وقف ترمیمی بل 2024 : مضمرات و ممکنات

ڈاکٹر نورالسلام ندوی

____________________

وقف کامطلب ہے کہ کسی چیز کو اپنی ملکیت سے نکال کر اللہ کی ملکیت میں اس طرح محبوس کر دینا کہ اس کا فائدہ بندوں کو ہو۔ اس کے منافع کو فقرا و مساکین اور دوسرے کارہائے خیر میں صرف کرنا وقف ہے ۔ اسلام میں شروع سے لے کر آج تک وقف کا سلسلہ جاری ہے ۔ سب سے پہلے حضرت محمد ﷺ نے مسجد قبا کے لئے زمین وقف کی ۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ مدینہ میں سات باغوں کو وقف کیا گیا ۔ وقف ایک مذہبی اور خیراتی عمل ہے ۔ اس کے ذریعہ اسلام نے ایک نہایت ہی طاقتور معاشی و اقتصادی نظام کی بنا ڈالی۔ جس سے فقراءو مساکین ، مفلس و محتاج اور بیوہ و یتیم کی کفالت ہوتی ہے اور دوسرے بہت سے مذہبی و دینی امور اور کارخیر انجام پاتے ہیں۔ اس کا مقصد تقرب الی اللہ اور صدقہ جاریہ ہے۔

چنانچہ مسلم معاشرہ میں اموال و جائداد کو وقف کرنے کی روایت چلی آرہی ہے ۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی آمد کے بعد اوقاف کے قیام کا سلسلہ شروع ہوام۔بڑی تعداد میں اوقاف قائم ہوئے، جن کی نگرانی حکومت کے مقرر کردہ قاضی کیا کرتے تھے اور ہر مملکت کے اندر اوقاف کی عام نگرانی صدرالصدور کی ذمہ داریوں میں شامل تھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد اوقاف کے نظام میں گڑبڑی پیدا ہوئی اور انگریزوں کے ہندوستان پر قبضہ کے ساتھ ہی صورت حال مزید ابتر ہوگئی۔

وقف کے مسائل و معاملات کا تعلق اسلامی قانون سے ہے ،ہر چند کہ ہندوستان میں اوقاف کا انتظام مختلف وقف قوانین کے ذریعہ صوبائی سطح پر وقف بورڈوں کے ذریعہ عمل میں لایا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی وقف قوانین میں اسلامی ضابطہ و اصول کو ہی مدنظر رکھا جاتا رہا ہے۔ حکومت ہند نے وقف ایکٹ 1995 کے ذریعہ اوقاف کے انتظام میں یکسانیت لانے کی کوشش کی۔وقف ایکٹ 1995 میں اصلاحات اور ترمیم کی ضرورت محسوس ہوئی تو مسلمانوں کے مذہبی و سماجی نمائندوں اور دانشوروں نے ایک ایسے نئے وقف ایکٹ کا مطالبہ کیا جو مضبوط، اثردار، وقف کی جائداد سے غلط اور ناجائز قبضوں کو ہٹانے کی طاقت رکھنے والا ہو اور اوقاف کی ترقی کا ذریعہ بن سکے ۔چنانچہ وقف ترمیمی ایکٹ 2013 پاس ہوا، جو یکم نومبر 2013 سے نافذ العمل ہے ۔وقف ایکٹ 1995 سے قبل بھی وقفہ وقفہ سے وقف قوانین کا نفاذ ہوتا رہا ہے۔ جس سے اوقاف کے نظام کو موثر بنانے میں مدد ملتی رہی ہے۔

حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 کو لوک سبھا میں پیش کیا ،لیکن حزب اختلاف کے شدید دباؤ میں اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے ۔اس بل کو اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے پیش کیا اور اسے وقف کے کاموں میں شفافیت لانے اور بدعنوانی کو روکنے والا بتایا اور کہا کہ یہ بل وقف جائداد کو محفوظ بنانے اور تمام مذہبی طبقات کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والا ہے، جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کو مذہبی حقوق پر حملہ اور فرقہ وارانہ منافرت بڑھانے والا بتایا۔ لہٰذا وقف ترمیمی بل کے فوائد اور مضمرات کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے ، تاکہ اس کی مفید باتوں کو قبول کیا جا سکے اوراس کی خامیوں کودور کیا جا سکے ۔ ذیل کے سطروں میں وقف ترمیمی بل 2024 کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے ۔
نئے بل میں وقف ایکٹ کا نام بدل کر Unified Waqf Management, Empowerment, Efficiency and Development کر دیا گیا ہے ۔اس میں آغاخانی وقف اور بوہرہ وقف کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس بل میں زبانی وقف کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ شریعت اسلامی میں زبانی وقف کو تسلیم کیا گیا ہے، نئے بل کے رو سے زبانی وقف معتبر نہیں ہوگا۔ وقف ایکٹ 1995 میں زبانی وقف کومعتبر مانا گیا ہے ۔
وقف ٹریبونل کے ذریعہ جاری فیصلہ کا سول ریویزن کیا جاتا تھا، لیکن نئے بل میں وقف ٹریبونل کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ فائل، اپیل کرنے کا ضابطہ رکھا گیا ہے۔ اس کے ذریعہ وقف ٹریبونل کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔

نئے بل میں Waqf by User کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ ایسی اراضی جس کا وقف نامہ موجود ہو اسی کو وقف مانا گیا ہے ۔ سرکاری یا غیر مزروعہ عام زمین پر قائم قبرستان یا مذہبی مقامات جو قبل سے وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہیں، وہ وقف ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار کلکٹر کو دیا گیا ہے،کلکٹر کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی رجسٹریشن کی کاروائی پوری ہوگی، ظاہر ہے اس سے وقف اراضی کے رجسٹریشن کا عمل بہت پیچیدہ اور مشکل ہو جائے گا ساتھ ہی مذہبی مقامات اور قبرستان کا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا ۔

یہ بھی پڑھیں:

سینٹرل وقف کونسل کی تشکیل میں دو غیر مسلم کو ممبر بنانے کا ضابطہ رکھا گیا ہے ۔ اسی طرح ریاستی وقف بورڈ کی تشکیل میں بھی دو غیر مسلم شخص کو ممبر بنائے جانے کا ضابطہ ہے ۔واضح رہے کہ Hindu Endowment Act, Hindu Religious Pious Act, Grudwara Parbandhak Samiti اور دیگر مذہبی ایکٹ میں کسی مسلمان کو ممبر بنانے کا ضابطہ نہیں ہے تووقف بل میں غیر مسلم کو ممبر بنائے جانے سے سماج میں انتشار پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔وقف ایکٹ 1995 کے تحت وقف بورڈکا ایک چیف ایکزیکیوٹیو آفیسر ہوگا ،جو مسلمان ہوگا اور ڈپٹی ڈائرکٹر رینک کا ہوگا۔ اس نئے بل میں مسلمان ہونے کی شرط کو ختم کردی گئی ہے اور رینک جوائنٹ سکریٹری کر دیا گیا ہے ۔
نئے بل میں وقف سیس کو سات فیصد سے گھٹاکر پانچ فیصد کر دیا گیا ہے ۔ وقف ایکٹ 1995 کے تحت پچاس ہزار سے کم آمدنی والے وقف اسٹیٹ کا آڈیٹ نہیں کیا جاتا تھا ، اب اس کو بڑھا کر ایک لاکھ کر دیا گیا ہے۔ نئے بل کے مطابق جس وقف اسٹیٹ کی آمدنی سالانہ ایک لاکھ سے زائد ہوگی اس کا آڈیٹ کیا جائے گا ۔ نئے بل میں وقف اراضی کو وقف بورڈکے ذریعہ تحقیقات کے بعد وقف اراضی ڈکلیر کرنے کا حق بھی ختم کر دیا گیا ہے اب یہ اختیار ضلع کلکٹر کو دیا گیا ہے ۔اس بل کے مطابق واقف کا وقف کرتے وقت کم از کم پانچ سال قبل مسلمان ہونا ضروری ہے۔ جس کی رو سے اب ہر آدمی وقف نہیں کر سکتا ہے۔ ایسا شخص جو کم از کم پانچ سال سے اسلام کا پابند رہا ہو وہ اپنی جائداد کو وقف کر سکتا ہے۔ وقف ایکٹ 1995 میں یہ شرط نہیں تھی۔
بل میں وقف ایکٹ 1995 میں دیئے گئے وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کر تقریباً ختم کر دیا گیا ہے ۔ اس کے نفاذ سے بجائے وقف کے معاملات سلجھنے کے اور پیچیدہ ہوجائیں گے اور نئے نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ وقف کی جائداد واقف کی منشا کے مطابق استعمال ہونے کے بجائے حکومت کی منشا کے مطابق استعمال ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا ، وقف ٹریبونل کی حیثیت کم ہونے سے انصاف کی راہ مشکل ہوجائے گی۔تعجب خیز امر یہ ہے کہ حکومت اتنے اہم ، حساس اور شرعی معاملے پر مسلم سماج سے بغیر صلاح و مشورہ کے بل لائی ہے، جس میں وقف کے مفادات کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے۔بل کا مقصد وقف املاک کا تحفظ، فروغ اور ناجائز قبضوں سے آزاد کرانا ہونا چاہئے۔بل لانے سے قبل اسلامی شریعت اور وقف کے ماہرین سے رائے لی جانی چاہئے اور مسلم سماج کو یہ مطمئن کرانا چاہئے کہ بل وقف کے مفادات کو تحفظ فراہم کرائے گا اور اس کے ذریعہ کسی بھی طرح کے مذہبی معاملات کو آنچ نہیں آئے گی۔
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اوقاف کے مفادات کو سب سے زیادہ نقصان اپنوں سے پہنچا ہے۔بدعنوانی اور عدم شفافیت کے بڑھتے معاملات ہماری کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں، اس لئے ملک گیر پیمانے پر عوام میں بیداری لانا اور وقف کے تئیں جواب دہ ہونا ازحد ضروری ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وقف املاک بنیادی طور پر اللہ کی ملکیت ہے ۔ اس پر کسی فرد واحدکی اجارہ داری نہیں ہے ۔ متولی محض اس کا نگراں اورمحافظ ہے۔ اسے وقف اراضی خرد برد کرنے یا من مانے ڈھنگ سے استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ عوام میں بیداری لائی جائے، اس کے انتظام میں شفافیت برتی جائے۔ہم. اپنی کارکردگی سے کوئی ایسا موقع نہ دیں جس سے حکومت کو سخت قدم اٹھانا پڑے۔ اس پیغام کو عام کیا جائے کہ وقف ایک مذہبی اور خیراتی املاک ہے، اس کے مستفید ہونے کا اصل حقدار مسلم سماج کے غریب ، نادار، یتیم، بیوہ اور مالی اعتبار سے کمزور اور خستہ حال لوگ ہیں۔اب جب کہ وقف ترمیمی بل 2024 جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے، ملی و مذہبی رہنماؤں اور تنظیموں کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے ان کو چاہئے کہ وہ جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے اراکین، سیاسی رہنماؤں اور پارٹیوں سے مل کر اپنے خدشات اور بل کی خامیوں کو پیش کریں اور اس کے ازالہ کی بھرپور جدوجہد کریں۔

Exit mobile version