Site icon

"مدارس اور دیوبندی اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ”

"مدارس اور دیوبندی اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ” غلط فہمیوں کے ازالے کے سلسلے میں ایک قابل قدر کتاب

تبصرہ نگار : سہیل انجم

_________________

کتاب: Demystifying Madrasah And Deobandi Islam
(مدارس اور دیوبندی اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ)
مصنف: اسد مرزا
صفحات: 280
قیمت: 595 روپے
ناشر: وِتاستا پبلیکیشنز، این دہلی
مصنف سے رابطہ: asad.mirza.nd@gmail.com

_________________

اسد مرزا دہلی میں مقیم ایک سینئر صحافی ہیں۔ ان کا تعلق انگریزی اور اردو دونوں زبانوں کی صحافت سے ہے۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات بین الاقوامی اور اسٹریٹجک امور، بین المذاہب مسائل، ہندوستانی مسلمان اور ہندوستانی سیاست ہیں۔ اس سے قبل وہ خلیج ٹائمز دبئی اور ہندوستان میں بی بی سی ورلڈ سروس سے وابستہ رہے ہیں۔ فی الحال وہ ایک آزاد کالم نگار اور ایک معروف دفاعی میگزین کے کنسلٹنگ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں کالم لکھ رہے ہیں جو ملک و بیرون ملک کے اخبارات و رسائل میں پابندی سے شائع ہو رہے ہیں۔ان کی ابتدائی کتابیں: ابراہیمی عقائد اور بین المذاہب مکالمہ: ایک ہندوستانی نقطہ نظر بین المذاہب مسائل پر مرکوز ہیں۔ فی الحال وہ پرانی دہلی کی قدیم تاریخ کو دوبارہ منظرعام پر لانے کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انگریزی میں ان کی ایک اور کتاب شائع ہوئی ہے جو انتہائی اہم موضوع پر ہے۔ کتاب کا نام ہے Demystifying Madrasah And Deobandi Islam (مدارس اور دیوبندی اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ)۔
یوں تو دینی تعلیم کے میدان میں مغربی اترپردیش کے شہر دیوبند میں واقع عالمی شہرت کی حامل دینی درسگاہ ’دار العلوم دیوبند‘ کو پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں کے فارغین پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جو دینی تعلیم کے فروغ کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن دنیا میں دہشت گردی کے عروج اور خاص طور پر طالبان کے ابھار کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند کو بدنام کرنے کی بھی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ایک مخصوص طبقے کی جانب سے اس کو دہشت گردی سے بھی جوڑا جاتا رہا اور بعض سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس پر دہشت گردی کی اعانت کا الزام بھی عاید کیا جاتا رہا ہے۔ جنگ آزادی میں دارالعلوم دیوبند کی خدمات سے نابلد طبقات کی جانب سے اس پر غداری کا بھی ٹھپہ لگانے کی ناکام کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ایسی مہم صرف مذکورہ ادارے کے خلاف ہی نہیں بلکہ تمام مدارس اسلامیہ کے خلاف چلائی جا رہی ہے۔ اس صورت حال پر نہ صرف طبقہ علما کو بلکہ عام مسلمانوں کو بھی تشویش لاحق ہے۔
کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسد مرزا بھی مذکورہ مہم سے دل برداشتہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے موضوع پر یہ تحقیقی کتاب تصنیف کی۔ لیکن ان کا یہ کام اس لیے بہت اہم ہے کہ انھوں نے اسے دہشت گردی کے الزام کے جواب کے طور پر تصنیف نہیں کیا بلکہ انھوں نے کتاب کے موضوع کے دائرے کو بہت وسیع کر دیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ہندوستان میں دیوبندی فکر یہاں کی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہوئی اور اس نے کثرت میں وحدت کے نظریے کو قبول کیا۔ لیکن اس کاوش میں اس نے اسلام کی اصل روح کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ ہندوستانی نظریے کو اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی فکر میں انتہا پسندی نہیں آئی بلکہ اس پر اعتدال پسندی کا عنصر غالب رہا۔ ان کے بقول دارالعلوم دیوبند نے جس انداز میں ترقی کی اور ہندوستان اور پوری دنیا کے لاکھوں مسلمانوں کو متاثر کیا اور ان کی رہنمائی کی وہ اس کی انفرادیت اور آفاقیت کا ثبوت ہے۔ اور شاید اس کی اثرانگیزی کی وجہ سے ہی جہاں کچھ علماء یا ان کی تنظیموں نے انتہاپسند اسلامی نظریے کی حمایت کی وہیں عام ہندوستانی مسلمان ان کے منفی اثرات کا شکار نہیں ہوئے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مصنف نے موضوع کا داۂ وسیع کر دیا ہے، لہٰذا اس میں ہندوستان میں اسلامی مدارس کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دارالعلوم کی ابتدا، ارتقا اور ترقی اور ہندوستانی سیاست میں اس کے قائدین کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کے عنوانات یوں ہیں: دار العلوم دیوبند: ایک تعارف، دار العلوم کی تاریخ، شاہ ولی اللہ: دارالعلوم کے سرپرست، 1896 سے قبل ہندوستان میں مدارس، دار العلوم میں تعلیمی نظام، دارالعلوم کی انتظامیہ اور اکیڈمک ڈھانچہ، مدارس میں تعلیم نسواں، جنگ آزادی میں دارالعلوم کا رول، دارالعلوم کے بارے میں مغربی میڈیا کا نقطہئ نظر، ہندوستانی میڈیا میں دارالعلوم کی شبیہ سازی، برصغیر میں دارالعلوم، ساؤتھ افریقہ اور برطانیہ میں دارالعلوم، دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث میں فرق اور دار العلوم میں تقسیم۔
اس فہرست سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس طرح دارالعلوم دیوبند کے سلسلے میں تحقیقی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ کتاب میں دارالعلوم کے ایسے گوشوں کو بھی روشن کیا گیا ہے جن پر عام طور پر لوگوں کی نظر نہیں جاتی یا جنھیں جان بوجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ مصنف نے ممتاز مسلم اسکالروں، ماہرین تعلیم اور مذہبی رہنماؤں کے انٹرویوز کر کے اس ادارے کے بارے میں ان کے خیالات بھی پیش کیے ہیں۔جن شخصیات کے انٹرویوز کیے گئے ہیں ان میں مولانا وحید الدین خان (مرحوم)، مولانا ابو القاسم نعمانی، مولانا ارشد مدنی، مولانا اسرارالحق قاسمی (مرحوم) مولانا محمود مدنی، مولانا سید رابع حسنی ندوی (مرحوم)، مولانا سعید الرحمن اعظمی، پروفیسر اختر الواسع، مولانا راشد کاندھلوی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، پروفیسر اعظم قاسمی، اجے اپادھیائے، جان بٹ، پروفیسر ابراہیم موسیٰ، مولانا سفیان قاسمی، مولانا ندیم الواجدی، ڈاکٹر وارث مظہری اور ڈاکٹر فہیم اختر ندوی قابل ذکر ہیں۔ان انٹرویوز کے ذریعے مصنف نے دارالعلوم اور اس کے علمائے کرام کے وہ پہلو کامیابی کے ساتھ پیش کیے ہیں جو ایک حد تک عام آدمی سے پوشیدہ ہیں۔ یہ انٹرویوز دارالعلوم کے قیام اور اس کے بارے میں علمائے کرام کی نفسیات کا گہرائی سے جائزہ لینے میں بہت معاون ہیں۔ مزید برآں مصنف نے اختصار کے ساتھ دیوبندی علمائے کرام کی تحریکوں جیسے کہ ریشمی رومال تحریک یا 1915 میں جلاوطن پہلی ہندوستانی حکومت کے قیام میں ان کے تعمیری کردار کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے گوشے بھی اجاگر کیے گئے ہیں جو ہندوستانی تاریخ سے حذف کیے جا رہے ہیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ان حقائق سے واقف ہو سکیں اور انھیں یاد رکھیں۔ مصنف نے ہندوستان میں مدارس کے قیام اور ان کے ارتقاء اور تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ کتاب میں اس بات کو بھی نشان زد کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے دینی مدارس نے نہ صرف مسلمانوں کے اندر بلکہ غیر مسلموں کے اندر بھی تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف کی گئی ہیں جن میں سے کچھ دارالعلوم کے مثبت کردار کو واضح کرتی ہیں تو کچھ بے بنیاد الزامات عاید کرتی ہیں۔ آخری مستند کتاب 1962 میں ڈاکٹر محبوب رضوی نے انگریزی میں لکھی تھی اور اس کے بعد سے کافی وقفہ گزر چکا ہے۔ اس کے خلاف مہم نے عوام کے بعض طبقات کے ذہنوں کو مسموم بھی کیا ہے۔ اسد مرزا نے دیدہ ریزی کے ساتھ بنائی گئی ناپسندیدہ شبیہ کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس ادارے کے بارے میں نیا، مثبت اور قابل قدر نظریہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے یہ کتاب اس لیے انگریزی میں لکھی ہے تاکہ اردو سے نابلد ہوتی جا رہی ہماری نئی نسل کو حقائق سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ و یوروپی ممالک اور ان حکومتوں اور تنظیموں کو مثبت باتوں سے باور کرایا جا سکے جو دیوبندیت کو دیوبندی اسلام کہتے ہیں۔ اس کتاب کا ایک مقصد دارالعلوم دیوبند کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک مثبت پیغام پہنچانا بھی ہے۔
مجموعی طور پر، کتاب ہندوستانی مدارس، دارالعلوم اور دیوبندی اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔
کتاب کا ٹائٹل بہت پرکشش، طباعت معیاری، کاغذ عمدہ اور پیشکش متاثر کن ہے۔

Exit mobile version