ذات پر مبنی مردم شماری
پٹنہ ہائی کورٹ سے نتیش سرکار کو بڑا جھٹکا، ذات پر مبنی مردم شماری پر روک
پٹنہ: ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔ جس میں بہار حکومت کے ذات پر مبنی مردم شماری کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا تھا کہ تین دن میں سماعت کے بعد پٹنہ ہائی کورٹ کو اس معاملے میں عبوری حکم دینا چاہیے۔ بہار حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل پی کے شاہی پٹنہ ہائی کورٹ میں اپنے دلائل پیش کررہے تھے۔
پٹنہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگلی سماعت 3 جولائی کو ہوگی۔ تب تک کوئی ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا جائے گا۔اطلاع کے مطابق عدالت نے تفصیلی سماعت تین جولائی کو کرنے کی بات کی ہے۔۔ فی الحال عدالت سے یہ فیصلہ آنے کے بعد نتیش حکومت کو کہیں نہ کہیں بڑا جھٹکا لگا ہے۔ تاہم 3 جولائی کے بعد دیکھنا ہوگا کہ عدالت کا کیا فیصلہ آتا ہے۔
معاملہ کیا ہے: دراصل درخواست میں کہا گیا ہے کہ ذات پات کی مردم شماری میں لوگوں کی ذات کے ساتھ ساتھ ان کے کام اور ان کی اہلیت کی تفصیلات بھی لی جا رہی ہیں۔ یہ ان کے پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے ریاستی حکومت کو ذات پات کی مردم شماری کرانے کا آئینی حق حاصل نہیں ہے۔ نیز اس پر خرچ ہونے والے 500 کروڑ روپے بھی ٹیکس کی رقم کا ضیاع ہے۔
بتاتے چلیں کہ اس سے قبل ہائی کورٹ نے بہار حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا ذات پات کی مردم شماری کرانا
- حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے ؟
- اس حساب کا مقصد کیا ہے؟
- کیا اس حوالے سے کوئی قانون بنایا گیا ہے؟
- کیا معاشی سروے کرنا قانونی ذمہ داری ہے؟
بہار حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پی کے شاہی نے عدالت میں کہا تھا کہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لیے حساب کتاب کیا جا رہا ہے۔ اس حساب سے حکومت کے لیے غریبوں کے لیے پالیسیاں بنانا آسان ہو جائے گا۔
بتادیں کہ بہار میں ذات پات کی مردم شماری کا کام جنوری 2023 میں شروع ہوا تھا۔ دوسرے مرحلے کا کام 15 اپریل سے 15 مئی تک ہونا تھا۔ پہلے مرحلے میں گھروں کی گنتی کی گئی۔ دوسرے مرحلے میں مردم شماری افسران گھر گھر جا کر لوگوں کی ذات اور ان کی معاشی تفصیلات کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہے تھے۔