Site icon

وقف ایکٹ ترمیمی بل2024- مکمل لوٹ کی منظم منصوبہ بندی

✍️بقلم: امدادالحق بختیار

_______________

وقف : خیر خواہی، ہمدردی، تعاون اور معاشرتی بہبود کی ایک بہترین شکل ہے، اور اسلام میں صدقہ جاریہ کی دیرپا اور محفوظ صورت ہے، اسلامی نقطہ نگاہ سے یہ ایک عبادت ہے، انسان اپنے دین، اپنی قوم وملت اور اس کے افراد کے لیے اپنی جائداد کا ایک حصہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالی کے نام پر وقف کرتا ہے، اسلام کی تاریخ کے ساتھ وقف کی روایت بھی قدیم ہے، عہدِ رسالت مآب ﷺ اور صحابہ ؓ کے زمانہ سے آج تک اور ان شاء اللہ قیامت تک یہ روایت برقرار رہے گی۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی موقوفہ جائداد:

ہندوستان میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی وقف کی روایت شروع ہوگئی تھی؛ یہاں بھی ہمارے اسلاف نے بڑی مقدار اور تعداد میں اپنی جائداد وقف کی ہیں، جو ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہیں؛ ایک اندازہ کے مطابق ہندوستان میں تقریبا ً 8 تا 10 لاکھ ایکڑ زمین وقف ہیں، جن کی قیمت 12000بلین سے زائد ہے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ زمین ریلوے کے پاس ہے، اس کے بعد وزارت دفاع کے پاس ہے اور تیسرے نمبر پر اوقاف کی زمین ہیں۔ اوقافی جائیدادوں کے تعلق سے پارلیمانی کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ہندوستان کی موقوفہ املاک سے سالانہ(25) کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی ہے؛ لیکن ان کی حفاظت وخبر گیری کی جائے تو یہ آمدنی سالانہ چھ سو (600)کروڑ روپے با آسانی ہوسکتی ہے۔

لیکن ملک عزیز میں مسلمانوں کی بالادستی اور حکومت کے ختم ہوتے ہی، ان اوقافی جائدادوں پر بری نگاہیں پڑنے لگیں، حتی کہ ان کی صیانت اور حفاظت مسلمانوں کے لیے ایک چیلنج بن گئی، خاص طور پر آزادی کے بعد مسلمانوں کو جن مختلف سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا ،ان میں سے ایک بہت نازک اور تشویشناک مسئلہ موقوفہ جائیدادوں کا تحفظ اور اس کی آمدنی کا مناسب استعمال بھی ہے۔

اوقافی زمینوں کی لوٹ:

ہر زمانے اور ہر دور میں ہر حکومت نے اوقافی جائدادوں پر قبضے کیے ، ان کا من مانی استعمال کیا گیا، قبضہ کی یہ منحوس اور ظالمانہ روایت انگریزی دور اقتدار سے لے کر ابھی تک جاری ہے، اور اب موجودہ اقاف کی جائیدادوں میں سے تقریباً 80 فیصد پر حکومت اور عوام کا قبضہ ہو چکا ہے ، صرف 20 فیصد اوقافی جائداد وقف بورڈ کے پاس محفوظ ہیں۔ سب سے بڑی مقدار میں ہریانہ اور پنجاب میں اوقافی جائداد پر قبضے کیے گئے، جہاں سے مسلمان ترک وطن کر کے پڑوسی ملک چلے گئے ۔ اسی طرح مہارشٹر میں بھی سب سے زیادہ اوقاف کے ساتھ خرد برد کی جا رہی ہے؛ بلکہ خود ملک کی راجدھانی دہلی میں اوقافی کی زمینوں کا بیشتر حصہ حکومت اور عوام کے ناجائز قبضے میں ہے، تلنگانہ میں 77,538 ایکڑ اوقاف کی زمینات ہیں، ان میں سے صرف 16000 ایکڑ زمین قانونی چارہ جوئی سے پاک ہے، یعنی وقف بورڈ کے پاس صرف 20 فیصد زمینات بچی ہیں، جن کی سالانہ آمدنی 50 سے 70 لاکھ کے درمیان ہے۔ دیگر ریاستیں: گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور بنگال کی صورت حال بھی بد تر ہے۔
اوقاف کی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ سیاسی لیڈران، اوقاف کے متولیان اور وقف بورڈس کا عملہ بھی ہے، ان میں سے جس کو جہاں موقع ملا، مال غنیمت سمجھ کر ان سب نے اوقاف کی جائداد کو دونوں ہاتھ سے لوٹا۔

اوقاف کی حفاظت اور وقف ایکٹ:

اوقاف کی حفاظت کے لیے آزادی سے پہلے بھی ایک قانون اور ایکٹ بنایا گیا تھا، جسے وقف ایکٹ 1923 کہتے ہیں، پھر آزادی کے بعد ایک ایکٹ تشکیل دیا گیا ، جسے 1954 وقف ایکٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں وقف کے تمام تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا تھا، پھر’’ وقف ایکٹ 1959‘‘ کے نام سے اس میں کچھ ترمیم ہوئی، تاہم خامیاں ابھی باقی تھیں، پھر 1964، 1969 اور پھر 1995 میں بھی ترمیمات ہوتی رہیں، آخری ترمیم 2010 میں ہوئی، جس کا نام وقف ایکٹ 2010 رکھا گیا؛ لیکن یہ تمام ترمیمات اس کہاوت کی طرح تھیں: ’’ مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دوا کی‘‘۔ یعنی ان میں سے کوئی بھی ایسا ایکٹ نہیں تھا، جو مکمل اوقافی جائداد کے تحفظ کا ضامن ہو اور اس کے صحیح استعمال کی گارنٹی دیتا ہو۔

نیا وقف ایکٹ ترمیمی بل2024:

8/ اگست بروز جمعرات کو پارلیامنٹ میں حکمراں پارٹی: بی. جے . پی نے نیا ’’وقف ایکٹ ترمیمی بل 2024‘‘ پیش کیا، این. ڈی. اے کی حلیف جماعتوں نے اس کی تائید کی، اپوزیشن نے سخت مخالفت کی ؛ بالآخر یہ بل سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ اس بل میں تقریباً 40 ترمیمات کی گئی ہیں، بعض ترمیمات مناسب بھی ہو سکتی ہیں؛ لیکن دوسری بعض ترمیمات وقف کے اسلامی قانون کے سراسر خلاف ہیں، خود ہندستانی آئین کے خلاف ہیں، بلکہ اس ایکٹ کو آپ اوقاف کی مکمل لوٹ کھسوٹ کا ’’منظم سرکاری خاکہ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔

چنانچہ ان ترامیم (Amendments)کے ذریعہ حکومت وقف کی حیثیت کو بالکل ختم کرنا چاہتی ہے، بچی کچی اوقافی جائدادوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، اور ان تمام اوقافی جائدادوں سے مسلمانوں کو محروم کرنا چاہتی ہے؛ یہ ایسا ایکٹ ہے، جس کے نفاذ کے بعد سے ہی ہندوستان میں اوقافی جائداد کی آخری سانسیں شروع ہو جائیں گی، اس کے بعد مسلمانوں سے ان کی درگاہیں، ان کے آستانے، عاشور خانے، عید گاہیں، دینی مدارس؛ حتی کہ مساجد بھی چھین لی جائیں گی۔ اور مسلمانوں کے پاس قانونی چارہ جوئی کا بھی موقع نہیں رہے گا؛ کیوں کہ یہ منظم لوٹ کھسوٹ اور ڈکیتی، قانون کے سہارے ہی ہوگی، اس ایکٹ کے بعد قانون کا استعمال اوقاف کی صیانت کے لیے نہیں؛ بلکہ اس کی بربادی اور ہلاکت کے لیے کیا جائے گی۔
بل کی درج ذیل ترمیمات کے ذریعہ اس بھیانک سازش کو کھلی آنکھوں دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے:

واقف کا کم از کم پانچ سالہ قدیم مسلمان ہونا:

اس نئے بل میں ایک ترمیم یہ پیش کی گئی ہے کہ وقف کرنے کے لیے ضروری ہے کہ واقف کم از کم پانچ سال سے مسلمان ہو اور اسلام پر عمل کر رہا ہو، یعنی اگر کوئی نو مسلم (New Muslim)ہے اور اسے اسلام قبول کیے ہوئے، ابھی پانچ سال نہیں گزرے ہیں، تو وہ وقف کرنے کی اہلیت (Ability)نہیں رکھتا، اس کا وقف معتبر نہیں ہوگا، اس نے اگر کوئی زمین وقف کی ہے ، تو وقف کے دائرے میں نہیں آئے گی۔

نئے ترمیمی بل کی یہ شرط، شریعت اسلامیہ کے وقف قانون کے بالکل خلاف ہے، یہ براہ راست شریعت پر حملہ ہے، اسلام میں وقف کرنے کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں لگائی گئی ہے۔ نیز اس ترمیم کے ذریعہ عین ممکن ہے کہ بہت سی وقف جائدادوں پر حکومت یہ کہہ کر قبضہ کر لے کہ اس کو وقف کرنے والایا تو مسلمان نہیں تھا، یا اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد پانچ سال گزرنے سے پہلے ہی، یہ وقف کر دیا تھا۔

وقف بورڈ میں غیر مسلم آفیسر اور ممبر کا تقرر:

ایک ترمیم یہ پیش کی گئی ہے کہ مرکزی اور ریاستی دونوں وقف بورڈ میں ایک غیر مسلم چیف ایگزیکیٹو آفیسر (Chief Executive Officer)اور کم از کم دو غیر مسلم ممبران کی تقرری ہو سکتی ہے۔
یعنی وقف، جس کا اسلام میں مکمل قانون اور اس کی طویل تفصیلات موجود ہیں، وقف اور اس کے معاملات، جو اسلامی وقف قانون کے مطابق ہوں گے، اب ان کا آفیسر اور بڑا ذمہ دار ایک غیر مسلم ہوگا، اس کے دو ممبران غیر مسلم ہوں گے، یہ کیسی خلاف عقل (Irrational)بات ہے ۔

دوسری طرف دیگر مذاہب کے کسی بھی بورڈ میں، جیسے ہندو انڈومنٹ بورڈس، چار دھام کمیٹی اور سکھ گردوارہ پربھندک کمیٹیوں میں دوسرے مذہب کا ماننے والا نہیں ہوتا، جو بالکل صحیح ہے، ہونابھی نہیں چاہیے؛ لیکن مسلمانوں کے وقف بورڈ میں غیر مسلم آفیسر کے تقرر کا، کیا تُک بنتا ہے؟

اس بل کا ایک عجیب تضاد یہ بھی ہے کہ اس بل کے مطابق وقف کرنے کے لیے کم از کم پانچ سال کا قدیم مسلمان ہونا ضروری ہے؛ لیکن وقف کا آفیسر اور ممبر بننے کے لیے مسلمان ہونا بھی شرط نہیں ہے، یعنی جس میں وقف کرنے کی اہلیت نہیں ہے، وہ بھی وقف کا آفیسر بن سکتا ہے، اس تضاد پر تو یہی کہا جائے گا: جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے!
جب وقف بورڈ کا چیف ایگزیکیٹو آفیسرایک غیر مسلم ہوگا، جسے نہ قرآن کا علم، نہ حدیث کا علم، نہ فقہ کا علم، نہ وقف کے اسلامی قوانین کا علم ، نہ وقف کی نزاکتوں کی معرفت، تو اندازہ لگائیں کہ ایسے آفیسر کی زیر نگرانی وقف کی تباہ کاری کس سطح (Level) پر ہوگی!

منصوبہ سازوں کی چالاکی کا اندازہ لگائیں کہ جب وقف بورڈ کا بڑا افسر ایک غیر مسلم ہوگا ، تو وقف میں جو مختلف نوع کی نوکریاں نکلیں گی، وہ مسلمانوں کو دے گا یا غیر مسلم کو، کیا اس سلسلے میں افسر تعصب سے کام نہیں لے گا؟ اور اس کے تعصب کے نتیجہ میں مسلمانوں کے پاس اپنی ہی جائداد میں جو کچھ نوکریاں مل سکتی تھیں، ان سے وہ بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے!

وقف کی متنازع زمینوں کا فیصلہ ضلع کلکٹر کے سپرد:

ایک ترمیم یہ ہے کہ پورے ہندوستان میں وقف کی کسی بھی زمین، چاہے وہ مسجد کی ہو، مدرسہ کی ہو،عیدگاہ کی ہو، یا درگاہوں کی ہو، اگر اختلاف ہو جائے، یعنی کوئی فریق اس کے خلاف عرضی داخل کردے کہ یہ زمین وقف کی نہیں ہے، تو اب یہ فیصلہ کہ وقف کی زمین ہے یا نہیں ہے، کون کرے گا؟
پہلے اس فیصلہ کا اختیار وقف ٹریبونل کو حاصل تھا؛ جہاں متنازع زمینوں کا فیصلہ ہوتا تھا، جہاں عدالتی طرز پر کاروائی ہوتی تھی، لیکن اس ترمیمی بل میں اس کے اختیارات سلب کر لیے گئے اور اب ضلع کلکٹر اور ضلع مجسٹریٹ(ڈی. ایم) کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کونسی جائداد وقف کی ہے اور کونسی سرکاری؟ یعنی فیصلہ کا تمام تر اختیار ایک فرد واحد کی رائے پر چھوڑ دیا گیا ہے، اس کا فیصلہ آخری، حتمی اور قانونی ہوگا۔

یہ ترمیم وقف کے لیے انتہائی مہلک اور سب سے خطرناک ہے، اس کے ذریعہ ہی تمام اوقافی جائدادوں پر بآسانی حکومت کا قبضہ ہو سکتا ہے؛ کیوں کہ اگر خدانخواستہ یہ بل پاس ہوتا ہے، تو پھر اوقافی جائدادوں پر اعتراض اور حق کے دعوے کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جائے گا، اس کا م کے لیے بھی شرپسند عناصر کی ایک مکمل ٹیم تیار بیٹھی ہے۔ پھر کسی بھی وقف جائداد کے متنازع ہونے کے بعد اس کا فیصلہ ضلع کلکٹر کے پاس جائے گا اور ضلع کلکٹر ہو یا مجسٹریٹ، ان کا تعین بھی حکومت ہی کرتی ہے اور وہ حکومت کی ہدایات کے مطابق ہی کام کرتے ہیں؛ لہذا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اختلاف کی صورت میں فیصلہ کس کے حق میں جائے گا؟ بقول شاعر:
اسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف
ہمیں یقیں تھا، ہمارا قصور نکلے گا
پھر یکے بعد دیگرے تمام اوقافی جائدادوں کو متنازع بنا دیا جائے گا اور ایک ایک کر کے، سب مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گی اور مسلمان کچھ نہیں کر پائیں گے۔

وقف کی آمدنی کے مصارف:

ایک ترمیم یہ کی گئی ہے کہ اوقاف کی آمدنی کو حکومت اپنی زیر نگرانی مسلم بیواؤں اور یتیموں پر خرچ کرے گی۔ یہ ایک نفسیاتی اور ہمدردی کی آڑ میں حملہ ہے۔ جو لوگ مسلمانوں کو ہر اعتبار سے کمزور کرنا چاہتے ہیں، اس ملک میں مسلمانوں کو تمام طرح کے حقوق سے محروم کرنا چاہتے ہیں، تعلیمی، سماجی اور معاشی تمام سطح پر مسلمانوں کی کمر توڑنا چاہتے ہیں، وہ چالاک ، عیار، مکار اور شاطر گیدڑ ، ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر ، کہتے ہیں کہ ہم مسلم بیواؤں اور یتیموں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پھلے بھی متعدد سرکاری مراعات اور سبسڈیاں جو مسلمانوں کو مل رہی تھیں، اسی طرح کی چکنی چپڑی باتوں کا سہارا لے کر ختم کی گئیں۔ اوقاف کے حوالے سے بھی اس کی آمدنی مسلمانوں پر خرچ کرنے کی نیت نہیں ہے؛ بلکہ اس بہانے تمام آمدنی پر قبضہ کرنا اور انہیں ہضم کرنا مقصد ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اوقاف کی جائداد کی آمدنی کہاں خرچ ہوگی؟ اس کی مکمل تفصیلات ’’قانون اوقاف اسلامی ‘‘ میں درج ہیں، جس کا ضابطہ یہ ہے کہ واقف نے جس مقصد سے کسی جائدادکو وقف کیا ہے، اسی مقصد میں اس وقف کی آمدنی کو خرچ کرنا ضروری ہے، دوسرے مقاصد اور مصارف میں وہ آمدنی خرچ نہیں کی جائے گی؛ لہذا حکومت کا یہ شوشہ ’’قانون اوقاف اسلامی ‘‘کے خلاف ہے، جسے کسی قیمت پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح موجودہ ترمیم وقف ایکٹ 1995 کے بھی خلاف ہے، جس میں درج ہے کہ وقف کی آمدنی اسلامی قانون کے مطابق خرچ کی جائے گی۔

شریعت اور آئین سے متصادم دیگر ترمیمات:

اسی طرح یہ بل آئین کے آرٹیکل 14، 15، 25، 30 کے اصولوں کے خلاف ہے، جن میں مذہبی آزادی اور اپنے مذہبی ادارےسنبھالنے کا اختیار ہے۔ لہذا اس بل سے مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب ہوتی ہے، جو دستور ہند کے خلاف ہے۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زبانی وقف کا اعتبار نہیں ہوگا، اس کے لیے دستاویزات ہونا ضروری ہے، جبکہ شریعت میں ایسی کوئی قید نہیں ہے، نیز 1995وقف ایکٹ میں زبانی وقف کو معتبر مانا گیا۔ اس بل میں وقف علی الاولاد کو قانونی حیثیت دینے سے انکار کیا گیا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اپنی تمام جائداد اپنی اولاد پر وقف کرنا چاہے تو اس کا اختیار اسے نہیں ہوگا۔ جبکہ ہندو اینڈومنٹ بورڈس میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ نیز یہ اسلام کے قانون وقف کے بھی خلاف ہے۔

خلاصہ یہ کہ حکومت کا مقصد اس بل کے ذریعہ وقف کی حیثیت کو ختم کرنا ، اوقاف کی آمدنی اور پھر جائدادوں پر قبضہ کرنا ہے، اور اوقافی املاک سے مسلمانوں کو محروم کرکے، معاشی طور پر انہیں مزید کمزور کرنا ہے۔ اس بل کے بعد اوقاف کے تنازع اور کلکٹر کی من مانی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگا اور پھر ایک ایک کرکے تمام اوقافی جائدادوں کی وقف حیثیت کالعدم کر دی جائے گی؛ حتی کہ دینی مدارس، مساجد اور عیدگاہیں بھی مسلمانوں سے چھین لی جائیں گی؛ لہذا کسی بھی حال میں اس ترمیمی بل کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔

Exit mobile version