انوارالحسن وسطوی
_____________________
جیسا کہ ہم سبھی واقف ہیں کہ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور جناب کرن ر جیجو نے گزشتہ 8/ اگست 2024 کو لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل 2024 پیش کیا تھا- حکومت کے مطابق اس بل کو ایوان میں پیش کرنے کا مقصد وقف قانون میں تبدیلی لانا اور اس میں شفافیت پیدا کرنا ہے- اس سلسلے میں حکومت کا یہ ماننا ہے کہ 1995 ء میں جو وقف بل لایا گیا تھا وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہی سبب ہے کہ اس بل کو لایا جا رہا ہے۔ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ وقف ترمیمی بل 2024 غریب مسلمانوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے اور اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تواربوں روپیوں کی مالیت کی وقف املاک کا غلط استعمال رک جائے گا۔ اس بل کی حمایت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اس کی تمام حلیف جماعتیں شامل تھیں۔ یعنی این ڈی اے محاذ کی تمام پارٹیوں کی حمایت اس بل کو حاصل رہی۔ جبکہ اپوزیشن پارٹیوں میں کانگریس، سماجوادی پارٹی،ترنمول کانگریس،ڈی ایم کے، این سی پی(شردپوار)، مسلم لیگ اور ایم آئی ایم وغیرہ پارٹیوں کی جانب سے اس بل کی زوردار مخالفت کی گئی اور اسے مذہبی آزادی کے حق پر حملہ اورآئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ اس بل کو اپوزیشن پارٹیوں نے فاشزم کی طرف بڑھتا ہوا قدم سے تعبیر کیا۔اپوزیشن کی جانب سے بولنے والے چند مقرروں نے ا سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور انہیں ٹارگٹ پر لینے کے مترادف قرار دیا۔اس بل کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کے اعتراض میں کافی وزن تھا کیونکہ اس بل کے قانون بن جانے کے بعد مسلمانوں کے وقف کی تمام جائیدادیں مکمل طور پر سرکاری تحویل میں چلی جائیں گی جس سے مساجد، مدارس، یتیم خانے، خانقاہیں اور قبرستان سب کے وجود پر خطرہ لاحق ہو جائے گا اور وقف کی جائیداد سے مسلمانوں کا کنٹرول بالکل ختم ہو جائے گا۔ حکومت اپنے اس قانون کے ذریعہ وقف کی املاک پر قبضہ کر کے اسے اپنے مقصد کے حصول کے مطابق استعمال کرے گی۔پھر قبرستان کو ”کالی استھان“ اور مسجد کو”مندر“ ثابت کر کے مسلمانوں کو ان کے تصرف سے بے دخل کرنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اس طرح یہ بل آئین میں درج بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے اور ملک کے سیکولر ڈھانچے کو برباد کرنے کے بھی مترادف ہے۔
لوک سبھا میں یہ یہ بل پیش ہونے کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کی پرزور مخالفت کے سبب اسے مشترکہ پارلیمنٹری کمیٹی (JPC) کے پاس بھیجنے کا حکومت نے فیصلہ لیا۔مزید یہ کہ این ڈی اے اتحاد میں شامل پارٹیوں میں تیلگو دیشم پارٹی اور لوک جن شکتی پارٹی(رام بلاس) نے بل کی حمایت کرنے کے باوجود اس بل پر مزید غور و خوض کے لیے حکومت کو اسے مشترکہ پارلیمنٹری کمیٹی کو بھیجنے کی صلاح دے ڈالی۔ ایسی صورت میں حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ وہ بل پاس کرانے کی کوشش سے بازآ جائے اور اسے مشترکہ پارلیمنٹری کمیٹی(JPC) کے سپرد کر دے۔ یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ این ڈی اے حکومت میں شامل تیسری بڑی پارٹی جے ڈی یو کے ایوان لیڈر راجیو رنجن سنگھ عرف للن سنگھ نے اس بل کی نہ صرف پرزور حمایت کی بلکہ بل کے تعلق سے اپوزیشن لیڈر کے موقف کو مسلمانوں کی نازبرداری قرار دے دیا اور اس بل کے مسلم مخالف ہونے کے خدشے کو بھی مسترد کر دیا۔ اپنی تقریر کے دوران مسٹر للن سنگھ کا تیور اس قدر جارحانہ تھا کہ اس معاملے میں وہ بھاجپا کے بھی کئی مقرروں پر سبقت لے گئے۔ اس طرح انہوں نے اپنے تیور سے یہ ثابت کیا کہ ان کی پارٹی جس کے وہ سابق صدر بھی رہ چکے ہیں پورے طور پر بھاجپا کی وفادار ہے، اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونی چاہیے۔اس بل کو جے ڈی یو کی پرزور حمایت کے بعد سوشل میڈیا میں یہ بات بڑے زور شور سے گشت کرنے لگی کہ جے ڈی یو کے سربراہ نتیش کمار نے اس وقف ترمیمی بل کی حمایت کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے۔حالانکہ سچائی یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو قطعی دھوکا نہیں دیا ہے۔ چونکہ مسلمانوں نے ان سے یہ امید وابستہ کر لی تھی کہ ان کی پارٹی اس بل کی مخالفت کرے گی، اس لیے انہیں یہ دھوکہ لگ رہا ہے۔ جے ڈی یو، این ڈی اے کی حلیف پارٹی ہے۔ اس لیے حکومت جب بھی اور جو بھی قدم اٹھائے گی اس کی حمایت کرنا اس کی مجبوری ہوگی۔ وہ مسلمانوں کی خاطر بھاجپا کو ناراض کرنے کا جو کھم کیوں مول لے گی؟؟ ماضی میں بھی مختلف مواقع ایسے آئے ہیں جب جے ڈی یو نے کبھی ایوان کے اندر حاضر ہو کر اور کبھی ایوان سے واک آؤٹ کر کے بھاجپا کی حمایت کی ہے۔ البتہ مسلمانوں کو جے ڈی یو کے اس موقف سے اس لیے صدمہ پہنچا ہے اور حیرت بھی ہوئی ہے کہ وہ گزشتہ لوگ سبھا الیکشن کے بعد بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں اگلے صوبائی الیکشن 2025 کے موقع پر جے ڈی یو سے اپنا رشتہ مزید استوار اور مضبوط کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اب ان حالات میں انہیں اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت پیش آگئی ہے۔
وقف ترمیمی بل 2024 لوک سبھا میں پیش ہونے،جی ڈی یو کی جانب سے اس بل کی پرزور حمایت کرنے اور مشترکہ پارلیمنٹری کمیٹی (JPC) کے سپرد ہو جانے کی خبر عام ہونے کے بعد اخبارات میں یہ خبر آئی کہ بہار میں جے ڈی یو کے تین مسلم چہرے، وزیر اقلیتی فلاح جناب زماں خاں،بہار سنی وقف بورڈ کے چیئرمین محمد ارشاد اللہ اور بہار شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین سید افضل عباس نے جے ڈی یو کے صدر مسٹر نتیش کمار(وزیراعلیٰ، بہار)سے ملاقات کر کے وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں اقلیتوں کے درمیان پیدا شدہ شکوک و شبہات سے انہیں واقف کرایا اور ان سے اقلیتوں کے مفادات کا خیال رکھنے کی درخواست کی۔کاش!یہ حضرات لوک سبھا میں یہ بل پیش ہونے سے قبل ہی اس بل کے تعلق سے مسلمانوں کے جذبات و احساسات سے جناب نتیش کمار جی کو مطلع کرتے اور ان سے مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت کا خیال رکھنے کی گزارش کیے ہوتے تو ممکن تھا کہ لوک سبھا میں جے ڈی یو کے لیڈر مسٹر للن سنگھ بھی وہی موقف اختیار کرتے جیسا تیلگو دیشم اور لوک جن شکتی پارٹی نے کیا ہے اور للن بابو کو اپنی تقریر کے دوران گرجنے اور برسنے کی نوبت بھی نہیں آتی۔
متعدد ملی تنظیموں اور مسلم لیڈروں نے اپنے اپنے طور پر اس بل کی مخالفت کے لیے میٹنگیں منعقد کیں، قرارداد یں منظور کیں اور حکومت کے اس قدم کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا۔ان تنظیموں میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیت علمائے ہند، ملی کونسل، مسلم مجلس مشاورت اورامارت شرعیہ کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ میٹنگ منعقد کرنے اور قرارداد منظور کرنے کے ساتھ ساتھ ان تنظیموں کے ذریعہ جو کام کرنا ضروری تھا وہ نہیں کیا گیا۔ کام یہ تھا کہ بھاجپا کی حلیف پارٹیوں مثلاً تیلگو دیشم پارٹی کے سربراہ چندر بابو نائیڈو،جے ڈی یو کے سربراہ نتیش کمار اور لوک جن شکتی پارٹی (رام بلاس) کے سربراہ چراغ پاسبان سے مل کر اس بل کے مضمرات پر گفتگو کرنی چاہیے تھی اور انہیں سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی کہ اس بل کے پاس ہو جانے کے نتیجے میں مسلم پرسنل لا ء میں مداخلت ہوگی اور اقلیتوں کوآئین میں دیے گئے حقوق کی پامالی بھی ہوگی جو سراسر غیر جمہوری اور غیر دستوری ہوگا۔ ایسی کوششیں ملی رہنماؤں کے ذریعے ضرور کی جانے چاہیے تھیں، جسے ضروری نہیں سمجھا گیا۔ ربع صدی قبل جب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دوسری تنظیموں کی قیادت کی باگ ڈور مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ اور مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ جیسی دیدہ ور اور دلیر شخصیتوں کے ہاتھوں میں تھی تو وہ حضرات وزیر اعظم ہند تک سے ملنے اور احتجاج کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتے تھے اورآنکھ میں آنکھ ڈال کر باتیں کرتے تھے۔آج ایسی قیادت کا فقدان ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے لوک سبھا میں بل پیش ہونے کے بعد ہی سہی اب یہ فیصلہ لیا ہے کہ اس بل کے تعلق سے تمام اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہان اور این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں کے نمائندوں اور ذمہ داروں سے ملاقات کر کے اس بل کی تمام غلط اور نقصان دہ ترمیمات کے تعلق سے باتیں کی جائیں گی اور جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی(JPC) کے ارکان سے بھی ملاقات کر کے ان کے سامنے اپنا موقف رکھا جائے گا۔ خدا کرے مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کرے اور مقصد کے حصول کے لیے اگر کوئی سخت موقف بھی اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کرے تو اس سے گریز نہ کرنے کا فیصلہ لے۔
ہمیں تمام اپوزیشن پارٹیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے اس غیرآئینی، غیر جمہوری اور غیر منصفانہ بل کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ ہندوستان کے دستور کے تقاضوں کی پاسداری کی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بغیر کسی مصلحت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آواز بلند کی۔امید قوی ہے کہ مشترکہ پارلیمنٹری کمیٹی (JPC) میں بھی اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ این ڈی اے کی حلیف جماعتیں تیلگودیشم اور لوک جن شکتی پارٹی (رام بلاس) بھی اس بل کے غیر آئینی اور غیر دستوری ترمیمات کو منسوخ کرانے کی کوشش کریں گی۔ اگر اس بل کے تعلق سے جے ڈی یو بھی مثبت موقف اختیار کرتی ہے تو مسلمان اس کے بھی ممنون و مشکور ہوں گے۔