شکیل رشید، ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز
_____________
سوال سیدھا سادا ہے : بدلا پور کے اسکول میں دو کمسن بچیوں سے جنسی زیادتی کرنے والے شیطان کے خلاف کارروائی میں تاخیر کیوں کی گئی اور کیوں اس کے گھر پر بلڈوزر نہیں چلایا گیا ؟ اگر بدلا پور کا شیطان کوئی مسلم ہوتا تب کیا اس کے ساتھ ایسی رعایت برتی جاتی ؟ اس سوال کا جواب ’ نہیں ‘ میں ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا جنسی زیادتی کے معاملات حکومت کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے یا ان کی اہمیت اسی وقت ہوتی ہے جب ملزم یا ملزمین مسلمان اور دلت وغیرہ ہوں ؟ اتراکھنڈ میں ایک مسلم نرس کے ریپ اور قتل کا مجرم دھرمیندر پکڑا تو گیا ، لیکن اس کے گھر پر بلڈوزر نہیں چلا جبکہ دھامی کی سرکار ، کسی مسلمان کے چھوٹے سے چھوٹے جرم پر اس کے گھر پر بلڈوزر چلانے کے لیے جانی جاتی ہے ۔ مسجد تک پر اس نے بلڈوزر چلایا ہے ۔ راجستھان میں ، بہار میں اور دیگر مقامات پر ریپ اور کہیں کہیں ریپ کے بعد قتل کے کئی واقعات ہوئے ہیں ، لیکن کہیں بھی بلڈوزر چلتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ہے ۔ ادیپور میں ایک مسلم نوجوان پر ایک غیر مسلم نوجوان کو چاقو مار کر قتل کرنے کا الزام لگا ، حال ہی کا واقعہ ہے ، اس کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا گیا ، نہ کورٹ کا کوٗئی حکم ضروری سمجھا گیا اور نہ ہی الزام کے ثابت ہونے کا انتظار کیا گیا ! ایسے کتنے ہی واقعات ہیں ، جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ عدالت اور قانون سے بلند ہوکر حکومت حرکت میں آتی ہے ، بس ملزم یا ملزمین کے مسلم نام ہوں۔
مذکورہ سوال بدلا پور کے جنسی معاملہ کے بعد شیوسینا نے بھی اٹھایا ہے ۔ بدلا پور معاملہ میں جب جنسی زیادتی کے خلاف ہجوم نے اپنا غصہ اتارا تو پولیس کو بھی نہیں بخشا ۔ عوامی احتجاج نو گھنٹہ چلا ۔ احتجاج ضروری ہے ، لیکن پولیس کا ہر ایک احتجاج میں ایک طرح کا یا ایک جیسا رویہ بھی ضروری ہے ۔ بدھ کے روز شیو سینا کی ایک خاتون قائد سشما اندھرے نے ، بدلا پور سانحہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بجا سوال اٹھایا ہے کہ ’ اگر بدلا پور کے شیطان کا نام اکبر خان یا شیخ ہوتا تو …؟‘ پھر اس سوال کا جواب بھی دیا ہے : ’ تو نتیش رانے ننگا ناچ ناچتا ۔‘ اتنا ہی نہیں پولیس کئی لاشیں گرا دیتی ۔ شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے اور ایم پی سنجے راؤت نے بہت ہی واضح انداز میں کہا ہے کہ مجرم چونکہ بی جے پی کا ہے اس لیے اس کی گرفتاری میں تاخیر کی گئی ، عوام کو مجبور ہوکر سڑکوں پر آنا پڑا ، اگر اس معاملہ میں فوری طور پر انصاف کیا جاتا تو عوام سڑکوں پر آتی ہی کیوں ! انصاف کا یہ جو دوہرا پیمانہ ہے ملک کو کئی دھڑوں میں تقسیم کر رہا ہے ۔ اگر ملزم یا ملزمین کسی ایسے فرقے اور ذات کے ہوں جو حکمرانوں کی نظر میں کوئی معنیٰ نہیں رکھتے تو انہیں سزا دینے میں اتنی عجلت برتی جاتی ہے کہ عدالتوں تک کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے ، لیکن اگر ملزم یا ملزمین کسی خاص فرقے اور ذات برادری کے ہوں یا کسی خاص سیاسی پارٹی کے لیڈر اور ورکر ہوں تو ان کے خلاف کارروائی اسی وقت ممکن ہوپاتی ہے جب عوامی احتجاج شدید ہوتا ہے ، یا سیاسی پارٹیوں کی طرف سے شدید دباؤ بنتا ہے ۔ کولکتہ کی ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کا معاملہ لے لیں ، بلاشبہ اس معاملہ میں بی جے پی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے ، اور حصہ لینا بھی چاہیے کہ واردات انتہائی وحشیانہ ہے ، لیکن یہ احتجاج اپنے طور پر سیاسی ہے ، سبق ممتا بنرجی کو سکھانا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو بھلا خواتین پہلوانوں کے دھرنے پر بی جے پی کے لیڈر ، وزیراعظم مودی کہاں چھپے ہوئے تھے ، کیوں خاموش تھے ؟ بی جے پی کے لیڈران اور کارکنان کئی معاملات میں ملوث رہے ہیں ، ہاتھرس ، اناؤ ، اتراکھنڈ اور کرناٹک کی مثالیں اس کے لیے کافی ہیں ، لیکن وہاں کولکتہ جیسا احتجاج نظر نہیں آیا ! یہ دوہرا رویہ ، یہ دوغلا پن اس ملک میں خواتین کو ، بچیوں اور بچوں کو غیر محفوظ بنا رہا ہے ۔ حکومت چاہے جس کی ہو اسے چاہیے کہ وہ ریپ اور ریپ کے بعد قتل کی وارداتوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے اور ملزم چاہے اس کے اپنے لیڈر ، اس کے ووٹر اور کارکنان ہی کیوں نہ ہوں ان کے خلاف فوری کارروائی کرے ۔ اور بلڈوزر چلوائے تو سب کے گھروں پر کسی ایک فرقے یا ذات سے تعلق رکھنے والوں ہی کے گھروں پر نہیں ۔