Site icon

ہندوستان کی تحریک آزادی کے مختلف مراحل اور آر ایس ایس: ایک تاریخی جائزہ

محمد شہباز عالم مصباحی

اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ عربی

سیتل کوچی کالج، کوچ بہار، مغربی بنگال

__________________

اس بار ہم 78واں جشن آزادی منارہے ہیں۔ہمارے ملک ہندوستان کو ایک طویل جد وجہد کے بعد 15 اگست 1947ءمیں آزادی نصیب ہوئی۔در اصل ہندوستان کی آزادی تاریخی اعتبار سے سات مراحل میں طے ہوئی ہے۔یہ تمام مراحل ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ہر دوسرے مرحلے نے پہلے مرحلے کی حریت پسندانہ کوششوں کو آگے بڑھایا اور بالآخر 1947ء میں ہمیں آزادی ملی اوراس طرح حریت کے علمبرداروں کی آرزوئیں پوری ہوئیں۔

ان مراحل میں پہلا مرحلہ انگریزوں کے خلاف نواب بنگال علی وردی خان کی جنگ ہے۔ علی وردی خان(1756-1671) نے 1754ءمیں فورٹ ولیئم (کولکاتا) پر حملہ کرکے انگریزوں کو بھگادیا تھا جس کے بعد انگریز ڈائمنڈ ہاربر میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔یہ ایک مسلح اور منظم جنگ تھی۔

دوسرا مرحلہ پلاسی کی جنگ ہے۔ یہ جنگ علی وردی خان کے نواسے نواب سراج الدولہ(1733ء تا 2جولائی1757ء) اور برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز سوداگروں کے درمیان مرشد آباد (مغربی بنگال) سے دکھن جانب بائیس میل دور پلاسی کے میدان میں 23جون، 1757ء میں واقع ہوئی۔ اس جنگ میں نواب کے سپہ سالار غدارِ وطن میر جعفر کی غداری کی وجہ سے شکست ہوئی۔میر جعفر روبرٹ کلائیو کی پُر فریب سازشوں کا شکارہوگیا تھا۔جنگ میں شکست کے بعد نواب کو نظر بند کردیا گیا اور پھر ان کے دار السلطنت مرشد آباد میں ان کو قتل کردیا گیا۔اس طرح آزادی کا یہ متوالا آزادی کی خواہش لیے اس دنیا سے چل بسا۔

تیسرا مرحلہ بکسر کی جنگ ہے۔یہ جنگ ہیکٹر منرو کی ماتحتی میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں اورنواب بنگال میر قاسم (وفات: 8مئی،1777ء)، نواب اودھ شجاع الدولہ (1775-1732) اور مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی (1806-1728) کی متحدہ فوجوں کے درمیان 22اکتوبر، 1764ء میں بکسر میں لڑی گئی۔اس جنگ میں بھی ہندوستانی فوج کو شکست ملی۔

چوتھا مرحلہ شمس الملک نواب حیدر علی بہادر (1782-1721) اور ان کے بیٹے شیر میسورفتح علی ٹیپو سلطان (20نومبر، 1750ء تا 4مئی، 1799ء)کی انگریزوں کے خلاف جنگیں ہیں۔حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چار جنگیں کیں۔یہ چاوروں جنگیں”اینگلو میسور جنگ“کے نام سے جانی جاتی ہیں۔پہلی اینگلو میسورجنگ 1767ء سے 1769ء تک لڑی گئی۔اس جنگ میں ٹیپو سلطان انگریزوں کے خلاف اپنے باپ حیدر علی کے پہلو بہ پہلو شریک جنگ رہے یہاں تک کہ مارچ 1769ء کے آخر میں حیدر علی نے بالکل مدراس کی چوکھٹ پر انگریزوں کو اپنی شرطوں پر صلح کرنے پر مجبور کردیا۔ دوسری اینگلو میسورجنگ 1780ء سے 1784ء تک ہوئی۔ اس جنگ میں باپ بیٹے حیدر اور ٹیپو دونوں نے مل کر کرنل بیلی ،ہیکٹر منرو ،بریتھ ویٹ، جنرل اسٹورٹ اورجنرل میتھیوز کو فیصلہ کن شکستیں دیں اور میجر کیمپل کو ہنگامی معاہدہ صلح ماننے پر مجبور کردیا جس کے بعد کیمپل نے منگلور کا قلعہ ٹیپو کے حوالے کردیا۔ اسی جنگ کے دوران 7دسمبر، 1782ء میں سلطان حیدر علی نے بعارضہ سرطان وفات پائی۔ تیسری اینگلو میسور جنگ 1790 ء سے 1792ء تک لڑی گئی۔ ٹیپو سلطان نے یہ جنگ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں اور اس کے اتحادی مراٹھا سلطنت اور نظام حیدرآباد کی فوجوں سے لڑی۔ چوتھی اینگلو میسور جنگ 1799ء میں سرنگاپٹم میں واقع ہوئی۔ مراٹھا سلطنت اور نظام حیدر آباد کی فوج اس جنگ میں بھی انگریزوں کے ہمراہ تھی۔ اس جنگ میں پرنیّا، میر معین الدین خان، قمر الدین اور میر صادق کی غداری اور فریب کاری کی وجہ سے میسوریوں کی شکست اور انگریزوں کی جیت ہوئی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے لڑتے لڑتے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش کیا۔ ٹیپو سلطان کا کہنا تھا کہ ”انگریزوں کا قیدی بننے سے میں مرجانا بہتر سمجھتا ہوں۔“ سلطان کی شہادت کے بعد جب ان کا جنازہ اٹھاتو جنازے کا جلوس جس راستے سے گزرا بیشتر (ہندو) شہری جنازے کے سامنے سر نگوں ہوگئے اورسارے شہری اپنے حزن وملال کے اظہار کے لیے دہاڑیں مار کر رونے لگے۔ اس جنگ کے بعد میسور کی” سلطنت خدا داد“ کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ آج نواب سراج الدولہ،حیدر علی اور شہید ٹیپو سلطان جیسے آزادی کے متوالوں کو صرف اس لیے بہت کم یاد کیا جاتا ہے کہ یہ تینوں مسلمان حکمران تھے۔تاریخ میں اس سے بڑی احسان فراموشی اور محسن کشی کی دوسری مثال مشکل سے ہی ملے گی۔

پانچواں مرحلہ 1845ء میں سکھوں اور انگریزوں کے درمیان ایک جنگ ہے۔یہ جنگ پورے ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے نہیں، بلکہ سکھوں کے علاقہ کو خود مختاری دلانے کی غرض سے لڑی گئی تھی۔انگریزوں نے سکھوں سے مصالحت کی اور نتیجہ کے طور پر پنجاب میں سکھوں کی عملداری قائم ہوگئی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جانشین کے طور پر مہاراجہ دلیپ سنگھ کو انگریزوں نے جانشین مان لیا۔ اس طرح 1845ء کی اس جنگ کا مقصد پورا ہوا۔

چھٹامرحلہ 1857ء کی انقلابی، عوامی اور قومی جنگ ہے۔ اس جنگ کی تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ غیر ملکی انگریزوں کے پیہم ظلم وستم، جارحیت و سفاکیت، قتل و غارت گری اور مذہبی مداخلت کے رد عمل میں 11مئی، 1857ء میں میرٹھ سے شروع ہوئی اور 21 ستمبر 1857ء کوغداروں اور دغا بازوں کی وجہ سے شکست پر منتج ہوکر دہلی میں ختم ہوگئی۔ اس جنگ میں عوام کے ہر طبقے کے لوگ شامل تھے۔ اُن میں مسلمان، ہندو اورسکھ مرداور عورت سبھی تھے۔ان کی بہادری اور جاں بازی کی مثالیں ایسی ہیں جو تاریخ میں آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ یہ بغاوت پورے ہندوستان میں بھڑک اٹھی تھی۔ ماضی کے مشاہیر علما ومشائخ میں سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت مرزا مظہر جان جاناں مجددی دہلوی، حضرت شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی، حضرت قاضی ثناءاللہ مجددی پانی پتی، حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی، حضرت مفتی محمد عوض عثمانی بدایونی ثم بریلوی اور حضرت مفتی شرف الدین رام پوری کی ہدایات، ملفوظات اور مکتوبات وغیرہ کے ذریعہ اس انقلاب کو فکری و نظریاتی غذا اور تحریک ملی۔ اس کی قیادت اس دور کے مشاہیر علما نے کی تھی۔ علامہ فضل حق خیر آبادی نے انگریزوں کے خلاف فتویِ جہاد دیا تھا ۔ان کے علاوہ طبقۂ علما سے مفتی صدر الدین آزردہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا کفایت علی کافی مرادآبادی، مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی، مفتی عنایت احمد کاکوروی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی، مولانا امام بخش صہبائی دہلوی، مولانا وہاج الدین مرادآبادی، مولانا رضا علی خاں بریلوی، منشی رسول بخش کاکوروی، غلام امام شہید، مفتی مظہر کریم دریا آبادی، منیرشکوہ آبادی، مولوی محمد باقر، مولوی لیاقت علی الہ آبادی، مولوی سرفراز علی، مولانا پیر علی، مولوی رضی اللہ، مولوی نعمت اللہ اور مولوی عبد الرحمن لکھنوی ثم مالدوی وغیرہ تھے۔ بہادر شاہ ظفر، شہزادہ فیروزشاہ، جنرل بخت خاں روہیلہ، نواب مجو خاں مراد آبادی، بیگم حضرت محل (افتخار النساء)، غوث محمد خان اور جنرل عظیم اللہ خان وغیرہ کے عسکری اقدامات کے پیچھے ان ہی علما کا ہاتھ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کے دوران اور انقلاب کی ناکامی کے بعد بھی علما ہی انگریز مظالم کا سب سے زیادہ شکار ہوئے۔انگریزوں نے عام ہندوستانیوں کے علاوہ کم از کم 19 ہزار علما کو شہید کیا تھا۔ بعض مؤرخین نے شہید علما کی تعداد 52 ہزار بھی لکھی ہے۔ بے شمار علما کو سزا کے طور پرجزیرۂ انڈمان بھی بھیجا گیا تھا۔ شہنشاہ ہندوستان بہادر شاہ ظفر نے ہندوستان کی آزادی کی خاطر ہی اپنا تخت و تاج تک قربان کردیا اور رنگون (میانمار) میں جلا وطنی کی سزا جھیلی اور وہیں7نومبر، 1862ء میں ان کی وفات بھی ہوئی۔مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں اور سکھوں میں سے منگل پانڈے، رام کنور سنگھ، رانی لکشمی بائی، نانا صاحب پیشوا، تانتیا ٹوپے، راجا ناہر سنگھ، راجہ وینکٹا پانائک، بھوانی سنگھ، راؤتلا رام، منی رام دت، امراؤ سنگھ، رگھوناتھ سنگھ، راج مند تیواری، جے لال سنگھ، گور بخش سنگھ، ہنو منت سنگھ، بینی مادھو اور نرپت سنگھ جیسے جیالوں نے اس جنگ میں بھر پور حصہ لیا تھا اور ہر طرح کی قربانیاں دی تھیں۔ تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔

ساتواں مرحلہ1857 ء سے1947ءتک کی تحریک آزادی ہے۔ سقوطِ دہلی اور ہندوستان پر انگریزوں کے مکمل تسلط کے بعد آزادی کا شعلہ بظاہر بجھ گیا، لیکن حریت پسندوں کے دلوں میں وہ جلتا رہا اور انگریزوں کے خلاف نفرت برقرار رہی۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کے لرزہ خیز مظالم کے باوجود آزادی کے لیے ایک بار پھر ملک میں ماحول بننا شروع ہوگیا جو شروع شروع میں زیر زمین رہا اور پھر دھیرے دھیرے منظر عام پر آیا۔اس مرتبہ بھی مسلم، ہندو اور سکھ سب نے مل کر آزادی کے لیے جاں توڑ کوششیں کیں جو نتیجہ خیزثابت ہوئیں اور ہندوستانیوں کی برسوں کی آرزوے آزادی پوری ہوئی۔ اس بار بدر الدین طیب جی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، بی اماں، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابوالکلام آزاد، موہن داس کرم چند گاندھی، گوپال کرشن گوکھلے، بال گنگا دھر تلک، چترنجن داس، لالہ لاجپت رائے، پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، سبھاش چندر بوس، چندر سیکھر آزاد، بھگت سنگھ، لال بہادر شاستری، سروجنی نائیڈو، ڈاکٹر راجند پرساد، ڈاکٹر محمد اقبال، رام پرساد بسمل، جوش ملیح آبادی، اُدھم سنگھ، کھُودِی رام بوس، عبد الغفور، حکیم اجمل خان ،مولانا حسرت موہانی، مولانا محمود الحسن، بیگم رقیہ، عبد القیوم انصاری، مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، اشفاق اللہ خان، سیف الدین کیچلو، رفیع احمد قدوائی، مولاناعبید اللہ سندھی، مولانا مظہر الحق، خان عبد الغفار خان، ڈاکٹر ذاکر حسین، آصف علی اور اورنا آصف علی وغیرہ نے قائدانہ کردار ادا کیا اور انڈین نیشنل کانگریس(1885)، تحریک خلافت(1919)، تحریک ترک موالات /تحریک ترک تعاون(1920)، تحریک ریشمی رومال(1920-1913)، آزاد ہند فوج(1942) اور بھارت چھوڑو آندولن(1942) جیسی با اثر و قومی تحریکات کے ذریعہ 15ءاگست، 1945ء میں اپنے جنت نشان ہندوستان کو انگریزوں کے پنجۂ استبدادو استحصال سے آزاد کرلیا اور ہمیں غلامی سے نجات دلاکر آزادی کی خوشگور فضا فراہم کی۔

جنگ آزادی اور آر ایس ایس:

رَاشْٹَرِیَہ سُوَائَمْ سَیْوَکْ سَنْگھ (آر ایس ایس) ایک انتہا پسند ہندو تنظیم ہے۔ اس کی بنیاد ناگپور میں27ستمبر، 1925ء میں پڑی۔ اس کے بانی ڈاکٹر کیشوبلی رام ہیڈ گیوار ہیں۔ پوری تحریک آزادی کے دوران یہ تنظیم ایک خاموش تماشائی بنی رہی۔ 1925ء سے 1947ءتک کسی جہت سے بھی آزادی میں حصہ نہ لیا۔ جب ہندوستان آزاد ہوگیا تو اس آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھانے میں لگ گئی۔ اس تنظیم نے” ترنگا جھنڈے“ کی بھی مخالفت کی اور 17 جولائی، 1947ء میں ترنگا کے بجائے” بھگوا جھنڈے “کو قومی جھنڈے کے طور پر اختیار کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس تنظیم پر چار مرتبہ پابندی بھی لگی۔پہلی بار برطانوی عہد میں، دوسری بارگاندھی جی کے قتل کے بعد، تیسری بار ایمرجنسی کے دوران اور چوتھی بار 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد، کیونکہ اسی تنظیم سے متعلقہ ایک تنظیم "ویشو ہندو پریشد” کے کارسیوکوں نے 6دسمبر، 1992ء میں بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔ ہندوستان میں ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات میں بھی اس تنظیم نے کافی اہم کردار نبھایا ہے۔ 30جنوری، 1948ء میں ناتھو رام گوڈسے نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کو قتل کردیا جو آر ایس ایس ہی کا ایک رکن تھا۔ اسی وجہ سے گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی لگی۔ مہاتما گاندھی کا قتل در اصل ہندوستانیت، عدم تشدد، رواداری، فرقہ واوانہ ہم آہنگی اور امن و شانتی کا قتل تھا۔ چنانچہ اس کے بعد ہی ہندوستا ن میں نفرت، تشدد، عدم رواداری، فرقہ واریت اور اضطراب و بے اطمینانی نے جگہ بنالی اور آج تو یہ ماحول پورے شباب پر ہے۔ ناتھورام جیسے لوگوں نے ایک بار پھر نفرت و تشدد کے ہتھیاروں کے ذریعہ ہندوستان کو غلام بنالیا ہے۔ ہمیں اس غلامی سے ہندوستان کو ایک بار پھر آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں وہ ہندوستان چاہیے جس کا خواب مردان حریت نے دیکھا تھا نہ کہ وہ ہندوستان جو آر ایس ایس اور اسی جیسی دوسری انتہا پسند تنظیموں سے جڑے لوگ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔

Exit mobile version