محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
__________________
مرکزی حکومت کی جانب سے وقف املاک پر دعوے اور انہیں غیر وقف قرار دینے کی کوششوں نے ملک کے مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ حال ہی میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے تاریخ مسجدوں اور قبروں پر وقف بورڈ کا دعویٰ خارج کر دیا، جو کہ نہایت ہی افسوسناک اور متنازعہ فیصلہ ہے۔
تاریخی پس منظر:
وقف کی املاک کا قیام برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور دینی اداروں کے قیام کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ املاک نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی حقوق کی حفاظت کرتی ہیں بلکہ ان کے روحانی اور تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ان املاک کی بقا اور تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، لیکن حالیہ فیصلے نے مسلمانوں کے ان حقوق پر کاری ضرب لگائی ہے۔
قانونی موشگافیاں:
مرکزی حکومت اور مختلف ریاستی اداروں کی جانب سے وقف املاک پر دعوے اور انہیں غیر وقف قرار دینے کی کوششیں دراصل ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ نظر آتی ہیں۔ ان دعووں کے ذریعے وقف املاک کو مسلمانوں سے چھین کر ان کی تاریخی اور مذہبی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ اس سازش کی ایک کڑی ہے جو کہ مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
سوالات اور تحفظات:
یہ فیصلہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے:
– کیا وقف املاک پر یہ دعوے محض مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں؟
– کیا حکومت کی جانب سے ان املاک پر قبضہ کرنے کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی حیثیت کو کمزور کرنا ہے؟ کیا یہ کوششیں سیکولر ہندوستان کے بنیادی اصولوں کے منافی نہیں ہیں؟
مطالبات اور سفارشات:
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان متحد ہو کر اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کریں۔ اس کے ساتھ ہی قانونی اور آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ان فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر کریں اور حکومتی اداروں کو مجبور کریں کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔
اختتامیہ:
وقف املاک کی تاریخ اور ان کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ املاک مسلمانوں کی امانت ہیں اور ان کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان املاک پر دعوے کرنے کے بجائے مسلمانوں کے حقوق اور مذہبی آزادی کا احترام کرے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔