیکشن کمیشن کو استصواب رائے اور ایکژٹ پول پر پابندی لگانے کا پورا اختیار ہے تاکہ وہ انتخابی نتائج کو متاثر نہ کریں۔
انتخابات میں پیسوں کے اثر کو کم کرنے کے لیے کمیشن نے کچھ تجاویز تیار کی۔ کمیشن نے آئی آر ایس افسران کو تمام انتخابات کے خرچوں کا نگہبان بنایا اور ایک امیدوار اپنی انتخابی مہم میں کتنی رقم خرچ کر سکتا ہے اس پر بھی ایک حد متعین کی اور وقتا فوقتا ااس حد میں تبدیلی بھی ہوتی رہی۔ کمیشن نامزدگی کے وقت امیدوار کے اثاثوں کی تفصیل ایک ایفیڈیوٹ پر لیتی ہے ساتھ ہی امیدواروں کو نتیجہ آنے کے بعد 30 دنوں کے اندر ان کو تمام اخراجات کی تفصیل بھی جمع کرنی پڑتی ہے۔ انتخابی اخراجات میں کمی کرنے کے لیے کمیشن نے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے ایام میں کمی کرتے ہوئے 21 دن سے 14 دن کر دیا۔ انتخابات میں جرائم کو کم کرنے کے لیے کمیشن نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ جن امیدواروں پر جرم ثابت ہو گیا ہو ان پر زندگی بھر کی پابندی لگادی جائے۔
واضح رہے کہ ہندوستان کا الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے جو قومی انتخابات کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ یہ ایک انتظامی ادارہ ہے اور لوک سبھا، راجیہ سبھا، صوبائی اسمبلی انتخابات، صدر بھارت اور نائب صدر ہندوستان کے انتخابات اسی کے زیر انتظام منعقد ہوتے ہیں۔ہندوستان الیکشن کمیشن دستور ہند کی دفعہ 324 کے تحت کام کرتا ہے،اور عوام کی نمائندگی ایکٹ کو نافذ بھی کرتا ہے۔ اگر الیکشن کے نفاذ میں قانون کوئی ناکافی پروویژن بناتا ہے تو دستور ہند الیکشن کمیشن کو ان حالات سے نمٹنے کی طاقت فراہم کرتا ہے۔ ایک آئینی ادارہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن بھارتی سپریم کورٹ، یونین پبلک سروس کمیشن اور بھارتی ناظر حسابات و محاسب عام کے عام ساتھ ان اداروں میں شامل ہے جو اپنا کام خود مختاری اور مکمل آزادی سے کرتا ہےآغازمیں 1950ء میں کمیشن میں صرف ایک چیف الیکشن کمشنر ہوتا تھا۔ 16 اکتوبر1989ء کو دو مزید کمشنر نامزد کیے گئے مگر بہت کم مدت کے بعد ان کو جنوری 1990ء میں معزول کر دیا گیا۔ الیکشن کمشنر ترمیم ایکٹ 1989ء کے تحت الیکشن کمیشن کو کثیر رکنی ادارہ بنایا گیا۔ اسی وقت سے الیکشن کمیشن سہ رکنی ادارہ ہے۔ یہ فیصلہ اکثریتی ووٹ کی بنا پر کیا گیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو کمشنر جو زیادہ تر سبکدوش آئی ایس آفیسر ہوتے ہیں، اپنی تنخواہ اور دوسرے بھتے بھارتی سپریم کورٹ کے جج کے برابر پاتے ہیں چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو کمشنر (شرائط خدمات) ایکٹ، 1992 الیکشن کمیشن نئی دہلی میں واقع سیکریٹریٹ کی طرف سے خدمات انجام دیتی ہے،ڈپٹی الیکشن کمشنر-جو زیادہ تر آئی آفیسر ہوتے ہیں – چیف الیکشن کمشنر کی مدد کرتے ہیں۔ پھر ان کے نیچے ڈائیریکٹر جنرل، پرنسپل سکریٹری اور ان کے تابع دار سکریٹری ان کی مدد کو موجود رہتے ہیں۔ صوبائی سطح پر پرنسپل درجے کے آئی ایس ایس آفیسر جن کا عہدہ چیف الیکٹورل آفیسر کا ہوتا ہے وہ الیکشن کمیشن کی مدد کرتے ہیں۔ ضلع اور انتخابی حلقہ کی سطح پر اس کی مدد ڈسٹکرکٹ میجسٹریٹ (اپنی وسعت کے بقدر) ، الیکٹورل رجسٹریشن آفیسر اور رٹرننگ آفیسر الیکشن کروانے میں مدد کرتے ہیں۔عدم صلاحیت اور غلط برتاؤ کی بنیاد پر چیف الیکشن کمشنر کو بھارتی سپریم کورٹ کے جج کی طرح ہندوستانی پارلیمان سے ایک قرارداد منظور (دو تہائی اکثریت لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ) ہو نے کے بعد معزول کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقہ عمل کو امپیچمینٹ کیا جاتا ہے۔ دیگر الیکشن کمشنر کو چیف الیکشن کمشنر کی درخواست پر بھارت کا صدر معزول کر سکتا ہے۔ ابھی کوئی بھی چیف الیشکن کمشنر معزول نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ سال2009 میں انتخابات سے قبل چیف الکشن کمشنر این۔ گوپال سوامی نے صدر جمہوریہ پرتیبھا پاٹل کو الیکشن کمشنر نوین چاولا کو ایک مخصوص سیاسی جماعت کی طرفداری کا حوالہ دیتے ہوئے ہٹانے کی سفارش بھیجی۔ حالانکہ وہ حال ہی میں اس عہدہ پر فائز ہوئے تھے اور لوک سبھا انتخابات کی نگرانی کرنے والے تھے۔ صدر نے رائے دی کہ یہ سفارش ان کے ذریعے واجب العمل نہیں ہے لہذا وہ سفارش مسترد کر دی گئی۔ اس واقعہ بعدکے اگلے ماہ گوپال سوامی رٹائر ہوئے اور چاولہ چیف الیکشن کمشنر بنے اور 2009 لوک سبھا انتخابات ان کی ہی نگرانی میں ہوئے۔
کمیشن کو استصواب رائے اور ایکژٹ پول پر پابندی لگانے کا پورا اختیار ہے تاکہ وہ انتخابی نتائج کو متاثر نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں:

انتخابات میں پیسوں کے اثر کو کم کرنے کے لیے کمیشن کی کچھ تجاویز تیار کی ہیں۔ کمیشن نے آئی آر ایس افسران کو تمام انتخابات کے خرچوں کا نگہبان بنایا اور ایک امیدوار اپنی انتخابی مہم میں کتنی رقم خرچ کر سکتا ہے اس پر بھی ایک حد متعین کی اور وقتا فوقتا ااس حد میں تبدیلی بھی ہوتی رہی۔ کمیشن نامزدگی کے وقت امیدوار کے اثاثوں کی تفصیل ایک ایفیڈیوٹ پر لیتی ہے ساتھ ہی امیدواروں کو نتیجہ آنے کے بعد 30 دنوں کے اندر ان کو تمام اخراجات کی تفصیل بھی جمع کرنی پڑتی ہے۔ انتخابی اخراجات میں کمی کرنے کے لیے کمیشن نے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے ایام میں کمی کرتے ہوئے 21 دن سے 14 دن کر دیا۔ انتخابات میں جرائم کو کم کرنے کے لیے کمیشن نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ جن امیدواروں پر جرم ثابت ہو گیا ہو ان پر زندگی بھر کی پابندی لگادی جائے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی کارروائیوں کو مزید بہتر بنانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کروایا۔ خیال تھا کہ اس کی مدد سے انتخابات میں بے ضابطگی اور بد عنوانی میں کمی آئے گی اور حسن کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔ اس کا سب سے پہلا تجربہ کیرالا کے 1982ء کے اسمبلی انتخابات میں کیا گیا۔ اس کامیاب تجربہ اور قانونی چارہ جوئی کے بعد کمیشن نے ان مشینوں کے استعمال کا حتمی فیصلہ کیا۔کمیشن نے درست معلومات مہیا کروانے، انتظام اور انتظامیہ کو سدھارنے اور انتخابات کے نتائج کے اعلان کے لیے 20 فروری 1998ء کو اپنی ویب سائٹ کا اجرا کیا۔ دھوکا دہی سے بچنے کے لیے کمیشن نے 1993 میں ووٹر آئی ڈی کارڈ جاری کیا جسے 2004 انتخابات سے لازمی قرار دیا گیا۔ حالانکہ کچھ انتخابات میں ووٹر آئی ڈی کارڈ کی جگہ راشن کارڈ کی بھی اجازت دی گئی۔ سال 1998ء میں ایک اجلاس میں کمیشن نے انتخابی کردار کو کمپیوٹرازڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2014ء کے عام انتخابات میں 8 انتخابی حلقوں میں ووٹر ویریفائڈ پیپر آڈٹ ٹرایل کو متعارف کروانا الیکشن کمیشن کی ایک اہم کامیابی تھی۔ اس مشین کا پہلی دفعہ استعمال ستمبر 2013ء کے ناگالینڈ کے ایک انتخابی حلقہ نوکسین کے وسط مدتی انتخاب میں کیا اور تمام انتخابات میں سمتبر 2013ء میں ہی متعدد اسبملی انتخابات میں اس کا استعمال ہوا۔ 2014ء میں ان میں سے کوئی نہیں (نوٹا) متعارف کروایا گیا جو اب تمام ووٹنگ مشینوں میں لازمی طور پر موجود رہتا ہے۔قومی الیکشن کمیشن اس وقت تنقید کا نشانہ بنی جب ڈاکٹر ستیندر سنگھ نے قانون حق معلومات، 2005ء کو ایک درخواست دی جس میں معلوم ہوا کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات مین کمیشن نے کافی غیر ذمہدارانہ کردار ادا کیا ہے۔
جون 2017 کو دن کے 10 بجے الیکشن کمیشن نے مختلف انتخابات میں استعمال شدہ ووٹنگ مشین کو ہیک کرنے کے لیے ایک پروگرام( ھیکاتھون ) کا انعقاد کیا۔ صرف راشٹروادی کانگریس پارٹی اور بھارتیہ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی نے خود کو رجسٹر کروایا،باقی جماعتوں نے دلچسپی نہیں دکھائی۔ مختلف ٹیموں کے ای وی ایم اور وی وی پیٹ کے فنکشن کا مظاہرہ کیا۔لیکن آج بھی شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں ،کیونکہ پہلے اور دوسرے مراحل میں کمیشن نے ایک دیڑھ ہفتے بعد ووٹنگ فیصد کوبڑھاکر پیش کیا ،یہ اس کی جانبداری کی دلیل ہے۔
ان معاملات اور کئی مقامات پر موبائل سے ہیک کیے جانے کے کامعاملہ پیش آیا،ممبئی میں ایک امیدوار کے بہنوئی نے موبائل سے ووٹنگ مشین کھول لی تھی۔اور امیدوار تقریباً 65 ووٹ سے جیت گیا۔
اب وقت آگیاہے کہ الیکشن کمیشن کو سننا چاہئے کہ اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ نے کمیشن کے بارے میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں کیا کہا ہے۔ راجیہ سبھا میں منوج جھا اور لوک سبھا میں مہوا موئترا۔ ڈی ایم کے ایم پی اے راجہ، ترنمول ایم پی کلیان بنرجی، سماج وادی پارٹی کے ایم پی اکھلیش یادو نے الیکشن کمیشن کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس ادارے کی گھٹتی ساکھ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کئی ارکان پارلیمنٹ کے تبصروں کو ایوان کی کارروائی سے ہٹا دیا گیا، لیکن کمیشن میں یہ معاملہ اٹھایا گیا۔اکھلیش یادو نے واضح طور پر کہاکہ "اگر میں اتر پردیش میں ساری 80،نشستیں بھی جیت جاؤں تو سی وہ ایم پر بھروسہ نہیں کرونگا۔” جوکہ کمیشن کے منہ پر طمانچہ ہے۔

Exit mobile version