محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
___________________
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، جہاں مختلف مذاہب، زبانوں، اور ثقافتوں کے افراد بستے ہیں۔ یہ ملک اپنی گوناگوں وراثت اور مختلف قوموں کے ملاپ کا مظہر ہے۔ اس تنوع کے باوجود، ہر شہری کے حقوق کی پاسداری اور برابری کو یقینی بنانا ایک چیلنج رہا ہے۔ ہندوستان کا آئین، جو 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا، نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے مخصوص دفعات فراہم کی ہیں۔
آئین ہند کی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق دفعات:
آئین ہند کی بنیاد سیکولرزم، جمہوریت اور برابری کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ آئین ہر فرد کو بغیر کسی مذہب، ذات، جنس، یا نسل کی تفریق کے مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئین کی مختلف دفعات میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
مذہبی آزادی کا حق (آرٹیکل 25 تا 28):
آئین کا آرٹیکل 25 ہر شخص کو اپنے مذہب کی آزادی، تبلیغ، اور اس پر عمل کرنے کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 26 مذہبی مقامات کی تعمیر اور ان کی دیکھ بھال کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 27 کے تحت کسی بھی شخص کو کسی خاص مذہب کی تشہیر کے لیے ٹیکس دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل 28 تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم دینے کے سلسلے میں ہدایات فراہم کرتا ہے۔
ثقافتی اور تعلیمی حقوق (آرٹیکل 29 اور 30):
آرٹیکل 29 کے مطابق، ہندوستان میں ہر طبقے کو اپنی زبان، رسم و رواج اور ثقافت کی حفاظت کا حق حاصل ہے۔ آرٹیکل 30 اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق دیتا ہے۔ حکومت کو بھی ان اداروں کے خلاف کسی قسم کی تفریق روا نہیں رکھنی چاہیے۔
مساوات کا حق (آرٹیکل 14 اور 15):
آرٹیکل 14 ہر شخص کو قانون کے سامنے مساوات کا حق دیتا ہے، اور آرٹیکل 15 کسی بھی شخص کے خلاف مذہب، نسل، ذات، جنس یا مقام پیدائش کی بنیاد پر تفریق کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
مودی حکومت اور اقلیتوں کے حقوق:
2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے قیام کے بعد سے اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں، کے حقوق اور ان کے تحفظ کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مودی حکومت پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کرنے میں ناکام رہی ہے اور بعض اوقات حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کو اقلیتوں کے خلاف جانبدارانہ قرار دیا گیا ہے۔
شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور این آر سی (NRC):
شہریت ترمیمی قانون 2019 (CAA) اور قومی شہری رجسٹر (NRC) کے حوالے سے حکومت کے اقدامات نے خاص طور پر مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے۔ CAA کے تحت تین ممالک (پاکستان، افغانستان، اور بنگلہ دیش) سے آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی، اور عیسائی مہاجرین کو شہریت دینے کی پیشکش کی گئی، مگر مسلمانوں کو اس سے خارج رکھا گیا۔ اس قانون کو مذہبی تفریق پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے آئین کے سیکولر اصولوں کے منافی قرار دیا گیا۔
مذہبی آزادی اور گئو رکشا:
بی جے پی حکومت کے دور میں گئو رکشا کے نام پر کئی مسلمان اور دلت افراد کو ہجوم کے حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کو سزا دینے میں حکومت کی سست روی اور بعض اوقات ملزمان کے حق میں بیانات نے اقلیتوں میں خوف و ہراس پیدا کیا۔ یہ واقعات نہ صرف مذہبی آزادی کے اصول کے خلاف تھے بلکہ انہوں نے سماجی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچایا۔
مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی پسماندگی:
مودی حکومت کے دور میں مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی حالت میں بہتری کے بجائے ان کی پسماندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی پالیسیوں میں مسلمانوں کے لیے مخصوص فلاحی پروگراموں کا فقدان اور اقلیتوں کے تعلیمی و اقتصادی ترقی کے لیے مناسب اقدامات کا نہ ہونا اس حوالے سے حکومت پر تنقید کا باعث رہا ہے۔
خلاصہ:
ہندوستان کا آئین ایک مضبوط دستاویز ہے جو ہر شہری کے حقوق کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے، اور اس میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مخصوص دفعات موجود ہیں۔ تاہم، مودی حکومت کے دور میں اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ اور ان کے حقوق کے حوالے سے کئی خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کو اقلیتوں کے خلاف جانبدارانہ اور ان کے حقوق کو متاثر کرنے والا قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر ہندوستان کو اپنے سیکولر اور جمہوری اصولوں پر قائم رہنا ہے، تو حکومت کو اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا ہوگا اور ان کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔
ملک کی اصل طاقت اس کی گوناگوں وراثت اور مختلف قوموں کے ملاپ میں ہے، اور اس تنوع کی حفاظت اور فروغ دینا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔