Site icon

حقیقی زہدو تقویٰ

حقیقی زہدو تقویٰ کسے کہتے ہیں

زہدو تقویٰ کے بارے میں ہم بارہا سنتے رہتے ہیں۔ لیکن حقیقی زندگی میں اس کو برت کر دکھانا بہت ہی مشکل ہے۔ اگر کسی  بندے کا رب کی نعمتوں پر یقین اور مسائل و مشکلات پر صبر وایقان  پختہ ہو تو پھر زہد و تقویٰ کے راستے آسان ہوجاتے ہیں۔ درج بالا حدیث تقویٰ کی حقیقت کو اجاگر کرتی ہے:

عَنْ أَبِى ذَرٍّ- – -رضى الله عنه–: عَنِ النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم– – قَالَ : « الزَّهَادَةُ فِى الدُّنْيَا لَيْسَتْ بِتَحْرِيمِ الْحَلاَلِ وَلاَ إِضَاعَةِ الْمَالِ ، وَلَكِنَّ الزَّهَادَةَ   فِى الدُّنْيَا، أَنْ لاَ تَكُونَ بِمَا فِى يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِمَّا فِى يَدِ اللَّهِ،  وَأَنْ تَكُونَ فِى ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أَنْتَ أُصِبْتَ بِهَا أَرْغَبَ فِيهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَكَ

جامع لترمذی ، ابواب الزہد، باب ماجاء فی الزہادۃ فی الدنیا، حدیث نمبر:۲۳۴۰۔

ترجمہ:   ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: زہد (دنیا سے بے رغبتی) یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے اوپر حلال کو حرام کرلے (یعنی راہبانہ، جوگیانہ زندگی اختیار کرلے) اور یہ بھی زہد نہیں ہے کہ آدمی اپنے مال کو برباد کردے (یعنی مال اپنے پاس نہ رکھے) بلکہ زہد یہ ہے کہ تمہیں اپنے مال واسباب سے زیادہ خدا کے انعام وبخشش پر اعتماد ہو اور جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو اس پر جو اجر وانعام ملنے والا ہے اس کی وجہ اس کا باقی رہنا تمہیں مرغوب ہو۔

تشریح:

            اس حدیث میں زہد وتقویٰ کے مروّجہ تصور کی جڑ کاٹ دی گئی ہے۔ جس میں واضح طور پر  بتایاگیا ہے  کہ زہدو تقویٰ  یہ نہیں کہ آدمی اپنے تمام فطری داعیات اور جملہ تعلقات سے منہ موڑ کر کسی کھوہ  کو پناہ گاہ بنالے یا غار میں بیٹھ کر دنیا سے لاتعلق ہوجائے۔بلکہ وہ اسی دنیا میں رہ کر ،دنیوی مسائل و مشکلات، آزمائش و پریشانیوں کا سامنا کرکے خدا کی بندگی کی راہ پر چلے۔ انعامات سے فائدہ اٹھائے اور مشکلات کا صبروسکون کے ساتھ مقابلہ کرے۔

اس لیے کہ رب کا راستہ مصیبتوں اور زحمتوں کا راستہ ہے، یہاں کانٹے ہیں، نفس کشی ہے، قربانی ہے، ایثار ہے۔ اگر کسی کی نگاہ  اللہ تعالیٰ کے انعام پر مرکوز نہ ہو تووہ انسان دنیوی مصیبتوں کوبخوشی گلے نہیں لگا سکتا۔

Exit mobile version