✍️ محمد شہباز عالم مصباحی
_________________
حال ہی میں امبانی فیملی کی جانب سے 5000 کروڑ روپے کی لاگت سے منعقد کی جانے والی پرتعیش شادی نے ایک بار پھر ہندوستان میں اقتصادی اور معاشرتی تضادات کو اجاگر کر دیا ہے۔ یہ شادی، جو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی، اس ملک میں ہوئی جہاں 60 فیصد آبادی روزانہ 300 روپے سے کم پر گزارا کرتی ہے۔ اس قسم کی فضول خرچی نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، جو ہمارے معاشرتی ڈھانچے اور اقتصادی نظام کی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔
معاشرتی اور اقتصادی تضاد
امبانی فیملی کی یہ شادی ایک طرف تو دولت کی فراوانی کی عکاسی کرتی ہے، جبکہ دوسری طرف یہ غریب اور متوسط طبقے کی حالتِ زار کو نظر انداز کرتی ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ناہمواریوں کو بھی تقویت دیتے ہیں۔ امبانی خاندان کی یہ عیاشی اُس ہندوستان کا ایک دوسرا رخ ہے جہاں لاکھوں لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔
دولت کی بے حسی
امبانی فیملی کا یہ رویہ ایک بے حسی کی مثال ہے جہاں دولت مند طبقہ اپنے عیش و عشرت میں مگن ہے جبکہ عوام فاقوں پر مجبور ہیں۔ ایسی فضول خرچی کی مثالیں نہ صرف معاشرتی بگاڑ کو بڑھاوا دیتی ہیں بلکہ ایک مثالی معاشرتی ذمہ داری کی کمی کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔ اس قسم کے واقعات سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ دولت مند طبقے کی توجہ اپنے ذاتی مفادات اور عیش و عشرت پر مرکوز ہے، نہ کہ عوامی فلاح و بہبود پر۔
حکومتی اور ادارہ جاتی ناکامی
اس قسم کی تقریبات حکومت اور عوامی اداروں کی ناکامی کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے فلاح و بہبود کو یقینی بنائے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو فروغ دے۔ لیکن جب ایسے عظیم الشان شادیوں کی خبریں آتی ہیں، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا حکومت واقعی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر رہی ہے؟ کیا ایسے مواقع پر حکومت کی مداخلت ضروری نہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ عوام کے وسائل کا صحیح استعمال ہو؟
مستقبل کے لیے سبق
امبانی فیملی کی اس شادی نے ہمیں ایک اہم سبق دیا ہے کہ معاشرتی اور اقتصادی ناہمواریاں ہماری ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ایک مثالی معاشرہ تب ہی تشکیل پاتا ہے جب دولت کی منصفانہ تقسیم ہو اور ہر فرد کو بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں۔ امبانی فیملی کی اس فضول خرچی پر تنقید کرتے ہوئے ہمیں اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لانی ہوگی اور یہ عزم کرنا ہوگا کہ ہم ایک متوازن اور انصاف پر مبنی معاشرت کی تشکیل کے لیے کام کریں گے۔
اختتامیہ
امبانی فیملی کی اس شادی نے ہندوستانی معاشرتی تضادات کو ایک بار پھر سے اجاگر کر دیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرتی نظام میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور عوامی فلاح و بہبود کی کمیابی ہے۔ ہمیں اس قسم کی فضول خرچی پر تنقید کرتے ہوئے ایک متوازن اور انصاف پر مبنی معاشرت کی تشکیل کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہر فرد کو اس کے حقوق مل سکیں اور ملک حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔