Site icon

عوام کی نظروں میں فتووں کا گرتا وقار :اسباب اور علاج

✍️ آفتاب رشکِ مصباحی

شعبہ فارسی، بہار یونی ورسٹی مظفرپور بہار ۔

________________

آج سے کوئی 20 – 25/ سال پہلے کی بات ہے ایک گاؤں میں خطاب کے دوران کسی مقرر سے سبقت لسانی میں نامناسب الفاظ نکل گئے۔ پروگرام میں تشریف لائے ایک مفتی صاحب جو اس وقت قیام گاہ پر موجود تھے جب منبر پر آئے تو مقرر صاحب پر کفر کا فتوی لگا دیا پھر کیا تھا گاؤں دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور آج تک کئی بار کی کوششوں کے باوجود سب ایک نہ ہو سکےاور اُسی زمانے سے گاؤں میں دو عیدیں ہونے لگیں۔مسئلے کی نوعیت سے قطع نظر 20 – 25/ سال پہلے کا ایک وہ دور تھا کہ ایک مفتی کے فتوے کی وجہ سے چند لوگوں کو چھوڑ کر فتوے کے نام پر پورا گاؤں پروگرام کرانے والوں سے الگ ہو گیا اور 20 – 25/ سال بعد اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ کسی بھی دار الافتا سے کسی پر کوئی فتوی لگے اس کا کوئی اثر ہی نہیں دکھتا۔آخر گزشتہ 20-25/ سالوں میں فتووں کا وقار اتنا گر گیا ،اس میں چوک کہاں ہوئی؟آخر اس کےاسباب کیا رہے؟
فتویٰ نام ہے کتاب و سنت اور علمائے راسخین فی العلم کی تحقیقات کو روشنی میں کسی سوال کے شرعی جواب دینے اورمسئلے کا حل بتانے کا۔ ایک مفتی کا کام ہے کہ جب عوامی نوعیت کا سوال آئے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں سائل کو اس کے سوال کا جواب دے۔لیکن جب معاملہ خاص ہو تو مفتی کے لیے لازم ہے کہ سوال کے بین السطور کو بڑی گہرائی سے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرے۔اگر دور سے بھی کوئی ایسی چیز لگے کہ سائل کا مقصودقرآن و حدیث کی روشنی میں دین سیکھنا یا دینی مسئلے کا علم حاصل کرنا نہیں، بلکہ اس کے پردے میں سماج میں فتنہ برپا کرنا ، کسی کے خلاف ماحول سازی کرنا، کسی کو رسوا اور بدنام کرنا ہے تو مفتی کی اولین ذمہ داری ہے کہ ایسے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہ دے۔ کیوں کہ دینِ اسلام لوگوں کو توڑنے، رسوا کرنے،ایک دوسرے کے خلاف ماحول سازی کرنے اور بدنام کرنے نہیں،بلکہ سب کو محبت کے دھاگے میں باندھنے، ایک دوسرے سے جوڑنے اور آپسی انسانی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے آیا ہے اور مفتی اسی اسلامی اخوت و محبت کا ترجمان ہوتا ہے۔ مفتی کا منصب لوگوں کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے،مسائل پیدا کرنا نہیں۔پرانے زمانے میں اکثریت ایسے مفتیوں کی تھی جو لوگوں کے تعلقات برقرار رکھتے ہوئے جوابات دیا کرتے تھے، مگر اب دور ہی کچھ ایسا آ گیا ہے کہ فتوی کے نام سے ہی عوام وحشت زدہ ہو جاتے ہیں ، بلکہ فتوے کا مذاق اڑاتے ہیں۔آخر کیوں؟ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ مفتی ہر استفتا کا جواب دینا اپنے لیے لازم سمجھتا ہے جس کا فائدہ اٹھاکر کچھ لوگ سماج کو لڑانے کا کام کرتے ہیں۔ چوں کہ سماج کے لڑنے اور ایک دوسرے کی نفرت میں مبتلا ہونے کی وجہ مفتی کا فتوی بنا اس لیے رفتہ رفتہ فتوی کا وقار گرتا چلا گیا۔دوسری وجہ جس شخص کو جس فلڈ میں اختصاص ہو اسے اسی فلڈکا جواب دینا چاہیے ۔دنیا کا یہی نظام بھی ہے کہ آدمی صرف اپنے فلڈسے متعلق چیزوں کے بارے ہی میں لکھتا یا بولتا ہے۔مگرآج مفتی ایک ایسا واحد شخص ہو گیا ہے جو ہر فلڈ کا جواب دینا اپنے لیے لازم سمجھتا ہے اور گڑبڑ کر جاتا ہے۔ کیوں کہ جس فرد کو جس فلڈ میں اختصاص نہیں ہوگا اگر وہ اس میں ہاتھ ڈالےگا تو گڑبڑی لازمی چیز ہے۔
فتوی نویسی وکالت کا کام ہے۔یعنی اسلامی لا کے اعتبار سے کسی مسئلے کی شرعی وکالت کرنا ۔ ظاہر سی بات ہے اِس کے لیے ضروری ہے کہ بندہ جس فلڈمیں جواب دے رہا ہو اُس فلڈ میں اُسے اب سے لے کر نزول قرآن اور ظہور حدیث تک کی تاریخی تسلسل کا علم ہو اور یہ بھی علم ہو کہ کس زمانے میں کہاں کہاں کس کس محقق اور فقیہ کا اختلاف ہےتاکہ اُن اختلافات سے فائدہ اٹھا کر توسع کی راہ اپنائی جائے اور عوام الناس کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں کہ اللہ نے نطام اسلام لوگوں کو مشقت میں ڈالنے کے لیے نہیں، ان کے حق آسانی پیدا کرنے کے لیے نافذ کیا ہے۔اس کا واضح فرمان ہے: اللہ تمھارے حق میں آسانی کا ارادہ رکھتا ہے ، مشقت اور پریشانی کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ لیکن جب ایک مفتی کو اُن چودہ سو سالہ علمی تراث اسلامی کا ہی علم نہ ہو ، اختلافات ائمہ و فقہا سے کما حقہ واقف نہ ہو اور اُن اسباب و عوامل کا درست ادراک نہ ہو جن کی وجہ سے مسائل میں آسانیاں ممکن ہوتی ہیں اورراہیں نکلتی ہیں تو ایسا مفتی مسائل حل نہیں، مسائل پیدا ہی کرےگا۔ اور اِدھر چند سالوں میں ایسا ہی ہوا ہے کہ کثرت سے لوگوں کے ایسے فتاوے عوام تک پہنچے جن سے عوام الناس مزید مشقت میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے فتووں پر عمل کرنے کی بجائے اپنی طبیعت اور حالات کے مطابق جو اُنھیں اچھا لگا اُس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔

علمی اعتبار سے یہاں یہ عالم ہے کہ سَو، سَوا سَو سال سے پیچھے جانا گوارا نہیں اورفلاں فلاں کتاب سے الگ ہٹ کر کسی کتاب کا کچھ سننا بار خاطر ہوتا ہے۔حالاں کہ یہ مقام صرف اللہ کی کتابِ مقدس قرآن شریف کا ہے کہ اس کا حرف حرف حرفِ آخر ہے۔اس کے مقابلے میں دنیا کی کوئی کتاب کسی مومن کے لیے حرفِ آخر ہو ہی نہیں سکتی۔اسی طرح یہ مقام کہ ’ اوچہ فرمائی ہمہ قرآن من‘ کا درجہ بھی صرف رسول کائنات ﷺ کو ہی حاصل ہے۔مابقیہ دلائل کی روشنی میں اوربدلتے حالات کے تناظر میں کسی سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اور ہر دورمیں ہوتا آیا ہے۔ مگر جب سے فکریں منجمد کی گئیں، سوچنے پر پابندی لگی ، چودہ سو سالہ تراث اسلامی سے لاتعلقی کا رویہ اختیار کیا گیاعوام علما اور خصوصاً مفتیان کرام سے دور ہوتے چلے گئے۔فتووں کے گرتے وقار میں ایک سبب فتوے کے ذریعہ عوام کو علمی تراث و توسع سے واقف کرانے کی بجائے انجمادی فکر اور کورانہ تقلیدی رویہ کا پابند بنانا بھی ہے۔
جب استفتا کسی فردِ خاص سے متعلق منفی طور پر آیا ہو تو اب ایک مفتی کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہاں مفتی کا کام صرف یہ نہیں رہ جاتا کہ آپ کے پاس بس ایک سوال آیا ہے آپ مطلوبہ سوالات کے صرف جوابات لکھ دیں۔ بلکہ اب آپ کے سامنے ایک سوال نہیں، ایک مومن کی عزت و آبرو ہے، جواب لکھنے سے پہلے لازم ہے کہ آپ انتہائی درجے تک جا کر ایک مومن کی عزت اور اس کے کلمہ گو ہونے کی حرمت کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے جواب دیں۔سوالات میں جو باتیں کسی فردِخاص سے متعلق پوچھی گئی ہیں مفتی پہلے اپنے طور پر تحقیق کرے کہ ان باتوں میں کتنی سچائی ہے۔ اگر صاحب معاملہ حیات ہو تو ان سے بالمشافہہ مل کر ان سوالات سے متعلق معلومات حاصل کرے، وضاحت طلب باتیں ہوں تو وضاحت حاصل کرے۔اور دوران تحقیق اگر معاملہ کفر و اسلام کا ہو تو صاحب معاملہ کی باتوں پر اعتبار بھی کرے۔کیوں کہ ایک کلمہ گو کی عزت و حرمت کی حفاظت اولین ذمہ داری ہے۔کہیں ایسا نہ ہو جلد بازی میں غلط جواب دے کر اگلے، بلکہ اپنی رسوائی کا سبب بنے۔ایک جنگ میں ایک کافر جب قتل ہونے کے قریب آیا تو کلمہ پڑھا، مگر ایک صحابی نے اسے قتل کر دیا جس پر رسول گرامی وقار سخت ناراض ہوئے اورفرمایا کہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تو تم نے کیسے قتل کر دیا ۔ صحابی نے صفائی پیش کی کہ تلوار کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا تو حضور ﷺ نے فرمایا:کیا تم نے اس کادل چیرا تھا۔ گویا ایک مومن جب اپنے مومن ہونے کی گواہی دے رہا ہے اور بظاہر کوئی ایسا قول و فعل ہوش و حواس کی سلامتی اور حالت اکراہ کے بغیر اس سے سرزد نہ ہوا ہو جو بالاتفاق جملہ ائمہ و فقہا کفر و شرک ہو تو اس کی گواہی ہر حال میں قبول کرنی چاہیے۔اِس زمانے میں بہت سے مفتیانِ کرام نے یہ طریقہ چھوڑ دیا ہے۔ بس ان کے پاس کسی بھی بڑے سے بڑے نامور متقی کے حوالے سے بھی کوئی منفی سوال جاتا ہے فوراً اس متقی کے خلاف کفر و شرک، گمرہی و بدعتی کا فتوی آ جاتا ہے۔نہ اس متعین شخص سے ملاقات کی زحمت اٹھائی جاتی ہے۔نہ ان سے مسئول استفتا کے متعلق کچھ صفائی لی جاتی ہے اور نہ اتمام حجت کیا جاتا ہے۔بلکہ تحقیق کے نام پر اُن فردِخاص کے مخالفین سے دو چارباتیں پوچھ کر خلاف میں فتوی دے دیا جاتا ہے ۔حالاں کہ ایسے فتاوے میں موجود الزامات محض الزامات ہی ہوتے ہیں ، حقیقت سے ان کا دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔ اس طرح جو فتاوے عوام تک پہنچتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے یہ حقیقت کے سراسر خلاف ہوتے ہیں ۔ لہذا،عوام کی نظر میں اس طرح کے فتووں کا کوئی وقار باقی نہیں رہتا۔یہ تو دو چارسرسری اسباب ہیں جن کی وجہ سے فتووں کا وقار گرتا جا رہا ہے۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہات ہیں،مگر یہاں اتنا ہی ۔
ایسے میں دوبارہ فتووں کا وقار بحال ہونے کے لیے لازم ہے کہ فتوی نویسی کا کام وہ مفتیانِ کرام انجام دیں جو حالاتِ زمانہ سے کمال ِواقفیت کے ساتھ چودہ سو سالہ تراث فقہی و اسلامی پر گہری نظر رکھتے ہوں اور جو جس فلڈ کا متخصص ہو وہ اسی فلڈ کا جواب لکھے۔نکاح و طلاق کا علم رکھنے والا نکاح و طلاق ہی کا جواب دے، میراث کا متخصص میراث سے متعلق فتوی دے اور علم و کلام و فلسفہ میں مہارت رکھنے والا کلامی جوابات لکھے۔مزید اس پر یہ بھی ہو کہ شخصی فتاوے صادر کرنے سے پہلے ملکی سطح کے ایسے چالیس مختلف المسالک ماہرین جو حرمتِ اسلامی کے تقاضوں کو مد نظررکھتے ہوئے جہاں تک ہو سکے اسلام کا پہلو غالب رکھتے ہوں وہ اپنی سی کوششوں کے بعد اتفاقِ رائے سے جو فیصلہ کریں اس کے مطابق جواب دیا جائے۔ مزید جواب میں اسلامی توسع اور آسانی کی راہ پیش نظر ہو اورعوام الناس کو فتووں کے ذریعہ چودہ سالہ علمی تراث سے جوڑا جاتا ہو ۔ اگر اس طریقے پر فتوی نویسی کی جائے اورعوام الناس کے مسائل کا شرعی حل تلاش کیا جائے تو از سرِنو فتووں کا وقار بحال کیا جا سکتا ہے۔

Exit mobile version