بہار میں اردو ادب کا ابتدائی زمانہ: تعارف و تبصرہ

تعارف و تبصرہ

از: ڈاکٹر نورالسلام ندوی

___________________

بہار قدیم زمانے سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے، ہر دور میں اس ریاست نے گلشن علم و ادب کی آبیاری کی ہے، اردو زبان کی ابتدا سے اب تک اس نے لازوال خدمت انجام دی ہے۔ بہار کی قدیم اردو کیا تھی؟ اس کا زمانہ کیا تھا؟ اس عہد میں کن کن ادباءو شعرا نے اردو زبان کو فروغ دیا اور اردو کے سرمائے کو باثروت بنایا؟ اس تعلق سے ڈاکٹر مظفر اقبال، پروفیسر اختر اورینوی اور کلیم احمد عاجز نے قابل قدر کارنامے انجام دیئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ”بہار میں اردو ادب کا ابتدائی زمانہ“ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے مصنف مشہور عالم،ادیب،خطیب، مصنف،محقق پروفیسر سید شاہ حسین احمد ہیں۔
اس کتاب میں ابتدا سے 1857 تک بہار میں اردو نثر اور اردو شاعری کے آغاز وارتقائ، شعراءکے تحقیقی احوال اور ان کے کلام کا نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کا دیباچہ پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کے پیش نظر مکمل تاریخ ادب اردو پیش کرنے کا خاکہ ہے، وہ تدریجاًاس کام کو انجام دینا چاہتے ہیں، یہ کتاب دراصل مکمل تاریخ ادب اردو کی پہلی جلد ہے، دوسری جلد 1858 سے 1947 اور تیسری جلد 1948 سے تا حال ادباءو شعراءکے تذکرے پر مشتمل ہوگی۔میرے خیال میں یہ بہت بڑا پروجیکٹ ہے، اگر یہ کام مکمل ہو جاتا ہے تو واقعی اردو ادب کی پوری تاریخ سامنے آجائے گی، جس کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
”بہار میں اردو ادب کا ابتدائی زمانہ“ چار ابواب میں منقسم ہے، پہلا باب” بہار میں اردو نثر 1857 تک“ اس عنوان کے تحت حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری سے لے کر 1857 تک اردو نثر کی تحریروں کا ذکر کیا گیا ہے، فاضل مصنف نے اردو زبان کے ابتدائی جملے، فقرے وغیرہ کی نشاندہی کی ہے اور بتایا ہے کہ حضرت عشق علی شاہ کی ایک ضخیم کلیات خانقاہ شاہ ارزانی، پٹنہ میں موجود ہے جس کا دیباچہ اردو اور فارسی میں لکھا گیا ہے، اس کا تاریخی نام” فتاوی طریقت“ ہے، فتاوی طریقت 1216 ہجری برآمد ہوتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاہ نے 1216 ہجری میں یہ اردو دیباچہ لکھا تھا، مصنف نے اسے صوبہ بہار میں پہلا باضابط اردو تحریری نمونہ قرار دیاہے اور لکھا ہے کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، اس کے علاوہ انہوں نے 10 سے زیادہ نایاب کتابوں کا تعارف کرایا ہے اور ان کا حوالہ بھی دیا ہے، اسی طرح 1857 سے قبل اردو میں لکھے گئے خطوط، اردو درخواستوں اور اردو اخباروں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کا نمونہ بھی دیا گیا ہے۔ 1857 سے قبل بہار میں لکھے گئے اردو شاعروں کے تذکرے کا تعارف کرایا گیا ہے،آٹھ تذکرہ نگاروں کا ذکر کیا گیا ہے۔
دوسرا باب” بہار میں اردو شاعری 1700 عیسوی تک“ اس باب میں کچھ ایسے اشعار کی تلاش کی گئی ہے جن کا ذکر ابھی تک نہیں آیا ہے، اشعار کی حجت پر بھی گفتگو کی گئی ہے، ساتھ ہی حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری اور مولانا مظفر شمس بلخی اور دوسرے ناموں سے منسوب اشعار پر بحث کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں 1701 سے 1800 تک کے شعراءکے احوال تحقیق کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں اور ان کے کلام کا نمونہ پیش کیا گیا ہے، شعراءکی ترتیب میں سن وفات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اس باب کے تحت میر محمد باقر حزیں سے لے کر شاہ کمال علی کمال تک 31 شعراءکے احوال قلم بند کیے گئے ہیں اور ان کے کلام کا نمونہ پیش کیا گیا ہے، جن کے مطالعے سے اس عہد کی سماجی وتقافتی صورتحال کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
پروفیسر اختراورینوی نے میرمحمد باقر حزیں کے بارے میں لکھا ہے کہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ محمدشاہ بادشاہ کے عہد سلطنت کے شاعر تھے۔ حملہ نادری کے بعد پرےشانِ حال ہوکر عظیم آباد چلے آئے تھے۔ شورش نے انہیں ساکن عظیم آباد لکھا ہے، پروفیسر سیدشاہ حسین احمد نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ دہلی لکھنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے والد کے قتل کے بعد دہلی چلے گئے تھے اور بہت دنوں تک خواجہ محمدخاں کے پاس رہے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ حزیں نے عظیم آباد میں اردو شاعری کی بنیاد رکھی۔
باب چہارم میں 1801 سے 1857 تک کے شعرا کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس باب میں کل 36 شعرا کے احوال قلمبند کئے گئے ہیں اور ان کے حالات تحقیق کے ساتھ چھان پھٹک کر لکھے گئے ہیں، ساتھ ہی ان کا نمونہ کلام بھی پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے راجہ رام نارائن موزوں ولد رنگ لال کا ذکر نہیں کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ موزوں اردو کے شاعر نہیں تھے، اسی طرح عماد الدین قلندر، حضرت غلام نقشبندی سجاد کا ذکر اختر او رینوی نے اپنی تصنیف میں تفصیل سے کیا ہے اور ان دونوں شعرا کا نمونہ کلام بھی دیا ہے، لیکن مصنف نے ان دونوں کا ذکر نہیں کیا ہے، ان کے بارے میں لکھا ہے کہ قدیم تذکروں میں ان دونوں کا ذکر بحیثیت اردو شاعر نہیں ملتا ہے۔ عماد اور سجاد کی ریختہ گوئی کا واحد ثبوت تمنا عمادی کی شہادت ہے، ممکن ہے کہ یہ تمام اشعار تمنا کے نتائج افکار ہوں، پروفیسر اختر اورینوی نے اپنی کتاب بہار میں اردو زبان کا ارتقا (1204 تا 1857) میں وجیہ الدین عشق کا تذکرہ صفحہ نمبر 252 تا 254 پر کیا ہے، البتہ نمونہ کلام پیش نہیں کیا ہے اور لکھا ہے کہ ہنوز مجھے اردو نمونہ کلام نہیں مل سکا۔ وجیہ الدین کے تذکرے میں ان کے والد شیخ غلام حسین مجرم کا ذکر آیا ہے، جن کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ مجرم اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے ان کا ایک اردو مرثیہ قاضی عبدالودود کی نظر سے گزرا ہے، لیکن فاضل مصنف نے ان دونوں شعراءکو اپنے تذکرے میں جگہ نہیں دی ہے اور یہ دلیل پیش کی ہے کہ دونوں فارسی گو شاعر تھے۔ اختر اورینوی نے صفحہ نمبر 61 1 پر قاضی عبدالغفار غفار کا ذکر کیا ہے، ان کا نمونہ کلام بھی پیش کیا ہے اور شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کی زبان خاصی صاف ہے۔ قادر علی فگار عظیم آبادی کا ذکر 245 پر کیا ہے، ان کے بارے میں لکھا ہے کہ قادر کی مثنوی عشق نامہ کا ایک نسخہ مجھے ملا ہے یہ مثنوی 191 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے،فاضل مصنف نے ان دونوں کا بھی ذکر نہیں کیا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ مصنف نے صرف انہیں شعرا کا ذکر کیا ہے جن کی مکمل سند ان کو ملی اور تحقیقی معیار پر پورے اترے، محض اس بنیاد پر کہ کسی بڑے مصنف نے ذکر کیا ہے کوئی بات انہوں نے نہیں لکھی ہے، بلکہ مکمل تحقیق کی ہے۔
کتاب کے مطالعے سے عظیم آباد میں اردو زبان و ادب کے آغاز وارتقا پر بھرپور روشنی پڑتی ہے، عظیم آباد کی قدیم اردو کیا ہے؟اس پر علاقائی اثرات کیا کیا ہیں؟ اس عہد کے شاعروں کا مزاج کیا تھا؟ان کے موضوعات کیا تھے؟ اسلوب کیسا تھا؟ ان شعرا نے کس حد تک دہلی اور لکھنو کے شعرا کا اثر قبول کیا؟ عظیم آبادی شعرا کی اپنی کیا خصوصیات ہیں؟ ان تمام چیزوں پر روشنی پڑتی ہے۔
عظیم آبادی شعراءو ادباءکے طرز و اسلوب پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر اختراورینوی رقم طراز ہیں:
”زبان وبیان کے طرز اور اسلوب اظہار کے اعتبار سے بہار کے اردو ادب پر ہندوستانیت کا رنگ چوکھا رہا ہے۔ اردو زبان و ادب کی روایات کے دواہم دھارے ہیں، ہندوستانیت اور عجمیت…. بہار میں آٹھویں صدی عیسوی تک خصوصاً طرز و اسلوب کے لحاظ سے ہندوستانیت کو غلبہ حاصل رہا ہے۔ بعد ازاں توازن کی صورت پیدا ہوئی۔ اس صوبہ میں عرب عجمیت کو کبھی کامل فوقیت حاصل نہیں ہوئی۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ بہار کی شاعری میں موضوع سخن، فضا اور زبان کے اعتبار سے مقامی رنگ چمک اور بہاری آہنگ گونج اٹھتا ہے۔“
(بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا، ص 330)
اس حوالہ سے پروفیسر حسین احمد کی رائے ملاحظہ ہو:
”یہ بھی حقیقت ہے کہ عظیم آباد کی شاعری کامزاج ابتداءہی سے نیم عارفانہ اور نیم عاشقانہ رہا ہے، لیکن ا س کے ساتھ ساتھ بہاری شعراءابتداءہی سے کچھ دہلی اور کچھ لکھنو کے مقلد رہے اور اکثر عظیم آبادی شعراءاپناسلسلہ شاعری دہلوی شاعر سے ملانا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے رہے۔“
(بہار میں اردو ادب کا ابتدائی زمانہ،ص 310)
بہار میں اردو ادب کا ابتدائی زمانہ“ جو دراصل 1857 تک کی صورتحال پر مشتمل ہے۔ بہار کے اردو شعراءپر زیادہ توجہ دی گئی ہے، اردو نثرنگاروں پر تفصیل کے ساتھ روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔ بہار میں اردو نثر کا تذکرہ ص 15 سے صفحہ 47 تک مشتمل ہے جبکہ شاعری کا حصہ صفحہ 48 سے 306 تک پھیلا ہواہے۔ صفحہ 309 تا 317 پر کتاب کا ماحصل اور خلاصہ پیش کیا گیاہے۔
پروفیسر سید شاہ حسین احمد سجادہ نشیں خانقاہ شاہ ارزانی،پٹنہ ایک منجھے ہوئے، تجربہ کار ذی استعداد استاذ ہیں، ان کا مشغلہ صرف پڑھنا لکھنا اور تحقیق و جستجو کرنا ہے، نہایت یکسوئی کے ساتھ مشاطی علم و ادب میں لگے ہوئے ہیں۔ تحقیق وجستجو میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے،تحقیق اور استناد کے لحاظ سے یہ کتاب مراجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے قبل متعدد کتابیں شائع ہو کر اہل علم و نظر سے داد تحسین وصول کر چکی ہیں۔
بہار میں اردو ادب کا ابتدائی زمانہ “328 صفحات پر مشتمل ہے، سر ورق خوبصورت اور کاغذ عمدہ ہے، اس کا انتساب پروفیسر رئیس انور سابق صدر شعبہ اردو متھلا یونیورسٹی،دربھنگہ کے نام کیا گیا ہے، عام کتابوں کی طرح اس میں مصنف کا تعارف کہیں نہیں ہے،مصنف محتاج تعارف بھی نہیں ہیں، ان کا علمی مقام بلند اور ادبی حیثیت مسلم ہے۔کتاب کی قیمت 500 روپے ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ طلبہ، اساتذہ اور ریسرچ اسکالر کے لیے یہ ایک قیمتی تحفہ ہے، اس میں ان کو قدیم شعراءو ادباءکے علاوہ ایسے شعرا ءوادباءسے آشنائی ہوگی جن کا ذکر اب تک کہیں نہیں آیا ہے۔ کتاب خانقاہ دیوان شاہ ارزانی، پٹنہ، بک امپوریم، سبزی باغ ،پٹنہ اور پرویز بک ڈپو سبزی باغ، پٹنہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

Exit mobile version