✍️محمد قمر الزماں ندوی
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 6393915491
____________________
اسلام ایک مکمل دین ،کامل شریعت اور ایک مستقل دستور العمل ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں کے تمام مسائل کا احاطہ کرتا ہے ،انسان جن حالات سے دو چار ہوتا ہے ،ان میں سے کوئی گوشہ نہیں ،جس کو اسلام نے چھوڑا ہو ،ایک ایسا مذہب جو عبادت اور زندگی کے چند رسوم اور طریقوں تک محدود نہ ہو ،بلکہ پوری زندگی کو اس نے اپنے دائرے میں لے رکھا ہو ،علم کی وسعت اور تحقیق و اجتھاد کے تسلسل کے بغیر ژندہ نہیں رہ سکتا ،اسی لیے اسلام میں تمام ہی علوم اور خاص کر علم دین کو بڑی اہمیت شروع دن سے حاصل ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصول علم پر سب سے زیادہ زور دیا اور ہر مسلمان پر علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ۔( ابن ماجہ حدیث نمبر 224)
اسلام وہ واحد مذہب ہے،جس نے اپنی آمد کے اول دن سے علم پر زور دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی ،اس میں توحید خداوندی کی دعوت اور شرک و بت پرستی کی تردید ہونی چاہیے، کیونکہ اسلام کی پوری تعلیم کا حاصل اور خلاصہ یہی خدا کی وحدانیت کا تصور ہے ۔ یا پھر پہلی وحی میں ظلم و جور کی مذمت ہونی چاہیے اور عدل و انصاف کی ترغیب ہونی چاہیے تھی، کیونکہ انسان سب سے زیادہ ضرورت مند ایسے سماج کا ہوتا ہے جو پر امن ہو اور ہر طرح کے ظلم و زیادتی سے محفوظ ہو اور بقاء باہم کے اصول پر قائم ہو لیکن غور فرمائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرجو پہلی وحی نازل ہوئی، اس میں صراحتاً ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں،بلکہ فرمایا گیا کہ اقراء الخ اپنے رب کے نام سے پڑھئے جو تمام کائنات کا خالق ہے ،یعنی سب سے پہلے پیغمبر وقت رسول و نبی کے ذریعہ انسانیت کو جس کی تعلیم دی گئی ہو تعلیم ہے، کیونکہ علم ہی وہ سرچشمہ ہے، جس سے تمام بھلائیاں پھوٹتی ہے اور مفاسد کا ازالہ ہوتا ہے اسی لیے آپ نے علم کو روشنی قرار دیا اور فرمایا ,, العلم نور،، علم روشنی ہے ۔( مستفاد از کتاب دینی و عصری تعلیم مسائل اور حل)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کی اشاعت اور تعلیمی ماحول کے برپا کرنے کی کتنی فکر تھی اور کتنا پاس و لحاظ تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مکہ میں ہر طرح کے پریشان کن اور تکلیف دہ حالات اور دشواری کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دار ارقم کو تعلیم و تربیت کا مرکز بنایا اور اول دن سے اپنے رفقاء کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ ہوئے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دار ارقم یہ اسلام کا سب سے پہلا دعوتی و تعلیمی مرکز تھا اور اس کا انتخاب حکمت و دانائی پر مبنی تھا اور اس کا محل وقوع بھی بہت مناسب تھا اور ہر طرح سے خفیہ دعوتی و تبلیغی مرکز کے لیے مناسب تھا ۔
آج کی تحریر میں ہم مختلف مراجع اور مصادر کی روشنی میں دار ارقم کی تاریخ محل وقوع اور اس کی خدمات کا ذکر کریں گے نیز عہد بعہد اس کی حیثیت پر گفتگو کریں گے ۔ چونکہ دار ارقم کی عصری معنویت یہ ایک مستقل مضمون اور موضوع ہے ، اس کو ہم الگ سے ذکر کریں گے اور اس پر مستقل مضمون رقم کریں گے ۔
دار ارقم کا تعارف :
ارقم بن ابو ارقم رضی ﷲ عنہ
ارقم بن ابو الارقم وہ صحابی جن کا گھر اسلام کا پہلا مدرسہ اور مرکز دار ارقم کے نام سے بنا۔ ارقم کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ ان کے والد کا نام عبد مناف تھا، لیکن اپنی کنیت ابو ارقم سے مشہور ہوئے۔ وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر ایمان لائے، نعمت ہدایت پانے والوں میں ارقم کا ساتواں نمبر تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت ارقمؓ نے اپنے گھر کو درس و تدریس کے لئے وقف کردیا اور یوں اسلام کا پہلا مدرسہ معرض وجود میں آیا اور اس مقام ہدایت کو مرکز دارارقم کے نام سے شہرت ملی۔ حضرت ارقمؓ کا گھر کوہ صفا کے دامن میں مشرقی جانب ایک تنگ گلی میں تھا۔ عام لوگوں کو یہاں آنے جانے والوں کی خبر نہ ہوتی۔ ابتدائے اسلام میں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم اسی گھر میں نشست فرماتے تھے۔اس وقت قریش کی طرف سے ایذاؤں کا خطرہ تھا، اس لیے آپ نے مشرکوں سے مخفی رہ کر دعوت حق کو پھیلایا۔ آپ دار ارقمؓ میں حاضر ہونے والے مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دیتے اوریہ باہر جا کر آپ کے ارشادات عام کرتے۔ اس طرح دار ارقمؓ کو پہلا اسلامی مدرسہ یا پہلی مسلم جامعہ کہا جا سکتا ہے۔ جب اہل ایمان کی تعداد اڑتیس ہو گئی تو ابوبکرؓ نے ایمان کا اظہار کرنے پر اصرار کیا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی ہم قلیل ہیں ابوبکرؓ اپنی بات پر زور دیتے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر بیت ﷲ کے گرد پھیل گئے ۔ابوبکرؓ کھڑے ہوکر خطبہ دینے لگے ،انہوں نے مکہ والوں کو ﷲ رسول کی دعوت دینا شروع کی تھی کہ مشرکین ان پر اور سامعین اہل ایمان پر پل پڑے۔ عتبہ بن ربیعہ نے اپنی بھاری جوتی اتار لی اور ابوبکرؓ کو پیٹنے لگا ان کے پیٹ پر چڑھ کر جوتے کے کنارے سے ان کے چہرے پر اتنی ضربیں لگائیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کا منہ سوج گیا اور ناک اس میں چھپ گئی۔اسی دن آنحضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے چچا حمزہؓ اور ابوبکرؓ کی والدہ ام خیرؓ نے اسلام قبول کیا ۔ مخلصین اہل ایمان کی تعداد چالیس ہو گئی تھی ، آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے دار ارقمؓ ہی میں بیٹھ کر دعا فرمائی اے ﷲ!تمہیں عمرؓ بن خطاب یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) میں سے جو زیادہ پسند ہے ، اس کے ذریعے اسلام کو عزت بخش۔ یہ بدھ کا دن تھا اگلے ہی روز جمعرات کو عمرؓ بن خطاب نے گلے میں تلوار لٹکا کر دارارقمؓ کا رخ کیا آپ صلی ﷲ علیہ وسلم اور چالیس کے قریب صحابہؓ یہاں جمع تھے۔ عمرؓ کا ارادہ سب کو قتل کرنے کا تھا، راستے میں نُعیمؓ بن عبدﷲ سے ملاقات ہوئی انہوں نے کہا تمہاری بہن فاطمہؓ اور بہنوئی سعیدؓ بن زید مسلمان ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ہو چکے ہیں ،پہلے ان کی خبر لے لو۔ عمرؓنے جا کر ان کو مارا پیٹا لیکن سورۂ طہٰ کی آیات سننے کے بعد دل پلٹ گیا۔ اب وہ مسلمان ہونے کے ارادے سے نکلے خبابؓ بن ارت سے ملاقات ہوئی اورپھر دار ارقمؓ پہنچ گئے۔عمرؓ مشرف باسلام ہوئے تویہاں موجود مسلمان باہر نکلے نعرۂ تکبیر بلندکیا اور بلا جھجک کھلم کھلا بیت ﷲ کا طواف کیا۔
آپؓ ان چند صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں شامل تھے جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے لہذا آپؓ کو کاتب وحی کا درجہ ملا۔ارقم قریش کے اہل دانش میں سے تھے۔ ارقم کا خاندان ایامِ جاہلیت میں مخصوص عزت واقتدار کامالک تھا ان کے دادا ابو جندب اسد بن عبد اللہ اپنے زمانہ میں مکہ کے ایک نہایت سربرآوردہ رئیس تھے۔
ارقم بن ابو الارقم نے بیت المقدس جانے کا ارادہ کیا اور سفر کی تیاری مکمل کرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت چاہنے کے لیے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا سفر پر کیوں جا رہے ہو ؟ کوئی ضرورت یا تجارت اس کا باعث بنی ہے؟ انہوں نے جواب دیا یا نبی ﷲ! میرے باپ آپ پر فدا ہوں میری نیت ہے کہ بیت المقدس میں نماز پڑھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اس مسجد (مسجد نبوی) میں ادا کی گئی نماز مسجد حرام کے سوا باقی تمام مسجدوں کی نماز سے ایک ہزار گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ ارقم نے یہ ارشاد سنا تو بیٹھ رہے اور سفر کا ارادہ ترک کر دی۔
ارقم بن ابو الارقم کی وفات عہد معاویہ میں 55ھ یا 53ھ میں ہوئی۔ ارقم کی وصیت کے مطابق جنازہ سعدبن ابی وقاص نے پڑھایا۔ سعد اس وقت مدینہ کی نواحی بستی عقیق میں واقع اپنے گھر میں تھے۔ اس حساب سے ان کی عمر تراسی یا پچاسی سال ہوئی۔
خفیہ تبلیغ کا مرکز:
اعلان نبوت کے چوتھے سال تک مسلمان جو کم تعداد میں تھے چھپ کر گھاٹیوں میں نماز ادا کرتے ایک دفعہ قریش نے انھیں دیکھ لیا تو نوبت گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی۔ جس کے نتیجے میں سعد بن ابی وقاص نے ایک شخص کو ایسی ضرب لگائی کہ اس کا خون بہہ نکلا یہ پہلا خون تھا جو اسلام کی خاطر بہایا گیا[2] ایسے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے طے یہ پایا کہ عام صحابہ اپنا اسلام عبادت اور تبلیغ چھپ کر کریں رسول اللہ یہ کام خود تو علانیہ کرتے لیکن صحابہ کے ساتھ مصلحت کی خاطر چھپ کر جمع ہوتے۔
مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رح لکھتے ہیں:
مکہ کے مشکل اور پریشان کن حالات ،مسلمانوں پر ظلم و ستم اور ان ستم رانیوں کے مقابل حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو قولا اور عملا دونوں طرح اسلام کے اظہار سے روک دیں اور ان کے ساتھ خفیہ طریقے پر اکھٹا ہوں ،کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ کھلم کھلا اکھٹا ہوتے تو مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب و حکمت کے کام میں یقینا رکاوٹ بنتے اور اس کے نتیجے میں فریقین کے درمیان تصادم ہوتا ۔ بلکہ عملا نبوت کے چوتھے سال ایسا ہوچکا تھا جس میں خون بھی بہہ چکا تھا۔اگر اس طرح کا
ٹکراؤ بار بار ہوتا اور طول پکڑتا تو مسلمانوں کے خاتمے کی نوبت آسکتی تھی ،لہذا حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ پس پردہ رہ کر کام کیا جائے اور خفیہ طریقے سے تعلیمی و دعوتی کام کو انجام دیا جائے ۔چنانچہ اس ماحول میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی عبادت اپنی تبلیغ اور اپنے باہمی اجتماعات سب کچھ پس پردہ کرتے تھے ۔البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وسلم دعوت کا کام اعلانیہ انجام دینے لگے تھے ۔ آپ مسلمانوں کے ساتھ مصلحت کے پیش نظر خفیہ طریقے سے اکھٹا ہوتے تھے ۔اور اس کے لیے دار ارقم کا مکان سب سے مناسب تھا کیونکہ یہ مکان کوہ صفا کے دامن پر واقع تھا اور سرکشوں کی نگاہوں اور ان کی مجلسوں سے دور اور الگ تھلگ واقع تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مکان کو نبوت کے پانچویں سال اپنی دعوت اور مسلمانوں کے ساتھ اجتماع کا مرکز بنایا تھا ۔( مستفاد از کتاب الرحیق المختوم)
اصحاب ارقم:
جو صحابہ اس تعلیمی اوردعوتی و تبلیغی مرکز سے جڑے رہے اور مستفید ہوئے، ان میں یہ حضرات نمایاں ہیں ۔
- ابوبکر صدیق
- عثمان بن عفان
- علی بن ابی طالب
- زید بن حارثہ
- ارقم بن ابو الارقم
- عیاش بن ابی ربیعہ
- سعد بن ابی وقاص
- جعفر ابن ابی طالب
- زبیر ابن عوام
- عبدالرحمن بن عوف
- طلحہ بن عبید اللہ
- عمار بن یاسر
- ابوعبیدہ ابن جراح
- بلال ابن رباح
- ابو حذیفہ
- مصعب بن عمیر
- سعید بن زید
- ابوذر غفاری
- صہیب الرومی
- عبداللہ بن مسعود
- خباب بن ارت رضی اللہ عنھم
دار ارقم عہد بعہد:
ارقم نے اپنی زندگی ہی میں اپنا گھر بیٹے عثمان کو تحفے میں دے دیا اور تاکید کی کہ اسے نہ بیچنا۔ ابن سعد کہتے ہیں، میں نے خود دار ارقم میں تحفے کی یہ دستاویز دیکھی ہے۔ اس میں تحریر تھا:
بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم، وہ گھر (یا قطعۂ اراضی) جو صفا میں ہے، اس کے بارے میں ارقم کا فیصلہ ہے کہ حرم کے پاس ہونے (اور ابتدائے عہد نبوت میں اس گھر کے اہم ہونے) کی وجہ سے اسے حرمت دی جائے، بیچا جائے نہ وراثت میں منتقل کیا جائے۔ تحریر پر دو اشخاص ہشام بن عاص اور اس کے آزاد کردہ غلام کی گواہی ثبت تھی چنانچہ گھر اسی حالت میں قائم رہا، اس میں ایک قبہ (یا مسجد) بھی تھا۔ ارقم کی اولاد اس میں رہتی رہی یا اسے کرائے پر اٹھاتی رہی لیکن جب یہ ان کے پوتوں کے ہاتھ آیا تو انھوں نے دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے آگے فروخت کر دیا۔ ارقم کے پوتے عمران بن عثمان بیان کرتے ہیں، مجھے وہ دن یاد ہے جب ابو جعفر کے دل میں دار ارقم ہتھیانے کا خیال آیا۔ ایام حج میں وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کر رہا تھا۔ ہم گھر کی چھت پر نصب خیمے میں بیٹھے تھے، ہمارے نیچے اتنے قریب سے گذرا کہ میں چاہتا تو اس کی ٹوپی اتار لیتا۔ مروہ سے اترتے اور کوہ صفا پر چڑھتے ہوئے وہ ہمیں دیکھتا ر ہا۔ کچھ عرصہ کے بعد حسن بن علی کے پڑپوتے محمد بن عبد ﷲ نے منصور کے خلاف بغاوت کی تواس نے انھیں قتل کرا دیا۔ ارقم کے دوسرے پوتے عبد ﷲ بن عثمان محمد بن عبد ﷲ کے ساتھی تھے لیکن بغاوت میں حصہ نہ لیا تھا، اس کے با وجود ابو جعفر نے انھیں بیڑیوں میں جکڑنے کا حکم دے دیا۔ پھر کوفہ سے ایک شخص شہاب بن عبد رب ان کے پاس آیا اور کہا، اگر تم دار ارقم بیچ دو تو میں تمھیں بیڑیوں سے چھڑوا سکتا ہوں۔ عبد ﷲ کی عمر اسی برس سے تجاوز کر چکی تھی اور وہ قید و بند سے عاجز آئے ہوئے تھے۔ پھر بھی انھوں نے کہا، یہ گھر صدقہ کیا ہوا ہے، میرا اس میں صرف ایک حصہ ہے، بقیہ میں میرے بھائی بہن شریک ہیں۔ شہاب نے کہا، آپ اپنا حصہ دے دیں تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ناچار ہو کر وہ سترہ ہزار دینار لے کر گھر سے دست بردار ہو گئے۔ ان کے بھائی بہنوں کو بڑی رقوم ملیں تو وہ بھی اپنے حصے فروخت کر کے چلتے بنے۔ اس طرح دار ارقم ابو جعفر منصور کے ہاتھ آ گیا۔ منصور کے بعد اس کا بیٹا مہدی خلیفہ بنا تو اس نے اپنی بیوی (اور باندی)، موسیٰ اور ہارون رشید کی والدہ خیزران کو تحفے میں دے دیا جس نے اس کی تعمیر نو کی اور یہ بیت الخیزران کہلانے لگا۔ مہدی کا پوتا جعفر بن موسی خلیفہ بنا تو دار ارقم اس کے پاس آگیا، اس میں مصر کے شطوی اور یمن کے عدنی بھی رہتے رہے۔ آخر کار اسے موسیٰ بن جعفر کی اولاد میں سے غسان بن عباد نے خرید لیا۔ شاہ عبد العزیز کے دور حکومت میں حرم کی پہلی سعودی توسیع ہوئی تو مسعی (صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کا راستہ) پر چھت ڈال کر دار ارقم کو اس میں شامل کر لیا گیا۔ دار ارقم بظاہر دنیا میں موجود نہیں رہا تاہم اس کی یاد زندہ اور تاریخ تابندہ ہے ۔