Site icon

کبیر الدین فوزان : سیمانچل کا علمی و ادبی مجذوب

تحریر: احسان قاسمی

پیشکش: محمد راغب الحسینی بیلگچھی

_________________

نام – کبیر الدین
تخلص – فوزان
تاریخ پیدائش – 1942ء
جائے پیدائش و آبائی وطن – گنڈواس
پوسٹ – بیل گچّھی ( ضلع: پورنیہ )
والد – منشی سخن علی مرحوم
والدہ – بی بی کریم النساء مرحومہ
شریک حیات – بی بی کریم النساء
اثمارِ حیات – خورشید ربانی ، اظہار ادیب حقانی ، منظور احسن یزدانی، انظر احمد صمدانی مرحوم ، رضی اکرم سبحانی ، عفیفہ خاتون ، لطیفہ خاتون ، ہما تاجوری

تعلیم

ابتدائی – گاؤں کے مدرسے میں
استاد – منشی محمد حسن ( ساکن : ہرن تور مالا ۔
1947 سے 1950 کے درمیان )
بعد ازاں مدرسہ محمودیہ بشن پور پرسرائ میں تقریبا” ڈھائی سال مطالعہ ۔
1954 ء میں دارالعلوم دیوبند میں عربی کے ابتدائی درجے میں داخلہ حاصل ہوا ۔ وہاں نو سالہ نصاب تعلیم ( فضیلت ) کی تکمیل ہوئی ۔
دارالعلوم میں ہی استاد مولانا انظر شاہ کشمیری ؒ نے ‘ فوزان ‘ تخلص عطا کیا تھا ۔
مظاہر علوم ، سہارن پور میں بھی چند دن تعلیم حاصل کی ۔

ملازمت

1963 ء کے اوائل میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل ہوئی ۔ والد صاحب کا انتقال ہو چکا تھا ۔ لہذا گریجویشن کرنے اور قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی خواہش ادھوری رہ گئ ۔

1964 ء میں علاقے کے معیاری اور معروف مدرسہ ” مدرسہ تنظیمیہ ، باراعیدگاہ ” میں ملازمت اختیار کر لی ۔ یہاں مولوی ابراہیم صدیقی تاباں اور مولانا محمد اسماعیل رموزی اور مولانا کبیرالدین اصغر وغیرہ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع حاصل ہوا ۔

ماہ جون 1971 ء میں فوزان صاحب کا ایک مضمون ‘ معارف اعظم گڑھ ‘ میں شائع ہوا تھا ۔ اس کی بنیاد پر جامعہ دارالہدی’ ، کریم نگر کی جانب سے مدرسی کی پیشکش حاصل ہوئی ۔ 1972 ء کے اوائل میں جامعہ دارالہدی’ جوائن کیا ۔ 77 ء میں والدہ کی علالت کے باعث ملازمت کو خیرباد کہہ دیا ۔
گھریلو ذمہ داریوں کے باعث دوبارہ مدرسہ تنظیمیہ ، باراعیدگاہ جوائن کیا جہاں مزید پانچ سال گزارے ۔

87 ء میں بطور ہیڈ مدرس بحال ہوئے اور 11 اکتوبر 2004 ء کو 62 سال کی عمر میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔

رسالہ ‘ قافلہ ‘

ادبی رسالہ ماہنامہ ‘ قافلہ ‘ کا اجرا باراعیدگاہ سے 68 ء میں کیا ۔ اس کے سرپرست الحاج انوارالحق کاشی باڑی ، نگراں پروفیسر طارق جمیلی ، مدیر اعلی’ اسمعیل رموزی اور مدیران ک فوزان ، صبا اکرام اور افروز عالم تھے ۔ اس رسالے کے چار شمارے منظرعام پر آئے ۔

رسالہ ‘ افکار ‘

اکیڈمی آف اسلامک کلچر ، محمدیہ ( پورنیہ ) سے 78 ء میں دوماہی دینی، فکری و ادبی رسالہ ‘ افکار ‘ کا اجرا کیا ۔ اس کے سرپرست الحاج محمد ابوالکلام ، محمدیہ اسٹیٹ تھے ۔ رسالے کے ترتیب کار شاہ فیاض عالم ولی اللہی اور اکمل یزدانی جامعی تھے اور مدیر مسؤل کبیرالدین فوزان تھے ۔ اس رسالے کے بھی زیادہ شمارے شائع نہ ہو سکے ۔

رسالہ ‘ فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل ‘

____________

ملی ویمنس آرگنائزیشن کے تحت سہ ماہی مجلہ ‘ فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل ‘ کا اجرا عمل میں لایا گیا ۔ اس کے چار شمارے منظرعام پر ۔

مطبوعہ کتب

شخصیت

میانہ قد ، منحنی جسم ، چست پاجامہ، کرتا، کرتے پر کبھی ویسکوٹ کبھی شیروانی اور سر پر دوپلی ٹوپی ، آنکھوں پر عینک اور عمدہ تراش خراش والی داڑھی ، بولتے کچھ زیادہ اور ( اندنوں ) سنتے کچھ کم ہیں ، پیشے سے مدرس مگر دل سے اینٹی مولوی شاعر ، اسلامی فکر سے متعلق کئی باتوں میں الگ بلکہ باغیانہ نظریہ رکھنے کی وجہ سے اکثر روایت پسند مولویوں کے نشانے پر رہا کرتے ہیں ۔
منکسرالمزاجی ، فراخ دلی ، انسانیت نوازی ، ادب نوازی ، بذلہ سنجی ، استغنا ، علمیت اور تحقیق و جستجو کا مجسم پیکر ۔ اپنی بات / مطمح نظر نہایت بےباکی و بےخوفی سے مضبوط و واضح دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے ۔

نمونۂ تحریر

پورنیہ کمشنری یا سیمانچل جو کثیر مسلم آبادی والا خطہ ہے اسے میں نے بچپن میں تعلیمی و معاشی پسماندگی و بدحالی یا جہالت و افلاس میں مبتلا دیکھا ۔ ان کی سادہ لوحی، جہالت، اوہام پرستی اور خوفزدگی کے باعث چالاک قسم کے لوگ ان کا خوب اور مسلسل استحصال کرتے تھے ۔ اس استحصالی ٹولی میں خود یہاں کے زمیندار، سودی کاروبار کرنے والے مہاجن اور دیگر صوبوں اور اضلاع سے اکثر وبا کی طرح نازل ہونے والے اصلی نقلی پیروں کے علاوہ تعویز، گنڈا، جھاڑپھونک کا نفع بخش پیشہ اختیار کئے ہوئے مقامی و غیر مقامی مولوی بھی شامل تھے ۔
چنانچہ ہندؤں کی طرح مسلمان بھی چیچک کو سِتلا میا کا قہر مانتے تھے ۔ ہیضہ کے لئے خواہ مخواہ جنات کو بدنام کرتے اور ملزم ٹھہراتے تھے ۔ چھوٹے بچے جو اکثر ٹٹنیس کی وجہ سے مرتے تھے اس کا دوش الو پرندہ پر ڈالتے اور اسے کسی نامعلوم اور اندیکھے ‘ بوڑھوا بڑھیا ‘ کا نمائندہ یقین کرتے تھے ۔ ہسٹریا کے مرض میں مبتلا عورت کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس پر کوئی آسیب یا جن یا بدروح سوار ہے ۔
قرآن کریم اللہ تعالی’ کی طرف سے نازل شدہ بندوں کے لئے ہدایت نامہ اور دستورِ حیات ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اسے پڑھے اور سمجھے اور اس کے مطابق عمل کرے، لیکن اسے دین فروش طبقہ نے اپنے تجارتی مقصد اور مادی مفاد حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ ایسے لوگ خدا کے نزدیک ثمنِ قلیل( تھوڑے دام ) کے عوض اللہ کی آیات بیچنے والے کے مصداق ہیں ۔
قرآن کریم نے جہنم کے بارے میں کہا ہے کہ ” اس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے ” ۔
اس میں لوگوں سے مراد یقینا” خدا کے نافرمان اور منکر بندے ہیں ۔ مگر پتھر سے مراد پہاڑی پتھر تو نہیں ہو سکتے جن کے ٹکڑے ریلوے پٹریوں پر ڈالے جاتے ہیں ۔ کیونکہ بغیر گناہ اور قصور کے اسے جہنم کی سزا نہیں دی جا سکتی اور نہ جہنم کی آگ سے پتھر کو کوئی تکلیف ہو سکتی ہے ۔ اس لئے اس سے مراد اسی قسم کے دین فروش یا مذہب پیشہ ہو سکتے ہیں جو خدا تک پہنچنے کے راستہ میں روڑے بنے ہوئے ہیں اور یہ کوئی بعید از امکان بات نہیں ہے ۔
( میرے بچپن کا سیمانچل : حرفِ مکرر نہیں ہوں میں سے ایک اقتباس )

نمونۂ کلام

بےچارہ

نان و نفقہ نو مہینے کی بھی عدت میں نہیں
‘ ماہواری ‘ مدرسہ ٹیچر کی قسمت میں نہیں
کوئی شئ باقاعدہ ‘ جنتی حکومت ‘ میں نہیں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
۔
پھر رہے ہیں ننگے پاؤں ننگے سر ننگے بدن
بن گئے یوں ننگِ قوم و ننگِ دیں ننگِ وطن
گنگناتے ہیں سبھی ٹیچر یہ مصرعہ من ہی من
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
۔
کب تلک بیوی کی چپل زیب پا کرتا رہوں
رات دن بس ایک بُھٹے پر گزر کرتا رہوں
قرض خواہوں سے بھلا کب تک مفر کرتا رہوں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
۔
کس طرح پورا کروں گا مدرسے کا میں نصاب
کیا پڑھاؤں تنگدستی میں بھلا علم الحساب
سر میں آ جاتا ہے چکر دیکھ کر درسی کتاب
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
۔
مانگ لوں اک بھینس للّو * سے مری فطرت نہیں
لائقِ پیری مریدی بھی مری ہئیت نہیں
اور اسمگلنگ کروں گانجہ مری ہمت نہیں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
۔
آرٹ ہوں سرکار ! اپنا دیکھئے فنی کمال
میرے ڈھانچے پر فقط رکھی ہے اک سوکھی سی کھال
لگ رہا ہوں ہو بہو تجرید کی زندہ مثال
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
۔
جی میں آتا ہے کہ اب دامن تمہارا چھوڑ دوں
پھیر لی ہے تم نے جو آنکھیں انھیں میں پھوڑ دوں
بے وفا سرکار ! تیری اب کلائی موڑ دوں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
( لالو پرشاد کے عہدِ وزارت میں بہار مدرسہ ٹیچروں کو نو ماہ تک تنخواہ نہ ملنے پر یہ نظم ہوئی تھی )

نیرنگئ عشق

عشق نے مجھ کو دلائی سینکڑوں غم سے نجات
عشق سے ہے روح پرور نغمہء سازِ حیات
دوستو ! مجھ سے نہ پوچھو عشق کی نیرنگیاں
عشق ہے زہرِ ہلاہل ، عشق ہے قند و نبات
۔
عشق سے انسان کو ملتا ہے روحانی سرور
عشق ہی کے ضرب سے ہوتا ہے دل بھی چور چور
گہہ نظر میں اس کی ہیلن اور قلوپطرہ بھی ہیچ
گاہ بھنگن بھی نگاہِ عشق میں جنت کی حور
۔
چہرہء ہستی پہ آیا عشق سے اکثر نکھار
عشق سے رازِ درونِ زندگی بھی آشکار
عشق بنتا ہے کبھی سینے میں کوہِ آتشیں
پھوٹتا ہے اور کبھی آنکھوں سے مثلِ آبشار
۔
عشق تنویرِ سحر ، بوئے وفا ، موجِ بہار
عشق سے کچھ اور بڑھ جاتا ہے انساں کا وقار
عشق ہے اک نغمہء جاں سوز بھی جاں بخش بھی
جھنجھنا اٹھتا ہے اکثر عشق سے دل کا ستار

____________

چناؤ میدان سے

( بائسی اسمبلی الیکشن 1990 )

بائسی میں پڑ گیا ہے رن بہت گھمسان کا
چھوٹتا جاتا ہے چھکہ ویر اور بلوان کا
۔
شیر ہاتھی ڈھونڈتے پھرتے ہیں سب جائے پناہ
اونٹ گھوڑے کو نظر آتا نہیں آب و گیاہ
۔
دیکھئے بدکے ہوئے گھوڑے پہ ہے جو شہسوار
منھ کے بل میدان میں گرنے کو ہے بےاختیار
۔
اونٹ پہلے ہی سے لشکر میں بہت بدنام ہے
بیٹھ جائے گا کسی کروٹ یہ چرچا عام ہے
۔
چل دیا کوئی چلا کر اپنے پاؤں پر کدال
اس قدر گھبرا گیا تھا دیکھ کر جنگ و جدال
۔
ٹوکری والی جوانی کا ذرا انجام دیکھ
زرد پڑتے ڈوبتے سورج کو وقتِ شام دیکھ
۔
سوچتا ہے ایک دہقاں سب کو دکھلا کر اناج
چھین لوں کرسی کسی کی پھر کروں بیسی پہ راج
۔
گا رہا ہے کوئی مانجھی دھیمے سر میں یہ ملہار
ایک ناؤ پر کلہیا کاش ہو جائیں سوار
۔
ہار جانے کی تمنا یوں تو ہر سمبل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا پہیہء سیکل میں ہے
۔
خوب تر ہو جو اسی کا ساتھ دینا چاہئے
ووٹ اپنے دل پہ رکھ کر ہاتھ دینا چاہئے
۔
شعر مت سمجھو انھیں بارود کے گولے ہیں یہ
ووٹروں کے واسطے ہاں چٹپٹے چھولے ہیں یہ

غزلیں

آگہی اک عذاب ہو جیسے
زندگی پر عتاب ہو جیسے
۔
زندگی نک چڑھی سی اک عورت
موت اس کا حجاب ہو جیسے
۔
یوں ابھرتا ہے اور مٹتا ہے
آدمی بھی حباب ہو جیسے
۔
جھنجھناتا ہے چوٹ کھانے پر
دل شکستہ رباب ہو جیسے
۔
اس طرح کی ہے زندگی میں نے
اک کھلی سی کتاب ہو جیسے
۔
دوستوں کا خلوص لگتا ہے
داڑھیوں پر خضاب ہو جیسے
۔
حور و جنت کے واسطے طاعت
یہ بھی کارِ ثواب ہو جیسے
۔
عشق سیدھا سوال کی مانند
حسن ٹیڑھا جواب ہو جیسے
۔
ان کی دوشیزگی کو کیا کہئے
بے پڑھی سی کتاب ہو جیسے
۔
دیکھئے تو چنار ہے گویا
سونگھئے تو گلاب ہو جیسے
۔
فکر کی یہ بلند پروازی
تم تو فوزاں عقاب ہو جیسے

____________

سامنا کرنے سے غیروں کا دہل جاتے ہیں لوگ
ہاں! مگر بھائی کو پاتے ہی نگل جاتے ہیں لوگ
۔
کون بیگانہ یہاں ہے کس کو ہم اپنا کہیں
موسموں کی طرح موقع پر بدل جاتے ہیں لوگ
۔
ہیں کبھی قاتل کبھی منصف کبھی نوحہ کناں
کیسے سمجھوں ہائے کیسی چال چل جاتے ہیں لوگ
۔
آدمی کی کھال میں شاید ہوں ارواحِ خبیث
مختلف شکلوں میں ورنہ کیسے ڈھل جاتے ہیں لوگ
۔
کیا ضرورت ہے جلائیں ہم یونہی سر کے چراغ
عمر بھر تاریکیوں میں جب بہل جاتے ہیں لوگ
۔
سردمہری سے زمانے کی ہے وہ ٹھٹھرا ہوا
گرمئِ افکار سے جس کی پگھل جاتے ہیں لوگ
۔
کیوں ہوئی بونوں کی بستی میں مری قامت دراز
آگ میں اپنے حسد کی آہ جل جاتے ہیں لوگ
۔
ناز فرمائیں گے فوزاں جن پہ کل اہلِ وطن
آج چھاتی پر انہیں کی مونگ دل جاتے ہیں لوگ

____________

مزاجا” خوگرِ نیکی بدی ہوں
فرشتہ ہوں نہ شیطاں آدمی ہوں
۔
گھنا جنگل ہے تنہا آدمی ہوں
جہاں میں مبتلائے آگہی ہوں
۔
شناسائی ہو دنیا میں میری
میں گاؤں گھر میں اپنے اجنبی ہوں
۔
کوئی گزرا نہیں ہے جس طرف سے
شہر کی میں وہ انجانی گلی ہوں
۔
جسے غارِ سیہ نگلے ہوئے ہے
وہی سہمی ہوئی میں روشنی ہوں
۔
لئے کاندھوں پہ بھاری لاش اپنی
جو ڈھوتا آ رہا ہے وہ قلی ہوں
۔
مجھے کچھ یاد ایسا آ رہا ہے
کہیں تم سے ملا اے زندگی ہوں
۔
جہاں ہر شخص بن بیٹھا خدا ہے
وہاں کہنا پڑا مجھ کو نبی ہوں
۔
ابھی پاگل سمجھتی ہے جو دنیا
کبھی یہ مان سکتی ہے ولی ہوں
۔
یوں محوِ فکر جو رہتا ہوں فوزاں
سمجھ بیٹھی ہے دنیا فلسفی ہوں

____________

احباب گرامی !

مولانا کبیرالدین فوزان سیمانچل کا ایک گراں قدر اثاثہ ہیں ۔ میں نے اس مختصر تعارفی مضمون میں جو کچھ قلمبند کیا ہے وہ اس سے زیادہ کے مستحق ہیں ۔ ان کے افکار و خیالات سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں لیکن ان کی علمیت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔
آج مورخہ ١٥ محرم الحرام 1446 مطابق ٢١ جولائی ٢٠٢٤ بروز پیر بوقت بعد نمازِ مغرب حضرت والا پٹنہ میں دوران علاج اللّٰہ کے پیارے ہوگئے ۔
احباب سے دعاء مغفرت کی خصوصی درخواست ہے۔

Exit mobile version