Site icon

دینی مدارس کیخلاف نفرت آمیز پروپیگنڈا اور کارروائی, کیساتھ مسلمانوں کی بھی ذمہ داریاں

جاوید جمال الدین

____________________

ملک میں 2014 میں بی جے پی کی قیادت میں نریندر مودی کی سربراہی میں حکومت نے اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف جورویہ اپنایا،اُس میں دس سال کے دوران ذرہ برابر کمی واقع ہوئی ہے۔بلکہ فرقہ پرستی پھیلانے میں مرکزی اور کئی ریاستوں کی حکومتیں مبینہ طور پر ملوث پائی جاتی ہیں۔ابتدائی دور میں بھی ایک سنئیر صحافی نے مجھے بتایاکہ وزارت اقلیتی امور کے افسران ان کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھارہے ہیں۔اس درمیان دینی مدارس کیخلاف نفرت آمیز پروپیگنڈاسب سے زیادہ کیاگیا،اٹل بہاری واجپئی کے دورہ حکومت میں بھی یہی ہوتا رہا،لیکن نیپال کی سرحد پر مدرسوں کے قیام پر پارلیمنٹ میں اُس وقت کے وزیرِ داخلہ ایل کے اڈوانی نے ان الزامات کومسترد کردیاکہ مدرسے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
اتر پردیش ،آسام اور مدھیہ پردیش میں مودی سرکار کے دوسرے دور میں جھوٹا پروپیگینڈا بڑھ گیا اور اب امنظم طریقے سے کارروائیاں کی جارہی ہیں،آسام میں سینکڑوں مدرسوں کو بند کردیاگیا۔مدارس کے خلاف اترپردیش اور آسام ہی نہیں بلکہ دیگر مقامات پر بھی کارروائی کی خبریں آرہی ہیں تازہ اطلاعات کے مطابق مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈ نے شیوپور کے 56 مدارس کی منظوری منسوخ کر دی ہے۔ یہ کارروائی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر رویندر سنگھ تومر کی جانچ رپورٹ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 56 مدارس کام نہیں کر رہے تھے جن میں سے 54 مدارس حکومت سے گرانٹ بھی لے رہے تھے۔ مدرسہ بورڈ نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی رپورٹ کی بنیاد پر 56 مدارس کی منظوری منسوخ کر دی ،شیوپور میں کل 80 مدارس ہیں جن میں سے 56 مدارس ایسے تھے جو کام نہیں کر رہے تھے۔
شیوپور کے ان 56 مدارس فرضی قرار دیاگیا ہے ۔ اس کے باوجود کئی مدارس کی طرف سے گرانٹ بھی مانگی جا رہی تھی۔ تحقیقات کے بعد کارروائی کے لیے تجویز اسٹیٹ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو بھیجی گئی تھی۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مدرسہ بورڈ نے یہ کارروائی کی ہے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے مطابق شیوپور میں صرف 24 مدارس ایسے ہیں جو جاری ہیں۔ باقی مدارس بند پائے گئے۔
تومرکے مطابق ان مدارس نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ان میں پڑھنے والے طلباء اچانک کہاں چلے گئے۔ ان کے خلاف مزید کارروائی جاری ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت نے شیوپور میں مدارس پر کی گئی کارروائی کے تعلق سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے

خبروں کے مطابق شیوپور میں کل 80 مدارس ہیں جن میں سے 56 مدارس ایسے تھے جو کام نہیں کر رہے تھے۔ ان میں سے 54 مدارس حکومت سے گرانٹ بھی لے رہے تھے۔ اس کی شکایت ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سے کی گئی تھی۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے معاملے کی تحقیقات کی، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ مدارس میں بڑا فراڈ ہورہا ہے۔ 56 مدارس کام نہیں کر رہے تھے۔ جانچ کے بعد ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے اپنی رپورٹ مدرسہ بورڈ کو بھیج دی۔
مدرسوں کے خلاف کارروائیوں کے درمیان مسلمانوں اور اُن کے رہنماؤں کو چاہیئے کہ سنجیدگی سے اس مسئلہ پر توجہ دیں۔ اس معاملہ میں سارا الزام حکومت کے سر تھوپ دینے کے بجائے ہمیں اپنے آس پاس کاجائزہ لینا چاہئیے، تقریباً دو دہائیوں قبل میں اخبار کی طرف سے پونے میں خدمت انجام دے رہا تھا اور وہاں مضافاتی علاقے کونڈا،ہرپسر اور دوسرے کئی مسلم علاقوں کادورہ کرنے کا موقعہ ملا۔بلکہ میں مسلم اکثریتی علاقہ کونڈوا میں رہائش پذیر تھا۔میں اس د درمیان محسوس کیا کہ کونڈواکی نئی نئی بستیوں میں عام اسکولوں سے زیادہ مدرسے واقع ہیں جن کا تعلق سبھی مکاتب فکر سے ہے،اور حال می پونے کے دورے کے موقع پر ان مدرسوں میں زبردست اضافہ محسوس کیا۔مذکورہ مدرسوں میں بچوں کی تعداد انتہائی قلیل پائی جاتی ہے،لیکن مقابلہ آرائی عروج پر ہے۔
ایک صحافی کی حیثیت سے میں نے کئی بڑے شہروں اور ریاستوں میں قیام کیاہے اور گزشتہ سال بہار ،اترپردیش ،ہریانہ اور دہلی میں دورے کے دوران دینی خدمات انجام دے رہے متعدد مدارس کا دورہ کیا اور ان کی دینی خدمات قابل ستائش ہیں ،مگر ان مخلص اداروں کی آڑ میں ایسے سینکڑوں ادارے ہیں ،جن کے منتظمین کی نیت میں فتور ہے۔ایسے شہروں میں بھی گیا،جہاں بڑے بڑے مدرسے اور دارالعلوم واقع ہیں،ان کی گلی محلوں میں سینکڑوں مدرسے بنالیے گئے ہیں۔جوکہ ہمیں انتظامیہ کی نظروں میں نیچہ گردیتا ہے۔
میرے ایک رشتہ دار ممبئی کے ایک بڑے صنعت کار کے ذریعے چلائے جانے والے چیریٹیبل ٹرسٹ میں تعلیمی شعبہ میں خدمت دے رہے ہیں اور ملک بھر میں ادارہ سے جاری فنڈ کے استعمال کی جانچ کے لیے دورہ کرتے ہی تو اپنے تجربات پیش کرتے ہوئے انتہائی جذباتی ہو جاتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ حال میں مدارس اور عیدالاضحی پر حصے والی قربانی کے نام پر گورکھ دھندہ چل رہا ہے،اُس سے ملت اسلامیہ کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔چند مفاد پرستوں کی وجہ سے قوم بدنام ہونے نہ پائے ۔

Exit mobile version