عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے
_________________
اللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف النوع کمالات وصفات کا حامل بنایا ہے ،الگ الگ خوبیوں سے مالا مال کیا ہے ،انہیں باکمال شخصیات میں ہمارےمشفق ومحسن استاذ ،حضرت مولانا مفتی ریاست علی صاحب قاسمی رام پوری مدظلہ ہیں ،جو اس وقت جامع مسجد امروہہ کے ممتازاستاذ حدیث اورصدر مفتی ہیں ، جنہیں اللہ تعالی نے نہ صرف مقبول ترین تدریسی صلاحیت اورسحر آفریں بیان وخطابت کا ملکہ عطا فرمایا ہے ،بلکہ قلمی و تحریری قابلیتوں میں بھی خوبیوں کا حامل بنایا ہے ،وہ برجستہ لکھنے کے عادی ہیں ،ان کا قلم رواں ہے ،ایک بار قلم تھا م لینے کے بعد کبھی بھی انہیں الفاظ ڈھونڈتے ہوئے نہیں پایا ،مانو جیسے الفاظ اپنی باری کے انتظار میں قطار درقطاربر نوک قلم ہوں ،یہی کیفیت وعظ و تقریر میں بھی پائی جاتی ہے ،درس وتدریس کے مرحلوں میں بھی وہ منفرد لب و لہجے مالک ہیں ،ان کے لئے نہ کوئی کتاب ادق ہے اور نہ کو ئی مضمون ہی مشکل!
بیان وخطابت میں بھی ان کی شائستگی،شیفتگی،سحر انگیزی اوربرجستگی سامعین کو متآثر کرتی ہے ،عموما ان کا بیان سادہ اور اصلاحی ودعوتی ہوتا ہے ،مجمع پر خاصا اثر ہوتا ہے ،قران واحادیث ،اولیاء اللہ کےواقعات وحکایات پر مشتمل ان کا خطاب دلوں کو مسحور کرتا ہے ،اسی لئے عوام وخواص ان کی تقریر کو پسند بھی کرتے ہیں اور عملی مرحلوں میں ان سے رہنمائی بھی پاتے ہیں ۔
انہوں نے درس وتدریس، فتاوی نویسی اور دیگر علمی وفکری مصروفیات کے باوجود قلمی خدمات سے بھی خود کومربوط کیا ہوا ہے ،ان کے شگفتہ قلم سے اب تک سینکڑوں مضامین ومقالات مختلف رسائل وجرائد کی زینت بن چکے ہیں ،اس راہ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی کے خلفاء عالی مقام کے حالات وخدمات کو محفوظ کر ملت کو روحانی واخلاقی اور علمی سرمایہ فراہم کرناہے ،جس کا اعتراف ملک کے قابل ذکر اداروں ،تنظیموں اور ماہرین علم وفن مقتدر علماء و صلحاء نے کیا ہے ،اس کی دو ضخیم جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں ،جس میں 76/ خلفاء کے خاکوں کو پیش کیا گیا ہے ۔یہ کام اس معنی کر اہم تھا کہ گزشتہ پچاس برسوں سے اصحاب علم وفن اس کی ضرورت محسوس کررہے تھے، جو کسی وجہ سے نہ ہوسکا تھا ،یہی وجہ ہے کہ کتاب طباعت کے مرحلے سے آنے کے بعد غیر معمولی حیثیت سے مقبول خاص و عام ہوئی ،اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔
ان اوراق میں جن بزرگوں پر خاکہ نگاری کی گئی ہے ،اس حوالے سے ایک مشکل مرحلہ یہ تھا کہ خلفاءکی ایک بڑی تعداد آسودہ رحمت ہوچکی تھی،یابہت سی شخصیات ایسی تھیں کہ جن کے بارے میں کچھ مل پانا مشکل تھا،مگر ہر طرح سے پتہ ماری کرنے کے بعد انہوں نے 76/اشخاص پر ہزار صفحات سے زائد اوراق میں شاندار خاکہ نگاری کی ہے ،ان کے کام کی نوعیت وجہت اور ان کی شبانہ روز کی محنتوں کاوشوں کو دیکھ کراس خود غرض زمانے میں کہا جاسکتا ہے کہ
”کون ہوتا ہے حریف مئے مردا فگن عشق“۔
اس کی تیسری جلد پر بھی کام جاری ہے ،بہت جلد ان شاء اللہ خوبصورت طباعت وکاغذ اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔
یوں تو ان کے گہر بار قلم سے "البیان المحقق فی شرح مقدمۃ الشیخ عبد الحق ،،”قرآن کریم ایک عظیم دولت ،،اسی طرح” نامور شخصیات،، جیسی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ،مگر ان میں "کاروان اہل حق” بھی ایک ایسی ہی ان کی دوسری کتاب ہے جس میں تقریبا 62/افراد پر خاکہ نگاری کر انہیں دنیاء اہل حق کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی ہے ۔سو اچھ سو صفحات کی یہ کتاب بھی ان کی خاکہ نگاری کا شاندار نمونہ ہے ،خوبی کی بات یہ ہے کہ اس میں ایسے ایسے گمنام وکم نام افراد پر خاکہ نگاری کو راہ دی گئی ہے ،جنہیں دنیا بھلا چکی تھی یا حالات کے تھپیڑوں کی وجہ سے صاحب خاکہ نے عملاً خود کہہ دیا تھا کہ
"گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے "
حضرت مفتی صاحب نے جس عزم واستقلال سے اس تاریخی کام کو سرانجام دیا ہے ،وہ ایک مثال ہے ،انہوں نے تنکا تنکا جمع کر کے جس طرح خاکہ نگاری کی طرح ڈالی ہے اور سینکڑوں اشخاص کی حیات بعد الممات سے ملت اسلامیہ ہندیہ کو روشنی دیکھانے کا کام کیا ہے ،ان شاء اللہ ان کا یہ کارنامہ ،اہل علم و قلم کے لئے حوالہ اور سنگ میل ثابت ہوگا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت کے قلم اور جسم وفکر کو تعب وتھکن سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین